امارتِ سفر کا حکم اور کاغذی تنظیموں کی حقیقت
مقدمہ
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سفر میں امارت (یعنی کسی ایک شخص کو امیر بنانا) سے متعلق پانچ مرفوع احادیث مروی ہیں، تاہم ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث صحیح درجے کی ثابت نہیں ہے۔ درج ذیل میں ان روایات کی تفصیل کے ساتھ تحقیقی تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
پہلی روایت: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے
حدیث:
"حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لا يَحِلُّ أَنْ يَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِطَلاقِ أُخْرَى، وَلا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ حَتَّى يَذَرَهُ، وَلا يَحِلُّ لِثَلاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلاةٍ إِلاَّ أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ”
(سیدنا)عبد اللہ بن عمرو بن العاص( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین آدمیوں کے لیے جو ویرانے بیابان میں رہتے ہیں حلال نہیں ہے مگر یہ کہ آپس میں سے ایک کو امیر بنا دیں یعنی امیر کے بغیر ان کے لیے رہنا حلال نہیں ہے۔
(مسند احمد 2/177، حدیث: 6647)
تحقیقی تجزیہ:
◈ راوی: ابن لہیعہ، جو اختلاط کا شکار ہوئے۔
◈ سند کا درجہ: ضعیف، کیونکہ روایت اختلاط کے بعد کی ہے۔
◈ تحقیق: ابن لہیعہ سے مذکورہ روایت حسن بن موسیٰ الاشعیب نے نقل کی ہے، جن کا سماع اختلاط سے پہلے کا ثابت نہیں۔
❀ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: السلسلۃ الضعیفۃ، حدیث: 589)
دوسری روایت: عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے
حدیث:
"ثنا أَبُو مُحَمَّدٍ الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «إِذَا كَانَ نَفَرٌ ثَلاثَةٌ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ ذَاكَ أَمِيرٌ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”
(سیدنا ) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اگر تین آدمی ہوں تو ایک کو امیر بنا لیں۔ یہ وہ امیر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ 4/141، حدیث: 2541، البحر الزخار للبزار 1/462، حدیث: 1329، المستدرک للحاکم 1/444، حدیث: 1642)
تحقیقی تجزیہ:
◈ راوی: سلیمان بن مہران الاعمش، جو مدلس ہیں۔
◈ روایت کا طریق: "عن” کے ساتھ یعنی بلا تصریحِ سماع۔
◈ سند کا درجہ: ضعیف
مدلس راویوں کے اصول:
➊ تصریح بالسماع ہو: تو روایت صحیح یا حسن ہو سکتی ہے۔
➋ صحیحین میں ہو: تو روایت مقبول ہے۔
➌ "عن” سے روایت ہو غیرصحیحین میں: تو روایت ضعیف ہوتی ہے۔
تیسری روایت: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے
حدیث:
"محمد بن عجلان فرواه مرة عن نافع عن أبي سلمة عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ "
(سیدنا )ابو سعید الخدری( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین آدمی سفر کے لیے نکلیں تو ایک کوامیر بنا لیں۔
(سنن ابی داؤد: 2608، مسند ابی یعلیٰ 2/319، ح: 1054؛ السنن الکبری للبیہقی 5/257؛ السلسلۃ الصحیحہ 3/314، ح: 1322)
تحقیقی تجزیہ:
◈ راوی: محمد بن عجلان، جو مدلس ہیں۔
◈ روایت کا طریق: عن سے ہے۔
◈ سند کا درجہ: ضعیف
چوتھی روایت: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
حدیث:
"محمد بن عجلان فرواه مرة عن نافع عن أبي سلمة عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ "
