طہارت کا اہتمام
طہارت کا مفہوم:
طہارت سے مراد نجاست و گندگی سے پاکی حاصل کرنا ہے، خواہ وہ نجاست حقیقی ہو جیسے: پیشاب، پاخانہ وغیرہ، یا حکمی ہو جیسے: جنابت، حیض، نفاس یا بے وضو ہونا وغیرہ۔ مذکورہ تمام چیزوں سے پاکی حاصل کرنے کو طہارت کہتے ہیں اور یہ نماز سے پہلے ضروری ہے۔ کیونکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا تقبل صلاة بغير طهور
”طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔ “
(صحیح مسلم: 224)
ذریعہ طہارت
پاک پانی:
وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ
(8-الأنفال:11)
”اور وہ تم پر آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کر دے۔“
پاک مٹی:
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
(4-النساء:43)
جب پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔
پاک مٹی سے پاکی اس وقت حاصل کی جائے گی جب پانی نہ ملے یا پانی موجود ہو لیکن اس کا استعمال نقصان دہ ہو۔
وضو کا حکم:
اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(5-المائدة:6)
”اے ایمان والو! جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنا چہرہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو)۔“
وضو کا نبوی طریقہ:
نماز کی صحت کے لیے باوضو ہونا شرط ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
”تم میں سے جب کوئی بے وضو ہو جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وضو کر لے۔“
(صحیح مسلم: 225)
تو آئیے وضو کا نبوی طریقہ جانتے ہیں!
❀ وضو شروع کرتے ہوئے ”بسم اللہ“ پڑھنا۔ (سنن ابو داؤد: 101)
❀وضو کرتے ہوئے اعضاء کو پہلے دائیں پھر بائیں دھونا۔ (صحیح بخاری: 5854)
❀دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کو کلائیوں سمیت دھونا۔ (صحیح بخاری: 186)
❀ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کے درمیان خلال کرنا۔ (سنن ابو داؤد: 142)
❀چلو میں پانی لے کر کلی کرنا اور ہوا کی مدد سے پانی ناک میں کھینچ کر داخل کرنا۔ ناک کو بائیں ہاتھ سے جھاڑنا اور صاف کرنا۔ (صحیح بخاری: 186)
فائدہ : ایک چلو پانی لے کر آدھے سے کلی کرنا اور آدھا ناک میں ڈالنا، یہی طریقہ افضل اور مستحب ہے جو صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ البتہ چہرہ اور ناک کے لیے الگ الگ پانی لینے کے تعلق سے بھی حسن درجہ کی روایت موجود ہے جیسا کہ شیخ الحدیث عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے (تحفۃ الاحوذی 1/103-104) میں علامہ عینی اور ”صاحب سبل السلام“ امیر صنعانی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔
❀چہرہ دھونا۔ (صحیح بخاری: 185)
❀چلو میں پانی لے کر ہاتھ کی تر انگلیوں سے داڑھی میں خلال کرنا۔ (سنن ابو داؤد: 145)
❀پہلے دائیں اور پھر بائیں ہاتھ کو کہنیوں سمیت دھونا۔ (صحیح بخاری: 186)
❀سر کا مسح کرنا۔ (صحیح بخاری: 186)
● سر کے مسح کا طریقہ: سر کا مسح اس طرح کریں کہ دونوں ہاتھ پانی سے تر کر کے سر کے اگلے حصے سے گدی تک لے جائیں پھر گدی سے آگے اسی جگہ لے آئیں جہاں سے شروع کیا تھا۔
❀کان کا مسح کرنا۔ (سنن نسائی: 102)
● کان کے مسح کا طریقہ: کان کا مسح اس طرح کریں کہ شہادت کی انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخ میں ڈال کر کان میں بنے ہوئے راستوں میں گھمائیں جب آخر تک پہنچ جائیں تو کانوں کی پشت پر انگوٹھوں سے مسح کر لیں۔ سر کے مسح کے لیے لیے گئے پانی سے کانوں کا مسح کرنا درست ہے کیونکہ بقول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کان سر کا حصہ ہے۔ (سنن ترمذی: 37) البتہ کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا افضل ہے جیسا کہ (سنن نسائی: 308) میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے۔
کچھ لوگ وضو کرتے ہوئے سر اور کانوں کے ساتھ گردن کا بھی مسح کرتے ہیں لیکن یہ عمل کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
❀پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔ (صحیح بخاری: 186)
❀پاؤں دھوتے ہوئے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا۔ (سنن ابو داؤد: 148)
فائدہ : تمام اعضاء وضو کو ایک ایک، دو دو اور تین تین بار دھونا جائز ہے۔ اسی طرح کسی عضو کو ایک بار، کسی کو دو بار اور کسی کو تین بار دھونا بھی جائز ہے۔ البتہ اعضاء وضو کو تین تین بار دھونا افضل اور مستحب ہے لیکن تین سے زائد مرتبہ دھونے سے بچنا چاہیے۔
وضو کے بارے میں ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو ہمیشہ ترتیب ہی سے دھویا ہے۔
وضو کے بعد کی دعا اور اس کی فضیلت:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ.
