کیا دعا تقدیر کو بدل سکتی ہے؟
سوال:
انسان کی تخلیق سے قبل اس کی تقدیر میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے، کیا دعا کے ذریعے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دعا کی تاثیر سے تقدیر میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ لیکن اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس تبدیلی کا ظہور دعا کے نتیجے میں ہوتا ہے، وہ بھی تقدیر کا ہی حصہ ہوتی ہے۔ یعنی:
◈ جب کوئی شخص دعا کرتا ہے، تو یہ عمل بھی تقدیر کا ہی جزو ہوتا ہے۔
◈ اسی طرح اس دعا کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے، وہ بھی پہلے سے تقدیر میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔
لہٰذا یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ انسان کی دعا اس تقدیر کو بدل دیتی ہے جو لکھی ہوئی نہیں تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ:
◈ دعا کا کرنا بھی لکھا گیا ہے۔
◈ دعا سے حاصل ہونے والے اثرات بھی مقدر کیے جا چکے ہیں۔
دم اور شفا کا واقعہ:
اسی حقیقت کو سمجھنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے:
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک مہم پر روانہ فرمایا۔
◈ یہ لوگ راستے میں ایک قوم کے پاس مہمان بنے، مگر اس قوم نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا۔
◈ اتفاقاً اس قوم کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا۔
◈ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا: "کیا کوئی دم کرنے والا ہے؟”
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ وہ دم کریں گے مگر اجرت کے ساتھ۔
◈ بطور اجرت، اس قوم نے بکریوں کا ایک ریوڑ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔
◈ صحابہ میں سے ایک صحابی آگے بڑھے اور سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کیا۔
◈ دم کی برکت سے سانپ زدہ شخص یوں اٹھ بیٹھا جیسے کوئی اونٹ ہو جس کی رسی کھول دی گئی ہو۔
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ:
◈ دم (دعا) میں تاثیر ہوتی ہے۔
◈ مریض کو صحت حاصل ہوئی، اور یہ اثر دعا ہی کے نتیجے میں تھا۔
◈ مگر یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہی واقع ہوا۔
دعا اور تقدیر:
بلاشبہ دعا میں زبردست تاثیر ہے، لیکن اس تاثیر کو تقدیر میں تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
◈ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز پہلے سے مقدر ہے۔
◈ تمام اسباب اور ان کے نتائج اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی اثر دکھاتے ہیں۔
لہٰذا:
◈ اسباب بھی مقدر کیے ہوئے ہیں۔
◈ اور ان کے نتیجے میں جو کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور لکھے ہوئے فیصلے کا ہی حصہ ہوتا ہے۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب