نظر کی حقیقت اور اس کا مکمل شرعی علاج
نظر لگنا: ایک حقیقت
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نظر لگ جانا ایک برحق اور حقیقت پر مبنی معاملہ ہے، جس کی تصدیق قرآن و حدیث دونوں سے ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف شرعی دلائل سے ثابت ہے بلکہ حسی تجربات سے بھی اس کی صداقت واضح ہوتی ہے۔
قرآن سے دلیل
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن يَكادُ الَّذينَ كَفَروا لَيُزلِقونَكَ بِأَبصـرِهِم﴾
(سورة القلم: ٥١)
’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں نظر لگانے کی بات کی گئی ہے، یعنی وہ اپنی نظروں سے رسول اللہ ﷺ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔
حدیث سے ثبوت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»
(سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة، حدیث: ۳۹۲۵؛ جامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷)
’’نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظر ہوتی، اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔‘‘
صحابہ کا واقعہ: نظر کی شدت
امام نسائی اور ابن ماجہ رحمہما اللہ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے:
◈ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو غسل کرتے ہوئے دیکھ کر کہا:
’’میں نے آج تک کسی کنواری دوشیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘‘
◈ اتنا کہنا تھا کہ سہل فوراً بے ہوش ہوکر گر پڑے۔
◈ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَکَة»
(سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، حدیث: ۳۵۰۹؛ سنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱)
’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ جب کوئی اپنے بھائی میں کوئی خوش کن چیز دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرنے کا حکم دیا:
◈ انہوں نے چہرہ، کہنیوں تک ہاتھ، گھٹنے اور ازار کے اندرونی حصے دھوئے۔
◈ پھر یہ پانی سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ پر بہایا گیا۔
◈ ایک روایت کے مطابق:
(وَاَمَرَہُ اَنْ یَّکْفَأَ الْاِنَائَ مِنْ خَلْفِه)
’’اور آپ نے عائن کو حکم دیا کہ وہ معین کے پیچھے کی طرف سے اس پر پانی کے اس برتن کو انڈیل دے۔‘‘
نظر بد کے شرعی علاج
نظر بد کے علاج کے لیے شریعت نے درج ذیل طریقے اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے:
➊ دم کرنا (رُقیہ)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«لَا رُقْيَةَ اِلاَّ مِنْ عَيْنٍ اَوْ حُمَةٍ»
(صحیح البخاري، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ، حدیث: ۵۷۰۵؛ صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنة بغیر حساب ولا عذاب، حدیث: ۲۲۰)
’’جھاڑ پھونک یا دم صرف نظر لگنے یا زہریلے کاٹے کے علاج کے لیے جائز ہے۔‘‘
حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کو دم کرتے وقت یہ کلمات پڑھتے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»
(صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، حدیث: ۲۱۸۶)
➋ دھونا
◈ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، نظر لگانے والے کو وضو کروایا جائے۔
◈ اس کے جسم کے مخصوص حصے دھلائے جائیں:
✿ چہرہ
✿ ہاتھ کہنیوں تک
✿ گھٹنے
✿ ازار کا اندرونی حصہ
◈ اور اس دھلے ہوئے پانی کو مریض پر بہایا جائے۔
نوٹ:
✿ نظر لگانے والے کے فضلات (پیشاب و پاخانہ) یا اس کے قدموں کی مٹی کا استعمال شرعی طور پر درست نہیں۔
✿ اس کے رومال، ٹوپی، یا قمیض کو اندر سے دھونا بھی ممکنہ طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
واللہ اعلم
کیا نظر سے بچاؤ توکل کے خلاف ہے؟
نظر بد سے پیشگی بچاؤ کے لیے تدابیر اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ عین توکل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کے ساتھ ساتھ ان اسباب کو اپنانا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے جائز یا مشروع قرار دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو ان کلمات سے دم کیا کرتے:
«أَعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»
(صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ۱۰، حدیث: ۳۳۷۱؛ سنن ابن ماجه، الطب، باب ما عوذ به النبیﷺ وما عوذ به، حدیث: ۳۵۲۵؛ سنن أبي داؤد، السنة، باب فی القرآن، حدیث: ۴۷۳۷؛ جامع الترمذی، الطب، باب کیف یعوذ الصبیان، حدیث: ۲۰۶۰)
’’میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلماتِ تامہ کے ساتھ پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان، زہریلی بلا اور ہر لگنے والی بری نظر کے شر سے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل و اسحاق علیہما السلام کو انہی الفاظ سے دم کیا کرتے تھے۔