(صحیح مسلم: 234، سنن ترمذی: 55)
فضیلت: جو شخص اچھی طرح وضو کرنے کے بعد یہ دعا پڑھ لیا کرے تو اس کے لیے قیامت کے دن جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے کہ وہ جس سے چاہے داخل ہو جائے۔
فائدہ : وضو کے بعد کی دعا کے طور پر مذکورہ احادیث میں صحیح سند کے ساتھ کلمہ شہادت کا ذکر ہے، البتہ جامع ترمذی کی روایت میں "اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ” کا اضافہ متعدد شواہد کی بنا پر صحیح اور ثابت ہے اس لیے اسے بھی پڑھ لینا چاہیے۔
تیمم کا حکم: اللہ کا فرمان ہے:
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ
(5-المائدة:6)
”اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے چہرہ اور ہاتھوں کا مسح (تیمم) کر لو۔“
تیمم کا نبوی طریقہ:
تیمم کا نبوی طریقہ یہ ہے کہ انسان بسم الله پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان میں پھونک مارے، اس کے بعد پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر مسح کر لے پھر اپنے چہرے پر مسح کرے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں موجود ہے۔
قال عمار بن ياسر رضى الله عنه لعمر بن الخطاب رضي الله عنه: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حاجة، فأجنبت فلم أجد الماء، فتمرغت فى الصعيد كما تمرغ الدابة، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "إنما كان يكفيك أن تصنع هكذا، فضرب بكفه ضربة على الأرض، ثم نفضها، ثم مسح بهما ظهر كفه بشماله أو ظهر شماله بكفه، ثم مسح بهما وجهه”
(صحیح بخاری: 347)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام پر بھیجا تھا۔ مجھے وہاں جنابت لاحق ہو گئی اور پانی نہ مل سکا تو میں نے چوپائے کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ کر (طہارت حاصل کر کے نماز پڑھ لی)۔ پھر جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار زمین پر اپنا ہاتھ مارا، اس سے غبار کو جھاڑا، اس کے بعد اپنے ہاتھ کی پشت کا بائیں ہاتھ سے مسح فرمایا، یا اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کا اپنے ہاتھ سے مسح فرمایا، پھر ان سے اپنے چہرے پر مسح کیا۔
صحیح بخاری : 347
فائدہ : وضو کے شروع میں جس طرح ”بسم الله“ پڑھا جاتا ہے اسی طرح تیمم بھی "بسم الله” سے شروع کیا جائے گا کہ یہ بھی وضو کی طرح ایک عمل خیر ہے اور شریعت نے ہر اہم کام جیسے کھانا، پینا، قربانی کرنا، کشتی پر سوار ہونا، سونے سے پہلے دروازہ بند کرنا، چراغ بجھانا، مشکیزہ اور کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپنا حتیٰ کہ جماع سے پہلے بھی "بسم الله” کو ذکر کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہر نیک کام سے پہلے بسم الله نہ صرف مشروع و مستحب بلکہ مزاج شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس طور پر کہ یہ مومن کے لیے ہر مہتم بالشان کام میں اللہ پر توکل اور استعانت باللہ کا اہم وسیلہ ہے! امام بخاری رحمہ اللہ نے تو اپنی ”صحیح“ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک مکمل باب باندھا ہے: ”باب التسمية على كل حال وعند الوقاع“ (کہ ہر حال میں اور جماع کے وقت بھی ”بسم الله“ پڑھنے کا بیان) اور اس کے تحت جماع والی حدیث لے کر آئے ہیں (دیکھیے بخاری: 141)۔
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے لکھا ہے: کہ جب حالت جماع جو خاموشی کی حالت ہے میں ”بسم اللہ“ پڑھنا مشروع ہے تو پھر دوسرے اعمال خیر تو بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں۔ (دیکھیے فتح الباری: 1/242)
رہا مسئلہ تیمم کے بعد دعا پڑھنے کا تو اس بابت قرآن و حدیث میں کوئی واضح نص موجود نہیں۔ تاہم علماء شوافع نے اسے وضو پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تیمم کے بعد بھی وہی دعا پڑھنا مشروع ہے جو وضو کے بعد پڑھی جاتی ہے جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجموع” میں ”سنن التيمم“ کے تحت تیمم کی سنتوں کا ذکر کرتے ہوئے گیارہویں نمبر پر لکھا ہے: ”ينبغي أن يستحب بعد التيمم النطق بالشهادتين كما سبق فى الوضوء“ کہ تیمم کے بعد شہادتین کا پڑھنا مندوب و مستحب ہے جیسا کہ وضو کے باب میں گزر چکا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ اور فقہاء شوافع کے نزدیک تیمم، وضو کا بدل ہے تو پھر تیمم کے بعد وہی ذکر اور دعا پڑھنا مشروع و مستحب ہے جو وضو کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ اور یہی بات قرین قیاس اور راجح معلوم ہوتی ہے۔
واللہ اعلم
غسل کب واجب ہوتا ہے؟
غسل واجب ہونے کی چار وجوہات ہیں:
➊ جنابت (مرد و عورت دونوں کے لیے) (صحیح بخاری: 291)
➋ جماع (مرد و عورت دونوں کے لیے)
➌ حیض (صرف عورتوں کے لیے) (صحیح بخاری: 314)
➍ نفاس (صرف عورتوں کے لیے)
