عقیقہ کا شرعی حکم، امام ابو حنیفہ کا موقف، اور گائے یا اونٹ کے ذریعے عقیقہ کے متعلق مکمل شرعی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد: 1 – اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات صفحہ: 658

عقیقہ اور اس کے مسائل – کتاب و سنت کی روشنی میں مفصل وضاحت

1. عقیقہ کا شرعی حکم:

عقیقہ سنت مؤکدہ ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے:

"مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ ، فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ ، عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ”
جو شخص اپنی اولاد کی طرف سے قربانی (عقیقہ )کرنا پسند کرے تو وہ قربانی کر لے ۔لڑکے کی طرف سے دو برابر بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔
(سنن النسائی 7/163، حدیث: 4217، سندہ حسن، مسند احمد 2/182، حدیث: 6713، وسندہ حسن، وصححہ الحاکم 4/238، حدیث: 7692، ووافقہ الذہبی)

اس حدیث میں "من أحب” (جو چاہے) کے الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عقیقہ واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
(التمہید للحافظ ابن عبد البر 4/311)

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی روایت مؤطا میں ہے:

"عقیقہ واجب نہیں لیکن مستحب عمل ہے اور اہل مدینہ کا یہی معمول تھا”
(المؤطا، بروایت عبد الرحمٰن بن القاسم، صفحہ 158)

اقوالِ ائمہ:

حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"تمام اہلِ حدیث، ان کے فقہاء اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ عقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے”
(تحفۃ الودود باحکام المولود، صفحہ 28، الفصل الثالث فی ادلۃ الاستحباب)

ابراہیم بن حارث التیمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عقیقہ مستحب ہے، خواہ ایک چڑیا ہی کیوں نہ ذبح کی جائے
(المؤطا، بروایت یحییٰ بن یحییٰ، 2/501، حدیث: 1107، سندہ صحیح)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ان سے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کے عقیقہ کے لیے اونٹ ذبح کرنے کا مشورہ دیا گیا تو انھوں نے فرمایا:

"معاذ اللہ! بلکہ وہ کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو سالم بکریاں”
(السنن الکبری للبیہقی 9/301، سندہ صحیح)

2. امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف:

محمد بن حسن الشیبانی نے قاضی ابو یوسف سے اور انھوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے:

"ولا يعق عن الغلام ولا عن الجارية”
نہ تو لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہیے اور نہ لڑکی کی طرف سے
(الجامع الصغیر، صفحہ 534)

لیکن یہ سند صحیح نہیں ہے، لہٰذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس قول کا ثبوت نہیں ملتا۔

تاہم بعض فقہاء نے اسی قول کی تائید کی، جیسے:

ملا کاسانی: بدائع الصنائع (5/69)
فتاویٰ عالمگیری: 5/362، جس میں اس قول کو کراہت کی طرف اشارہ قرار دیا گیا ہے۔

المؤطا المنسوب الیٰ محمد بن الحسن الشیبانی (صفحہ 88، 89) میں بھی یہی ذکر ہے۔

3. غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب کا تجزیہ:

غلام رسول سعیدی بریلوی اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:

"احادیثِ صحیحہ میں عقیقہ کی فضیلت اور استحباب واضح ہے۔ غالباً یہ احادیث امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگردوں کو نہیں پہنچیں، اسی لیے انہوں نے منع کیا”
(شرح صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 43)

مزید فرماتے ہیں:

"جو شخص صرف تقلید کی بنیاد پر عمل کرتا ہے، اسے عقیقہ سے روک دینا چاہیے یا کم ازکم یہ کہنا چاہیے کہ یہ مباح ہے، لیکن کارِ ثواب نہیں۔ اگر کوئی تحقیق کی راہ پر ہے تو اسے عقیقہ کو سنت اور مستحب کہنا چاہیے، کیونکہ احادیثِ صحیحہ سے اس کا ثبوت ہے، اور تمام امت نے ان احادیث کو قبول کیا ہے”
(شرح صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 45)

4. کیا اونٹ یا گائے میں عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟

کتاب و سنت کی روشنی میں عقیقہ صرف بکری، بکرے یا مینڈھے سے ثابت ہے۔
گائے یا اونٹ کے ذریعے عقیقہ کے لیے کوئی صحیح روایت نہیں ملتی۔

ابراہیم بن حارث التیمی کا چڑیا والی بات محض مبالغہ پر محمول ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول:

"معاذ اللہ! بلکہ وہی کیا جائے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو سالم بکریاں”
(السنن الکبری للبیہقی 9/301، سندہ صحیح)

یہ واضح دلیل ہے کہ اونٹ یا گائے سے عقیقہ کرنا سنت کے خلاف ہے۔

لہٰذا، جو لوگ قربانی کی طرح اونٹ یا گائے کے سات، پانچ یا چار حصے بنا کر عقیقہ کرتے ہیں، ان کا یہ عمل غلط اور سنت کے خلاف ہے، اور مردود (ناقابلِ قبول) ہے۔
(19 جون 2008ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1