عذاب قبر کا انکار: شرعی دلائل اور عقلی جواب
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

عذاب قبر کے انکار پر کیا جواب دیا جائے؟

سوال:

جو شخص عذابِ قبر کا انکار کرتا ہے اور دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ اگر قبر کو کھول کر دیکھا جائے تو نہ تو وہ تنگ ہوتی ہے، نہ کشادہ، اور نہ ہی کوئی اور تبدیلی دکھائی دیتی ہے—تو ایسے شخص کو کیا جواب دیا جائے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا شخص جو عذابِ قبر کا انکار کرتا ہے اور دلیل کے طور پر قبر کی ظاہری حالت کو پیش کرتا ہے، اسے مختلف پہلوؤں سے مدلل جواب دیا جا سکتا ہے:

➊ عذاب قبر شرعی دلائل سے ثابت ہے

قرآن کریم کی گواہی:

اللہ تعالیٰ نے آلِ فرعون کے بارے میں فرمایا:

﴿النّارُ يُعرَضونَ عَلَيها غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِرعَونَ أَشَدَّ العَذابِ ﴿٤٦﴾
… سورة غافر

’’یہ (وہ) آتش جہنم ہے جس پر صبح و شام انہیں پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔‘‘

یہ آیت واضح طور پر برزخی عذاب پر دلیل ہے جو قیامت سے پہلے جاری ہے۔

احادیث مبارکہ سے وضاحت:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«فَلَوْلَا اَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللّٰهَ اَنْ يُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِیْ اَسْمَعُ مِنْهُ، ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْههِِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، قَالُوا نَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوْا بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَقَالُوا: نَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ»
(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ، باب عرض مقعد المیت من الجنة والنار، حدیث: 2867)

یعنی:
’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنا دے جو میں سنتا ہوں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو”، لوگوں نے کہا: "ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں” پھر فرمایا: "قبر کے عذاب سے پناہ مانگو” انہوں نے کہا: "ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں قبر کے عذاب سے۔”

➋ مومن کے لیے قبر کی وسعت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«يُفْسَحُ لَهُ فِی قَبْرِهِ مد بصره»
(صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر، حدیث: 1374، صحیح مسلم، کتاب الجنۃ، باب عرض مقعد المیت من الجنة والنار، حدیث: 2870)

یعنی:
"اس (مومن) کی قبر کو تا حدِ نظر کشادہ کر دیا جاتا ہے۔”

➌ شرعی نصوص کا انکار محض ظاہری مشاہدے کی بنیاد پر جائز نہیں

عذابِ قبر اور دیگر برزخی معاملات پر احادیث اور قرآن کی روشنی میں ایمان رکھنا ضروری ہے۔ صرف اس بنا پر کہ قبر کھود کر کوئی ظاہری تبدیلی نظر نہیں آتی، ان دلائل کو رد کرنا جائز نہیں۔

➍ عذابِ قبر کا تعلق روح سے ہے، جسم سے نہیں

عذابِ قبر اور اس کی کیفیات کا تعلق روحانی معاملات سے ہے، جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتے۔ اگر یہ جسمانی اور مادی سطح پر ہوتے، تو وہ ایمان بالغیب نہ رہتے۔

یہ امور غیبی حقائق میں سے ہیں، جن پر ایمان لانا ایمان کی بنیادی تعریف میں شامل ہے۔

➎ برزخ کے حالات کو دنیاوی حالات پر قیاس کرنا غلط ہے

قبر میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ برزخی دنیا سے متعلق ہے، نہ کہ موجودہ مادی دنیا سے۔ اس لیے دنیا کے پیمانے وہاں لاگو نہیں کیے جا سکتے۔

➏ مثال خواب کی: حقیقت موجود مگر دوسروں کو نظر نہیں آتی

انسان سوتے وقت مختلف خواب دیکھتا ہے—کہ وہ کہیں جا رہا ہے، مار رہا ہے، مار کھا رہا ہے، تنگ یا کشادہ جگہ پر ہے—مگر اس کے پاس بیٹھا شخص ان کیفیات کو نہ دیکھ سکتا ہے، نہ محسوس کر سکتا ہے۔

اسی طرح قبر کے اندر جو ہو رہا ہے، وہ مردہ ہی جانتا ہے، باہر والا انسان نہیں۔

➐ ایمان کا تقاضا: "ہم نے سنا اور مان لیا”

ایسے تمام غیبی امور میں ایک مومن کا طریقہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ کہے:

"ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا۔ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تصدیق کرتے ہیں۔”
ھٰذا ما عندی واللّٰه أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1