ان وجوہات کی بنا پر ایک مسلمان کے لیے غسل واجب اور فرض ہو جاتا ہے۔ البتہ کچھ اور مواقع بھی ہیں جہاں پر غسل کرنا راجح قول کے مطابق مسنون و مستحب کام ہے، فرض و واجب نہیں۔ مثلاً:
❀ جمعہ کے لیے غسل کرنا (صحیح بخاری: 858)
❀ عیدین کے لیے غسل کرنا (موٹا امام مالک: 428)
❀ میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا (سنن ترمذی: 993)
❀ احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا وغیرہ (سنن ترمذی: 830)
فائدہ : غسل چاہے واجب ہو یا مسنون و مستحب، سب کا طریقہ ایک جیسا ہے۔ البتہ خواتین کے لیے تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ غسل جنابت کے لیے عورت کا اپنے سر کی چوٹی کھولنا ضروری نہیں جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے (صحیح مسلم: 330، سنن ابو داؤد: 251)۔
جبکہ حیض و نفاس کے لیے غسل کرتے وقت بالوں کا جوڑا کھولنا اور خوب مل کر دھونا ضروری ہے۔ (صحیح بخاری: 314)
غسل کا نبوی طریقہ:
غسل کے لیے عموماً دو شکلیں پائی جاتی ہیں:
① غسل عادت
② غسل عبادت
غسل عادت:
یہ ہے کہ کوئی شخص صرف اپنے جسم کا میل کچیل اور پسینہ دور کرنے یا صفائی ستھرائی کی خاطر یا پھر گرمی سے راحت اور ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے نہائے لیکن غسل کے مسنون طریقے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی اور چاہت کے مطابق بدن پر پانی بہائے اور نہائے۔ اسے ”غسل عادت“ کہہ سکتے ہیں۔ اس سے صفائی ستھرائی اور ٹھنڈک تو حاصل ہو جائے گی مگر وہ اجر و ثواب اور فضیلت حاصل نہیں ہو گی جو مسنون طریقے پر غسل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے غسل کا جو نبوی اور مسنون طریقہ ہے اسے ”غسل عبادت“ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس تصور کے ساتھ غسل کرنے سے مومن کو سنت کی پیروی کرنے پر اجر و ثواب کا مستحق بھی بناتی ہے۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ غسل کا نبوی طریقہ کیا ہے؟
عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغتسل من الجنابة يبدأ فيغسل يديه ثم يفرغ بيمينه على شماله فيغسل فرجه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة ثم يأخذ الماء فيدخل أصابعه فى أصول الشعر حتى إذا رأى أن قد استبرأ حفن على رأسه ثلاث حفنات ثم أفاض على سائر جسده ثم غسل رجليه
(صحیح مسلم: 316)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرماتے تو پہلے اپنے ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرم گاہ دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو فرماتے، پھر پانی لے کر انگلیوں کو بالوں کی جڑوں میں داخل کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو جاتا کہ آپ نے اچھی طرح جڑوں میں پانی پہنچا دیا ہے تو اپنے سر پر دونوں ہاتھوں سے تین چلو پانی ڈالتے، پھر سارے جسم پر پانی بہاتے (اور جسم دھوتے)، پھر (آخر میں) اپنے دونوں پاؤں دھو لیتے۔
صحیح مسلم : 316
فائدہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث کی روشنی میں غسل نبوی کا جو مسنون طریقہ سامنے آتا ہے یہی سب سے بہتر اور پاکیزہ طریقہ ہے اور اس طرح کیے گئے غسل کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اسی غسل والے وضو سے نماز پڑھی جا سکتی ہے بشرطیکہ دوران غسل وضو ٹوٹنے کی کوئی صورت پیش نہ آئی ہو۔
نماز کے لیے اذان کا حکم:
اوقات نماز کی یاد دہانی اور تذکیر کے لیے اذان ایک اعلان اور اہم شعار اسلام ہے جسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلایا اور تاکید فرمائی۔ حدیث ملاحظہ ہو:
عن مالك بن الحويرث رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
(صحیح بخاری: 628)
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض انجام دے۔
صحیح مسلم : 628
فائدہ : اذان ایک غیر معمولی ذکر اور اسلام کا ایک اہم شعار ہے۔ انسان چاہے اکیلا ہی کیوں نہ ہو، نماز کا وقت ہو جانے پر اذان دے کر ہی نماز ادا کرنا چاہیے۔ اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تب بھی ان میں سے ایک اذان دے اور دوسرا جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرائے۔
اذان کے کلمات:
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا الله
(سنن ابو داؤد: 499)
اذان کے مذکورہ کلمات نماز فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء میں کہے جاتے ہیں۔ البتہ فجر کی اذان میں "حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ” اور "حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ” کے بعد دو مرتبہ ”الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ“ (کہ نماز نیند سے بہتر ہے) کے کلمات بھی کہے جائیں گے۔ جیسا کہ (سنن ابو داؤد: 500) حدیث ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے اس کا ثبوت موجود ہے۔