(سیدنا)ابو ہریرہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر سفرمیں تین آدمی نکلیں تو ایک کوامیر بنا لیں۔
(سنن ابی داود: 2609، السنن الکبری للبیہقی 5/257)
تحقیقی تجزیہ:
◈ راوی: محمد بن عجلان (مدلس)، عن سے روایت، اس لیے سند ضعیف ہے۔
دوسری سند:
"عَن أَبِي سَلَمَة ، عَن أَبِي هُرَيرة ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرْتُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ ، وَإِنْ كَانَ أَصْغَرَكُمْ ، وَإِذَا أَمَّكُمْ فَهُوَ أَمِيرُكُمْ”
جب تم سفر کرو تو تمھارا سب سے بڑا قاری تمھیں نماز پڑھائے۔اگرچہ وہ سب سے چھوٹا ہو۔ جب وہ تمھارا امام بن جائے تو وہی تمھارا امیر ہے۔
(کشف الاستار للبزار 2/266، حدیث: 1671)
◈ راوی: محمد بن جمیل جندی، مجہول الحال۔
◈ سند کا درجہ: ضعیف
پانچویں روایت: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے
حدیث:
"حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ، ثنا عُبَيْسُ بْنُ مَرْحُومٍ، ثنا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ”
(سیدنا) ابن عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب سفرمیں تین آدمی ہوں تو ایک کوامیر بنا لیں۔
(کشف الاستار 2/267، حدیث: 1673)
◈ راوی: محمد بن عجلان (مدلس)
◈ سند کا درجہ: ضعیف
خلاصہ تحقیق:
◈ سفر میں امیر بنانے والی تمام مرفوع احادیث ضعیف ہیں، لہٰذا اسے واجب یا سنت قرار دینا درست نہیں۔
◈ ضعیف روایات کو جمع کر کے انہیں حسن لغیرہ بنانے کی کوشش محض خواہش پر مبنی ہوتی ہے۔
◈ اصول تحقیق یہ ہے کہ:
❀ ضعیف روایت، ضعیف ہی رہتی ہے خواہ اس کی کئی سندیں ہوں۔
❀ صحیح روایت، صحیح ہی ہوتی ہے چاہے ایک ہی سند ہو۔
موقوف روایت: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
روایت:
"حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: «إِذَا كُنْتُمْ ثَلاثَةً فِي سَفَرٍ، فَأَمِّرُوا أَحَدُكُمْ، وَلا يُنَاجِ الرَّجُلُ الرَّجُلَ دُونَ صَاحِبِهِ”
(سیدنا) عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے فرمایا:اگر تم سفر میں تین آدمی ہو تو ایک کو امیر بنا لیا کرو۔
(مسند علی الجعد 1/372، حدیث: 443؛ المعجم الکبیر للطبرانی 9/208، حدیث: 8915)
تحقیقی تجزیہ:
◈ سند صحیح ہے
◈ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں امیر بنانا جائز ہے۔
اہم تنبیہ:
◈ کاغذی تنظیمیں اور خودساختہ امارت کا تصور، جس کے تحت کچھ افراد تنظیم یا پارٹی بنا کر خود کو "امیر” بناتے ہیں اور عوام سے بیعت کا مطالبہ کرتے ہیں، غلط فہمی اور فریب پر مبنی ہے۔
◈ یہ افراد خلافت اور امارتِ کبریٰ سے متعلق روایات کو اپنے اغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
◈ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان:
"تجھے کیا پتا ہے کہ امام کسے کہتے ہیں؟ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو جائے، ہر آدمی یہی کہے کہ یہ امام (خلیفہ) ہے۔”
(سوالات ابن بانی: 2011، الحدیث 26، ص29؛ علمی مقالات، جلد 1، ص403)
نتیجہ:
◈ سفر میں کسی کو امیر بنانا جائز تو ہے، لیکن شرعاً واجب یا سنت نہیں۔
◈ تمام مرفوع احادیث ضعیف ہیں، اور موقوف اثر سے صرف جواز ثابت ہوتا ہے۔
◈ کاغذی امارت اور جماعتیں، شریعت کے نام پر فریب اور دین میں بدعت ہیں۔
◈ مسلمانوں کو ان تنظیموں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