عقیدے میں جہالت: کیا یہ تکفیر سے معذوری کا باعث ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

عقیدے کے مسائل میں جہالت: کیا یہ انسانی معذوری ہے؟

تمہید

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقائد کے معاملات میں جہالت کو معذوری شمار کرنے کا مسئلہ فقہی و اجتہادی اختلافات کی طرح مختلف آراء پر مشتمل ہے۔ بعض اوقات کسی مخصوص شخص پر کفر کا حکم لگانے کا اختلاف صرف لفظی ہوتا ہے۔ تمام فقہاء اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ کوئی قول یا فعل کفر ہے، لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ آیا یہ حکم کسی معین فرد پر بھی اس وقت لاگو ہوتا ہے جب تمام شروط مکمل اور موانع ختم ہو چکے ہوں، یا بعض موانع کی موجودگی میں یہ حکم اس پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں "جہالت” کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں:

جہالت کی اقسام

1. غیر مسلم یا دین سے ناواقف شخص

◈ ایسے افراد جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین سے تعلق رکھتے ہیں یا کسی دین سے ہی تعلق نہیں رکھتے اور انہیں یہ خیال بھی نہیں کہ کوئی دین ان کے طرز عمل کے خلاف ہے۔
◈ دنیاوی احکام میں ان کے ساتھ کفر کے احکام کے مطابق معاملہ کیا جائے گا، کیونکہ انہوں نے اسلام قبول ہی نہیں کیا۔
◈ آخرت میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔ راجح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا امتحان لے گا جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے "طریق الہجرتین” میں مشرکین کے بچوں کے بارے میں بیان کیا ہے۔
◈ قرآن کریم فرماتا ہے:
﴿وَلا يَظلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا﴾ (سورۃ الکہف: 49)
"اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔”

2. مسلمان لیکن کفریہ عمل سے ناواقف

◈ وہ شخص جو مسلمان ہے، لیکن لاعلمی میں کفریہ قول یا فعل کا ارتکاب کر بیٹھا اور اسے معلوم نہیں کہ اس کا قول یا فعل مخالف اسلام ہے، اور نہ ہی کسی نے اسے آگاہ کیا۔
◈ اس پر دنیاوی احکام اسلام کے مطابق جاری ہوں گے اور آخرت میں معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔

دلائل قرآن سے

قرآن مجید سے درج ذیل آیات اس مسئلے پر روشنی ڈالتی ہیں:
﴿وَما كُنّا مُعَذِّبينَ حَتّى نَبعَثَ رَسولًا﴾ (سورۃ الاسراء: 15)
’’اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘

﴿وَما كانَ رَبُّكَ مُهلِكَ القُرى حَتّى يَبعَثَ فى أُمِّها رَسولًا يَتلوا عَلَيهِم ءايـتِنا وَما كُنّا مُهلِكِى القُرى إِلّا وَأَهلُها ظـلِمونَ﴾ (سورۃ القصص: 59)
’’اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے بڑے شہر میں پیغمبر نہ بھیج لے جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں۔‘‘

﴿رُسُلًا مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعدَ الرُّسُلِ﴾ (سورۃ النساء: 165)
’’(سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تھا تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے الزام دھرنے کا موقع نہ رہے۔‘‘

﴿ وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشاءُ وَيَهدى مَن يَشاءُ﴾ (سورۃ ابراہیم: 4)
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (اللہ کے احکام) کھول کھول کر بتا دے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘

﴿وَما كانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَومًا بَعدَ إِذ هَدىهُم حَتّى يُبَيِّنَ لَهُم ما يَتَّقونَ﴾ (سورۃ التوبہ: 115)
’’اور اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کر دے جب تک ان کو وہ چیز نہ بتا دے جس سے وہ پرہیز کریں۔‘‘