اذان کا جواب دینے اور دعا پڑھنے کی فضیلت:
اذان کا جواب دینا اور اذان کے بعد دعا پڑھنے کا اہتمام کرنا عظیم اجر و ثواب اور بڑی فضیلت کا کام ہے جیسا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي، فإنه من صلى على صلاة صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا الله لي الوسيلة، فإنها منزلة فى الجنة، لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة
(صحیح مسلم: 384)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا، تو جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے (میری) شفاعت واجب ہو گئی۔“
اذان کا جواب دیتے ہوئے وہی کلمات دہرانا ہے جو مؤذن کہتا ہے۔ البتہ جب مؤذن ”حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ“ اور ”حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ“ کہے تو جواب دینے والا ”لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ“ کہے گا۔ جیسا کہ (صحیح مسلم: 385) میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ہے۔ اسی طرح جب مؤذن "الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ” کہے تو جواب میں وہی کلمات دہرانا ہے کیونکہ اس بابت الگ سے کوئی دوسرا حکم نہیں ہے۔
اذان کے بعد کی دعا:
◈ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
◈ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(صحیح مسلم: 384)
◈ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ
(صحیح بخاری: 614)
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا
(صحیح مسلم: 386، سنن ابو داؤد: 525)
اذان کے بعد پڑھی جانے والی دعاؤں میں درود ابراہیمی پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔ البتہ اذان سے پہلے درود و سلام کا پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث یا صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے ثابت نہیں۔
نیت نماز:
نیت کرنا نماز کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک عظیم نیک عمل ہے اور تمام نیک اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیت پر ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى
(صحیح بخاری: 1، صحیح مسلم: 1907)
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص وہی پائے گا جس کی اس نے نیت کی۔
فائدہ : نماز شروع کرنے سے پہلے نیت ضروری ہے۔ البتہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے جس کا اظہار وضو یا تیمم کرنے، گھر یا آفس سے چل کر نماز گاہ تک آنے اور نماز کے لیے قبلہ رخ کھڑے ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ نماز شروع کرنے سے پہلے زبان سے نیت کرنا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔
استقبال قبلہ:
نماز سے پہلے قبلہ معلوم کرنا اور اس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا ارکان صلاۃ میں سے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
عن البراء بن عازب رضى الله عنه قال: صلينا مع النبى صلى الله عليه وسلم نحو بيت المقدس ستة عشر، أو سبعة عشر شهرا، ثم صرفه نحو القبلة
(صحیح بخاری: 4492، صحیح مسلم: 525)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت المقدس کی جانب رخ کر کے 16 یا 17 مہینے نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کی طرف چہرہ کرنے کا حکم دیا۔
فائدہ : نماز کی ادائیگی کے لیے قبلہ رخ ہونا نماز کا رکن ہے اس لیے اس کا اہتمام ضروری ہے۔ انسان چاہے سفر میں ہو یا حضر میں، جہاں تک ہو سکے قبلہ کی معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی نماز شروع کرنی چاہیے۔
سترہ کا اہتمام:
نماز سے پہلے سترہ کا اہتمام کرنا بہت اہم ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:
عن ابن عمر رضي الله عنهما يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تصلوا إلا إلى سترة ولا تدعوا أحدا يمر بين يديكم، فإن أبى فلتقاتله فإن معه القرين
(صحیح ابن خزیمہ: 800)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے سختی سے روکو کیونکہ یقیناً اس کے ساتھ شیطان ہے۔
عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا صلى أحدكم فليصل إلى سترة وليدن منها
(سنن ابو داؤد: 698)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے اور قریب میں سترہ رکھ کر نماز پڑھے۔“
فائدہ : سترہ ہر اس چیز کو کہیں گے جسے انسان نماز کے وقت اپنی سجدہ گاہ کے سامنے رکھے یا نصب کر لے جیسے دیوار، ستون یا لکڑی اور نیزہ وغیرہ۔ الغرض سترہ کی اونچائی کم سے کم ایک ہاتھ کی ہونی چاہیے جو سجدہ کی جگہ سے تھوڑا آگے ہو کہ سجدہ کی جگہ اور سترہ کے بیچ سے ایک بکری کا بچہ گزر سکے۔
