گناہگار مؤمن پر عذاب قبر میں تخفیف کی حقیقت
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

گناہگار مؤمن پر عذاب قبر میں تخفیف – تفصیلی وضاحت

سوال:

کیا گناہ گار مومن پر عذاب قبر میں تخفیف کر دی جاتی ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں، گناہگار مؤمن پر عذابِ قبر میں تخفیف کی جاتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل سے واضح ہوتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا:

«إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِی كَبِيرٍ بَلَىٰ إِنَّهُ كَبِيرٌ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَبْرِئُ أَوْ قَالَ: لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، وَقَالَ: لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا»
(صحیح البخاری، الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبة والبول، حدیث: ۱۳۷۸)
(صحیح مسلم، الطهارة، باب الدلیل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء، حدیث: ۲۹۲)

ترجمہ:
"یقیناً ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں، لیکن حقیقت میں یہ بڑا گناہ ہے۔ ان میں سے ایک پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا (یا ستر کا خیال نہیں رکھتا تھا) اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تر شاخ لی، اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ہر قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، اور فرمایا: شاید ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے جب تک یہ دونوں شاخیں خشک نہ ہو جائیں۔”

اس حدیث کی وضاحت:

یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ قبر کے عذاب میں تخفیف ممکن ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ تر شاخوں کا ان دو افراد کے عذاب میں تخفیف سے کیا تعلق ہے؟

پہلا نظریہ:

◈ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ یہ شاخیں اللہ کی تسبیح بیان کرتی رہیں گی جب تک کہ خشک نہ ہو جائیں، اور یہ تسبیح میت کے عذاب میں تخفیف کا باعث ہو گی۔

اس نظریے پر تنقید:

یہ نظریہ کمزور سمجھا گیا کیونکہ:

◈ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، چاہے وہ تر ہو یا خشک، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:

﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾
(سورۃ الإسراء، آیت ۴۴)

ترجمہ:
"ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو، لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔”

◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کنکریوں کی تسبیح سنی گئی حالانکہ وہ خشک ہوتی تھیں، اس لیے یہ کہنا کہ صرف تر شاخیں تسبیح کرتی ہیں، درست نہیں۔

صحیح نظریہ:

◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے امید اور دعا کی کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں، اللہ ان دونوں سے عذاب میں تخفیف فرمائے۔
◈ یہ تخفیف عارضی (وقتی) تھی تاکہ امت کو ان گناہوں کی ہولناکی کا احساس دلایا جائے۔
◈ اس سے یہ مراد نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مستقل شفاعت میں بخل سے کام لیا۔

دو افراد کے گناہ کی نوعیت:

◈ ایک شخص پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتا تھا، اور اس وجہ سے ممکن ہے وہ ناپاک حالت میں نماز پڑھتا رہا ہو۔
◈ دوسرا چغل خوری کرتا تھا، جو لوگوں کے درمیان فتنہ، فساد، عداوت اور بغض پیدا کرنے والا عمل ہے۔

اس حدیث سے استنباط کرنے کی غلط صورت:

بعض علماء نے کہا کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ:

◈ قبر پر تر شاخ یا پودا رکھنا مسنون ہے تاکہ مردے کے عذاب میں تخفیف ہو۔

لیکن یہ استنباط درست نہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں:

ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ میت کو عذاب ہو رہا ہے یا نہیں، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مخصوص واقعے میں وحی کے ذریعے اطلاع ملی تھی۔

ایسا کرنا میت سے سوء ظن کے مترادف ہے، یعنی ہم از خود یہ گمان کر لیتے ہیں کہ وہ عذاب میں ہے، جب کہ ممکن ہے:
◈ وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔
◈ اللہ نے اس کے گناہوں کو معاف کر دیا ہو۔
◈ وہ سرے سے مستحقِ عذاب نہ ہو۔

یہ عمل سلف صالحین (صحابہ کرامؓ) سے ثابت نہیں، حالانکہ وہ دین کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بہتر عمل کی رہنمائی فرمائی ہے:

◈ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین سے فارغ ہوتے، تو فرماتے:

«اِسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَاسْأَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ»
(سنن ابی داؤد، الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف، حدیث: ۳۲۲۱)

ترجمہ:
"اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے۔”
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1