﴿وَهـذا كِتـبٌ أَنزَلنـهُ مُبارَكٌ فَاتَّبِعوهُ وَاتَّقوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ ﴿١٥٥﴾ أَن تَقولوا إِنَّما أُنزِلَ الكِتـبُ عَلى طائِفَتَينِ مِن قَبلِنا وَإِن كُنّا عَن دِراسَتِهِم لَغـفِلينَ ﴿١٥٦﴾ أَو تَقولوا لَو أَنّا أُنزِلَ عَلَينَا الكِتـبُ لَكُنّا أَهدى مِنهُم فَقَد جاءَكُم بَيِّنَةٌ مِن رَبِّكُم وَهُدًى وَرَحمَةٌ …﴿١٥٧﴾ (سورۃ الانعام: 155-157)
’’اور (اے کفر کرنے والو!) یہ (قرآن) ایک عظیم کتاب ہے، ہم ہی نے اسے اتارا ہے، (یہ) برکت والی ہے، سو تم اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے (اور یہ اس لیے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں پر کتابیں اتری ہیں اور ہم ان کے پڑھنے سے (معذور اور) بے خبر تھے یا (یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں کی نسبت کہیں سیدھے راستے پر ہوتے، سو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔‘‘

سنت سے دلائل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَا يَسْمَعُ بِی اَحَدٌ مِّنْ هٰذِهِ الْاُمَّة ۔ يعنی أمة الدعوة ۔ِ يَهُوْدِیٌ وَّلاَ نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِیْ اَرْسِلْتُ بِهِ اِلاَّ کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ» (صحیح مسلم، الایمان، باب، وجوب الایمان برسالة نبینا محمدﷺ… ح:۱۵۳)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! اس امت میں سے(مراد امت اجابت ہے) کوئی یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے، پھر فوت ہو جائے اور اس دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔‘‘

اقوالِ اہلِ علم

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ (المغنی: 131/8)

"اگر کوئی نو مسلم یا کسی غیر اسلامی علاقے میں پرورش پانے والا شخص ہو یا علم سے محروم علاقے میں زندگی گزار رہا ہو، تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔”

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

◈ آپ نے تکفیر کے باب میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
◈ فرماتے ہیں کہ کسی شخص کی تکفیر اس وقت جائز ہے جب اس پر حجت قائم ہو چکی ہو۔
◈ آپ کے بقول، سلف میں کثیر اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو کافر یا فاسق نہیں کہا گیا۔
مجموع الفتاویٰ: 229/3

شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ (الدرر السنیۃ: 1/56)

"ہم ان لوگوں کو کافر نہیں کہتے جو جہالت کی وجہ سے قبروں کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ نہ انہیں علم ہے، نہ ہی انہیں کسی نے آگاہ کیا ہے۔”

تکفیر کے خطرات

➊ اللہ کے حکم میں افتراء:
کسی ایسے شخص کو کافر قرار دینا جسے اللہ نے کافر قرار نہیں دیا۔

➋ مسلمان کی توہین:
کسی کو بلا دلیل کافر کہنا، جبکہ وہ کفر سے بری ہو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«اِذَا اَکْفَرَ الرَّجُلُ اَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا اَحَدُهُمَا» صحیح بخاری و مسلم (حدیث: 6014، 60، 61)
’’جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر قرار دے، تو ان میں سے ایک کافر ہوتا ہے۔‘‘

تکفیر میں احتیاط کی وجوہات

کتاب و سنت کا ثبوت ہونا ضروری ہے۔
مخصوص شخص پر اطلاق کے لیے شرائط و موانع کی جانچ ضروری ہے۔
علم و شعور کا فقدان، جبر، شدید جذبات، یا تاویل کی بنا پر معذوری معتبر ہے۔

خوارج کی مثال

◈ اگرچہ صحابہ کے خلاف لڑے اور انہیں کافر کہا، پھر بھی اہل علم کی اکثریت نے انہیں تاویل کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مطابق:
"حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے ان سے قتال کیا لیکن انہیں کافر قرار نہیں دیا بلکہ سرکش اور ظالم کہا۔”
مجموع الفتاویٰ: 217/7، 518/28

خلاصہ کلام

◈ جو شخص لاعلمی یا جہالت کے باعث کوئی کفریہ قول یا فعل اختیار کرے تو وہ جہالت کی بنا پر معذور ہے۔
◈ قرآن، سنت اور علماء کے اقوال سب اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ حجت قائم ہونے سے پہلے کوئی تکفیر نہیں۔
◈ اللہ تعالیٰ کے ہاں حجت صرف اس وقت قائم ہوتی ہے جب رسول بھیجا جائے یا دلیل واضح کر دی جائے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1