(صحیح بخاری: 496)
امام کا سترہ ہی مقتدی کا سترہ ہے:
باجماعت نماز ادا کرنے کی صورت میں امام کا جو سترہ ہے وہی مقتدیوں کے لیے کافی ہے، الگ سے مقتدیوں کو سترہ کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه وكان يفعل ذلك فى السفر فمن ثم اتخذها الأمراء
(صحیح بخاری: 949)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن (مدینے سے باہر) تشریف لے جاتے تو چھوٹا نیزہ گاڑنے کا حکم دیتے۔ جب گاڑ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ دوران سفر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے بھی اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت اپنائی۔
فائدہ : جب انسان باجماعت نماز ادا کر رہا ہو تو امام کا سترہ ہی مقتدی کا سترہ ہوتا ہے لیکن انفرادی طور پر نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے ہر مصلی کو اپنے لیے سترہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
فرض نماز کے لیے اقامت:
فرض نماز کے لیے اقامت کہنا مرد حضرات کے لیے ایک مستحب اور افضل عمل ہے۔
عن أنس رضى الله عنه قال: أمر بلال رضى الله عنه أن يشفع الأذان، وأن يوتر الإقامة، إلا الإقامة
(صحیح بخاری: 605، صحیح مسلم: 378)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہیں سوائے ”قد قامت الصلاة“ کے۔
اقامت کے کلمات:
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا الله
(سنن ابو داؤد: 499)
فائدہ: اقامت کہنے کے دو طریقے ہیں:
➊ اقامت کے کلمات کو ایک ایک بار کہا جائے۔
➋ اقامت کے کلمات کو دو دو بار یعنی اذان کی طرح کہا جائے۔
اقامت کو ایک ایک بار کہنے والی روایات زیادہ صحیح ہیں اور یہی اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین، علماء امت اور ائمہ دین رحمہم اللہ کا مسلک رہا ہے جو بلاشبہ اولیٰ اور افضل ہے۔ تاہم اقامت کے کلمات کو اذان کی طرح دو دو بار کہنا بھی جائز ہے جیسا کہ (سنن ابو داؤد: 502) میں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس کا ثبوت موجود ہے۔
اقامت کے بارے میں ایک اور سوال کا جواب دینا فائدہ سے خالی نہیں کہ جماعت کے لیے اقامت کون کہے، اذان دینے والا یا کوئی دوسرا شخص؟ تو اولیٰ و افضل اور صحیح ترین بات یہ ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے۔ البتہ علماء نے اس مسئلہ میں وسعت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی اقامت کہے صحیح ہے۔
صاحب تحفۃ الاحوذی علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس مسئلہ کی بابت ایک بہترین بات لکھی ہے کہ ”اذان ایک کہے اور اقامت کوئی دوسرا کہہ لے تو اس کے جائز ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔“
(تحفۃ الاحوذی: 1/597-598)
صفوں کی درستگی:
نماز شروع کرنے سے پہلے صفوں کی درستگی ضروری ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت امام صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفیں درست کرواتے پھر نماز شروع کرتے، جیسا کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت موجود ہے:
عن أنس رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أقيموا صفوفكم فإني أراكم من وراء ظهري وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه
(صحیح بخاری: 725)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست رکھو! کیونکہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ (انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر کوئی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ اور اپنے قدم کو اس کے قدم کے ساتھ ملاتا تھا۔)
صحیح بخاری : 725
فائدہ : صفوں کی درستگی دراصل نماز کی درستگی ہے۔ دیکھیے (صحیح مسلم: 433)۔ اس لیے صف بندی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور نمازیوں کو ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہونا چاہیے۔
تکبیر تحریمہ:
نماز شروع کرتے ہوئے تکبیر کہنا ارکان نماز میں سے ہے۔
عن أبى حميد الساعدي رضى الله عنه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة، استقبل القبلة، ورفع يديه، وقال: الله أكبر
(سنن ابن ماجہ: 803)
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے "اللهُ أَكْبَرُ” کہتے۔
سنن ابن ماجہ : 803
فائدہ : تکبیر تحریمہ نماز کا رکن ہے اس لیے نماز میں شامل ہونے کے لیے اس کا اہتمام ضروری ہے۔ البتہ دوسری تمام تکبیرات جو حالت بدلنے کے لیے کہی جاتی ہیں جنہیں "تکبیرات انتقال” کہا جاتا ہے وہ واجب ہیں۔
تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رفع الیدین:
تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رفع الیدین کرنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:
