نبی ﷺ کو نور و غیب دان ماننے والے کی امامت کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ’نور من نور اللہ‘ اور غیب دانی کے عقیدے کا حکم

سوال

وہ شخص جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی اکرم ﷺ بشر نہیں بلکہ "نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ” ہیں اور آپ ﷺ غیب کا علم رکھتے ہیں، نیز وہ آپ ﷺ سے فریاد کرتا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ آپ ﷺ نفع و نقصان کے مالک ہیں—اس شخص کے متعلق کیا شرعی حکم ہے؟ کیا ایسے عقیدہ رکھنے والے کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نبی مکرم ﷺ بشر نہیں بلکہ "نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ” ہیں اور آپ ﷺ کو غیب کا علم حاصل ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تکذیب کرنے والا اور کافر قرار پاتا ہے۔ ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا دشمن ہے، نہ کہ دوست، کیونکہ اس کا عقیدہ واضح طور پر قرآن و سنت کے برخلاف ہے۔

یہ عقیدہ بذات خود اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تکذیب پر مبنی ہے، اور تکذیبِ الٰہی و رسول کفر ہے۔

قرآن مجید سے دلائل:

نبی ﷺ بشر ہیں:
﴿قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم﴾
(الکہف: 110)
"کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔”

غیب کا علم صرف اللہ کو ہے:
﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ﴾
(النمل: 65)
"کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں، اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔”

نبی ﷺ نے غیب کا علم نہ ہونے کا اعلان فرمایا:
﴿قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحى إِلَىَّ﴾
(الأنعام: 50)
"کہہ دو کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔”

نفع و نقصان پر قادر نہ ہونے کا اعلان:
﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ﴾
(الأعراف: 188)
"کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سا فائدہ حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو صرف ایمان لانے والوں کے لیے ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔”

نبی ﷺ کی حدیث مبارکہ:

«اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَاِذَا نَسِيْتُ فَذَکِّرُوْنِیْ»
(صحیح البخاری، الصلاة، باب التوجه نحو القبلة… ح:401، صحیح مسلم، المساجد، باب السہو فی الصلاة والسجود له، ح:572)
"میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، میں بھی تمہاری طرح بھول جاتا ہوں، پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔”

فریاد اور نفع و نقصان کا مالک سمجھنا:

جو شخص نبی ﷺ سے فریاد کرتا ہے اس عقیدے کے ساتھ کہ آپ نفع و نقصان کے مالک ہیں، وہ بھی کافر اور مشرک ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف ہے:

اللہ ہی دعا قبول کرتا ہے:
﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ﴾
(غافر: 60)
"اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔”

نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں:
﴿قُل إِنّى لا أَملِكُ لَكُم ضَرًّا وَلا رَشَدًا﴾
﴿قُل إِنّى لَن يُجيرَنى مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا﴾
(الجن: 21-22)
"کہہ دو کہ میں تمہارے لیے نقصان یا ہدایت کا اختیار نہیں رکھتا، اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی مجھے بچا سکتا ہے، اور نہ ہی میں اس کے سوا کہیں پناہ پاؤں گا۔”

آپ ﷺ کی اپنے اہلِ بیت سے وضاحت:

«لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَيْئًا»
(صحیح البخاری، الوصایا، باب هل یدخل النساء والولد فی الاقارب، ح:2753، صحیح مسلم، الإيمان، باب قوله تعالیٰ: ﴿وانذر عشيرتك الأقربين﴾ ح:206)
"میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آ سکوں گا۔”
یہ بات آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ اور پھوپھی حضرت صفیہؓ سے بھی فرمائی تھی۔

نماز کا حکم:

ایسا شخص جو ان باطل عقائد کا حامل ہو:

  • اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
  • ایسے شخص کو امام بنانا مسلمانوں کے لیے حرام ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1