نومولود کے سرہانے چاقو رکھنا: شرعی حیثیت اور تحقیق
ماخوذ : 📘 فتاویٰ علمیہ جلد 1 – اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 661

نومولود کے سرہانے چاقو رکھنے کا مسئلہ – شرعی رہنمائی

سوال:

جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو بعض لوگ نومولود کے سرہانے چاقو رکھ دیتے ہیں۔ کیا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز ہے؟
(سائل: حاجی نذیر خان، دامان حضرو)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نومولود کے سرہانے چاقو رکھنے کی کوئی دلیل کسی حدیث میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ایک تابعیہ اُم علقمہ مرجانہ رحمہا اللہ سے مروی واقعہ موجود ہے، جو اس عمل کو غلط قرار دیتا ہے۔

واقعہ اُم علقمہ مرجانہ رحمہا اللہ:

◈ روایت ہے کہ جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ لوگ اسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس لے جایا کرتے۔
◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بچے کے لیے برکت کی دعا فرمایا کرتی تھیں۔
◈ ایک بار جب ایک نومولود لایا گیا تو آپ نے دیکھا کہ اس کے سرہانے استرا (چاقو) رکھا ہوا ہے۔
◈ آپ نے لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔
◈ لوگوں نے جواب دیا: "ہم یہ استرا جنات سے حفاظت کے لیے رکھتے ہیں۔”
◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وہ استرا اٹھا کر دور پھینک دیا اور اس عمل سے منع فرما دیا۔
◈ آپ نے فرمایا:
> "بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدفالی کو برا سمجھتے تھے اور اس سے نفرت کرتے تھے۔”
◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس عمل (چاقو یا استرا رکھنے) سے ہمیشہ منع کیا کرتی تھیں۔

📚 الأدب المفرد للبخاری: 912، وسندہ حسن

روایت کی سند کے بارے میں تفصیلی تحقیق:

روایت کا درجہ:

◈ اس روایت کی سند “حسن لذاتہ” ہے۔
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق "منہج” میں خطا کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف الاسناد کہا ہے۔
📖 ملاحظہ کریں: الأدب المفرد بتحقیق الألبانی (ص319)

روایت کے راویوں کا دفاع:

1. ام علقمہ مرجانہ رحمہا اللہ:

◈ ان سے دو ثقہ راویوں نے حدیث بیان کی:
علقمہ بن ابی علقمہ (ثقہ)
بکیر بن الاشج (ثقہ)
📖 تہذیب التہذیب (12/457)، دوسرا نسخہ (12/478)

حافظ ابن حبان البستی رحمہ اللہ نے انھیں کتاب الثقات (5/466) میں ذکر کیا اور صحیح ابن حبان (الاحسان: 3740) میں ان سے حدیث روایت کی۔

امام عجلی رحمہ اللہ کا قول:
> "مدنیہ تابعیہ ثقہ”
📖 معرفۃ الثقات (2/461، ح 23640)

◈ ان سے حدیث روایت کرنے والے دیگر ائمہ:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ: صحیح ابن خزیمہ (4/335، ح3018)، (4/362، ح3079)
امام ترمذی رحمہ اللہ: السنن (876)
امام حاکم رحمہ اللہ: المستدرک (1/488، ح1794)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی روایت کو صحیح قرار دیا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا (1/242، ح576) میں ان سے حدیث روایت کی۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کے قول کا تجزیہ:
> "وكذلك وثقه كل من صحح حديثه”
📖 السلسلۃ الصحیحہ (7/16، ح3007)

◈ نتیجہ:

مرجانہ رحمہا اللہ کو عجلی، ابن حبان، ترمذی، ابن خزیمہ، حاکم نے ثقہ قرار دیا۔
ذہبی رحمہ اللہ کی جرح (لا تعرف) ان سب کی توثیق کے مقابلے میں قابلِ قبول نہیں۔
ابن حجر رحمہ اللہ کا قول "مقبولہ یعنی مجہولہ الحال” بھی جمہور کی توثیق کے مقابلے میں رد کر دیا گیا ہے۔

📌 فائدہ:

تحریر تقریب التہذیب (4/433، ت8680) میں درج ہے:
"بل: صدوقة، حسنة الحديث”
یعنی: وہ سچی تھیں، ان کی حدیث حسن ہے۔

2. عبدالرحمٰن بن ابی الزناد رحمہ اللہ:

جمہور محدثین کے نزدیک موثق اور صدوق حسن الحدیث تھے۔
📖 ملاحظہ کریں: نور العینین (ص115-116)

3. اسماعیل بن ابی اویس رحمہ اللہ:

◈ اگرچہ راجح قول کے مطابق یہ ضعیف راوی تھے، لیکن:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی اصل کتابوں سے روایتیں اخذ کیں۔
◈ اس لیے امام بخاری کے ہاں اس کی روایتیں حسن یا صحیح ہوتی ہیں۔
📖 ملاحظہ کریں: ہدی الساری (ص391)

خلاصہ تحقیق:

◈ یہ روایت سند کے لحاظ سے "حسن لذاتہ” ہے۔
متن میں کوئی علت (خرابی) موجود نہیں۔
◈ لہٰذا اس روایت سے دلیل لینا بالکل درست ہے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1