قال أبو حميد الساعدي رضي الله عنه: رأيته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه
(صحیح بخاری: 828)
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تکبیر (تحریمہ) کہی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر تک اٹھایا۔
رفع الیدین میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانا ہے۔ رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانا یا کانوں تک لے جانا دونوں جائز ہے۔ درج ذیل احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی دلیل موجود ہے:
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: رأيت النبى صلى الله عليه وسلم افتتح التكبير فى الصلاة، فرفع يديه حين يكبر حتى يجعلهما حذو منكبيه، وإذا كبر للركوع فعل مثله
(صحیح بخاری: 738، صحیح مسلم: 390)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر سے اپنی نماز شروع کرتے۔ جب آپ "اللهُ أَكْبَرُ” کہتے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو دوبارہ اسی طرح کرتے۔
رفع الیدین میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا:
عن مالك بن الحويرث رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه، وإذا ركع رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه
(صحیح مسلم: 391)
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع الیدین کرتے) یہاں تک کہ انہیں کانوں تک لے جاتے، پھر جب رکوع کرتے تو دوبارہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کانوں تک لے جاتے۔
فائدہ : رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانا اسی طرح کانوں تک لے جانا دونوں جائز ہے۔ صحیح اور صریح احادیث میں دونوں کا ثبوت موجود ہے۔ البتہ کانوں کو ہاتھ لگانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ رفع الیدین کا حکم مرد و زن دونوں کے لیے ہے اور مرد و عورت کے رفع الیدین میں کوئی فرق نہیں۔
نماز میں نگاہ کو سجدہ کی جگہ رکھنا:
نماز میں نگاہ سجدہ کی جگہ پر مرکوز ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے:
عن عائشة رضي الله عنها تقول: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم الكعبة ما خلف بصره موضع سجوده حتى خرج منها
(رواہ ابن خزیمہ بسند صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں (نماز کے لیے) داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں (نماز میں) سجدہ کی جگہ سے بالکل نہ ہٹیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے۔
(صحیح ابن خزیمہ: 3012)
قیام کرنا:
نماز میں قیام کرنا ارکان صلاۃ میں سے ہے، اللہ کا ارشاد ہے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨﴾
(2-البقرة:238)
”تمام نمازوں اور صلاۃ وسطی (درمیانی نماز یعنی عصر کی نماز) کی حفاظت کرو اور رب کی رضا کے لیے اطاعت شعار بندے کی طرح باادب کھڑے رہو۔“
فائدہ : نماز میں قیام (کھڑا ہونا) رکن ہے۔ البتہ بیماری وغیرہ کے سبب کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر، لیٹ کر یا اشارہ سے جو صورت ممکن ہو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
ہاتھ باندھنے کی کیفیت:
مصلیوں کو نماز میں اپنے ہاتھ سینے پر رکھنا چاہیے۔ احادیث میں یہ عمل وضاحت کے ساتھ موجود ہے:
عن وائل بن حجر رضي الله عنه، قال: صليت مع رسول الله صلى الله على وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره
(صحیح ابن خزیمہ: 479)
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی (اور دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پر باندھا۔
عن طاوس رحمه الله قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو فى الصلاة
(سنن اب 759)
طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے پھر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیتے۔
عن سهل بن سعد رضى الله عنه قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلاة
(صحیح بخاری: 740)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے۔
فائدہ : حالت قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم مرد و عورت دونوں کو شامل ہے۔ کتاب و سنت کی دلیلوں سے مرد و عورت کے درمیان نماز کے اندر ہاتھ باندھنے میں کوئی فرق ثابت نہیں۔
دعاء استفتاح (دعاء ثناء):
نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعاء ثناء خاموشی سے پڑھنا مسنون و مستحب عمل ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قراءت کے ابوہریرہ درمیان کچھ دیر خاموش رہتے ، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ تکبیر و قراءت کے درمیان جب خاموش رہتے ہیں تو کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ پڑھتا ہوں
اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ.
