کیا بیس رکعات تراویح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں؟
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1: اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 669

سوال

کیا بیس رکعات تراویح سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہیں؟
بعض افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بیس رکعات تراویح کا عمل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں رائج تھا، اور اسی بنیاد پر اسے جائز اور مشروع سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیس رکعات تراویح کا حکم دیا؟ کیا اس وقت وہ خود اس بات سے باخبر تھے؟ (سائل: حاجی نذیر خان، دامان حضرو)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیس رکعات تراویح نہ قولاً ثابت ہیں اور نہ فعلاً، بلکہ ان سے صرف گیارہ رکعات تراویح کا حکم ثابت ہے۔

روایت مؤطا امام مالک رحمہ اللہ سے:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی "المؤطا” میں یہ حدیث موجود ہے کہ:

سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کو یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات تراویح پڑھائیں۔

(المؤطا: ج1، ص114۔ حوسندہ صحیح آثار السنن للنیموی ص250، وقال: "وإسناده صحیح”)

تحقیقی حوالہ:

اس روایت اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صریح حکم کی مکمل تفصیل کے لیے دیکھیے:

"تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ” از مصنف
(صفحہ: 22، 23)

فقہی نتیجہ:

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واضح اور معروف حکم کے مقابلے میں اُن کے دور خلافت میں بعض نامعلوم افراد کے بیس رکعات پڑھنے کا کوئی اعتبار اور شرعی حیثیت نہیں ہے۔

(ماہنامہ الحدیث: شمارہ 61)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1