(رواه البخاري ومسلم)
اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری کر دے جیسے تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری کر دی ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے ایسی پاک کر دے جیسے سفید کپڑا گندگی سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے۔
(صحیح بخاری: 744، صحیح مسلم: 940)
دعاء استفتاح (دعاء ثناء) کے کلمات اس طرح بھی ثابت ہیں:
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَٰهَ غَيْرُكَ
(سنن ابو داؤد: 775)
اے اللہ! تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ، تیرا نام بڑی برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔
فائدہ : تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورۂ فاتحہ سے پہلے دعائے ثناء کو سراً (آہستہ) پڑھنا سنت ہے۔
دعائے ثناء کے طور پر مذکورہ بالا دعاؤں کے علاوہ بھی کچھ دعائیں ہیں جو دعاء استفتاح کے طور پر ثابت ہیں جن کو دعا کی مشہور کتاب "حصن المسلم” میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سورہ فاتحہ سے پہلے تعوذ:
تعوذ کہتے ہیں "أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ” پڑھنے کو۔ قرآن کی تلاوت نماز میں ہو یا نماز کے باہر، بہر صورت تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا واجب ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾
(16-النحل:98)
”جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔“
فائدہ : تعوذ (أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ) کو کہتے ہیں جسے سری اور جہری دونوں قسم کی نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے خاموشی سے پڑھنا سنت ہے۔ مصلی امام ہو یا مقتدی، اکیلا ہو یا جماعت کے ساتھ اور نماز سری ہو (جیسے ظہر و عصر) یا جہری (جیسے مغرب، عشاء، فجر اور جمعہ وغیرہ)، تعوذ کو بہر صورت آواز کے بغیر ہی پڑھنا مسنون ہے۔
سورہ فاتحہ سے پہلے تعوذ پھر تسمیہ:
تسمیہ کہتے ہیں ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ“ پڑھنے کو۔ دعاء ثناء اور تعوذ کے بعد سورۂ فاتحہ سے پہلے بسملہ پڑھنا، اسی طرح سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت شروع کرنے سے پہلے تسمیہ کہنا مسنون ہے:
عن أنس رضى الله عنه قال: صليت خلف النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان، فكانوا يستفتحون بالحمد لله رب العالمين، لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم فى أول قراءة ولا فى آخرها
(صحیح مسلم: 399)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ وہ سب اپنی نماز کی شروعات (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) سے کرتے تھے۔ قراءت کے شروع یا اخیر میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (زور سے) نہیں پڑھتے تھے۔
نیز مسند احمد کی روایت میں ہے کہ وہ سب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جهراً (بآواز بلند) نہیں پڑھتے تھے۔
(مسند احمد: 13259)
فائدہ : تکبیرتحریمہ، دعائے ثناء اور تعوذ کے بعد تسمیہ (بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) سورہ فاتحہ سے پہلے پڑھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ نماز فرض ہو یا سنت، وتر ہو یا نفل، ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے، اسی طرح دوسری سورت پڑھنے سے پہلے ”بِسْمِ اللهِ“ کا پڑھنا مشروع و مسنون ہے۔ تاہم اس بارے میں اختلاف ہے کہ جہری نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے ”بِسْمِ اللهِ“ کو خاموشی سے پڑھا جائے یا بآواز بلند؟ اس بارے میں علماء امت کی آراء و توجیہات کا خلاصہ یہ ہے کہ ” ”بِسْمِ اللهِ“ کو اکثر اوقات بلا آواز ہی پڑھا جائے۔ تاہم کبھی کبھار آواز سے پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی بات کو علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد: 1/207-208) میں اختیار کیا ہے اور علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے (تحفۃ الاحوذی 2/53-54) میں اور علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے (فتح الباری شرح بخاری: 2/229) پر حاشیہ لگاتے ہوئے اس مسئلہ پر بڑی عمدہ گفتگو کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
صحیح یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ والی حدیث کو مقدم رکھا جائے جس میں بلا آواز بِسْمِ اللهِ پڑھنے کا ذکر ہے کیونکہ وہ حدیث صحیح بھی ہے اور اس مسئلے میں صریح بھی، اور جس حدیث میں "بِسْمِ اللهِ” کو بآواز بلند پڑھنے کا ذکر ہے اسے اس انداز پر محمول کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کبھی کبھار بلند آواز سے بھی ”بِسْمِ اللهِ“ پڑھ لیا کرتے تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقتدی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کی تعلیم دیں کہ آپ ”بِسْمِ اللهِ“ پڑھتے ہیں۔ اس طرح دونوں قسم کی احادیث کے درمیان مطابقت ہو جاتی ہے ۔ البتہ خاموشی سے ”بسم الله“ پڑھنے پر دلالت کرنے والی حدیث انس کی تائید کئی دیگر احادیث سے ہوتی ہے جو قابل ترجیح ہے۔
سورہ فاتحہ کی قرآت
نماز میں ہر نمازی کے لیے، خواہ وہ امام ہو یا مقتدی، سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه، قال: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
(رواه البخاري ومسلم)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص کی نماز نہیں جو فاتحہ الکتاب (سورہ فاتحہ) نہ پڑھے۔
(صحیح بخاری: 756 – صحیح مسلم: 394)
فائدہ : سورہ فاتحہ ہر نماز میں (خواہ جہری ہو یا سری، فرض ہو یا نفل) پڑھنا فرض ہے اور یہ حکم ہر نمازی کے لیے ہے کہ وہ سورہ فاتحہ کا اہتمام کرے، خواہ وہ امام ہو یا مقتدی، اکیلے نماز پڑھ رہا ہو یا جماعت کے ساتھ، کیونکہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرآت
امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے والے کو بھی سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج، ثلاثا غير تمام ، فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: اقرأ بها فى نفسك ؛ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله تعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل…
(رواه مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے کوئی نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن (سورہ فاتحہ) نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص، نامکمل اور ادھوری ہے” (یعنی پوری ہی نہیں)۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں! انہوں نے کہا: اسے اپنے دل میں پڑھ لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے نماز (یعنی سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ بھی ہوگا جو وہ مجھ سے مانگے۔”
(صحیح مسلم: 395)
فائدہ : پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں سورہ فاتحہ کو "الصلاة” (نماز) کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس کے پہلے حصے میں نمازی میری حمد و ثناء اور بڑائی و کبریائی بیان کرتا ہے اور دوسرے آدھے حصے میں اپنی ہدایت اور خیر و بھلائی کی دعائیں کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب سورہ فاتحہ کا ایک نام "الصلاة” (نماز) ہے تو پھر سورہ فاتحہ کے بغیر نماز مکمل کیسے ہوگی؟ اس لیے امام اور مقتدی ہر ایک کے لیے نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، جس کی مذکورہ بالا حدیث واضح دلیل ہے۔
عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه، قال: كنا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فى صلاة الفجر، فقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فتثاقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال: لعلكم تقرءون خلف إمامكم؟ قلنا: نعم، هذا يا رسول الله! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها.
(رواه أبو داود بسند صحيح)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے فجر کی نماز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں آپ کے پیچھے ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی تو قراءت آپ پر بھاری ہو گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: شاید تم امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ ہم نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کرو (یعنی مت پڑھو) سوائے سورہ فاتحہ کے، اس لیے کہ اس شخص کی نماز ہی نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔
(سنن أبو داود: 823)
فائدہ : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا احادیث کا حاصل یہ ہے کہ امام کی طرح مقتدی کو بھی بہرحال سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، اور جمہور ائمہ کرام جیسے امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ، اور اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ جیسے اہل علم کا مسلک رہا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنے والی احادیث تقریباً پچاس سے بھی زائد ہیں، پر اس مختصر کتابچے میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں۔ تاہم، اس موضوع سے متعلق تفصیل جاننے کے لیے چند کتابوں کا ذکر قارئین کے لیے کیا جا رہا ہے جن سے استفادہ بے حد مفید ہوگا:
➊ جزء القراءة خلف الإمام للإمام البخاري
➋ تحقيق الكلام فى وجوب القراءة خلف الإمام للعلامة المباركفوري
➌ توضيح الكلام فى وجوب القراءة خلف الإمام للعلامة إرشاد الحق الأثري
سورة الفاتحہ
جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے ہوئے ہر آیت پر ٹھہرنا اور وقف کرنا مسنون و مستحب عمل ہے۔
(سنن ترمذی: 2927)
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
(1-الفاتحة:1تا7)
ترجمہ: سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے، نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا، قیامت کے دن کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ پر چلا، ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیا، نہ ان کی راہ پر جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان کی راہ پر جو گمراہ ہوئے۔
"آمین” کہنا
جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ کے اختتام پر بآواز بلند "آمين” کہنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
عن وائل بن حجر رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ ولا الضالين قال: آمين ، ورفع بها صوته.
(رواه أبو داود بسند صحيح)
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب "وَلَا الضَّالِّينَ” کی تلاوت فرماتے تو بلند آواز سے "آمين” کہتے۔
(سنن أبو داود: 932)
عن أبى هريرة رضي الله عنه، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أمن الإمام فأمنوا، فإن من وافق تأمينه تأمين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه.
(رواه البخاري ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمين کہے تو تم بھی آمين کہو، کیونکہ جس کی آمين فرشتوں کی آمين کے موافق ہو جائے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
(صحیح بخاری: 780 – صحیح مسلم: 410)
فائدہ : سورہ فاتحہ مکمل ہونے پرآمين کہنے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ جہری نمازوں میں "آمین” زور سے کہی جائے یا آہستہ، اس میں اختلاف ہے۔
تو جاننا چاہیے کہ جہری نمازوں (فجر، مغرب، عشاء، اور جمعہ وغیرہ) میں بآواز بلند آمين کہنا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقتدی صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی آمين زور سے کہنے کا حکم فرمایا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ بلکہ اکثر احادیث جو سند اور متن دونوں اعتبار سے صحیح اور صریح ہیں، اسی موقف کی تائید کرتی ہیں۔ البتہ وہ روایات جن میں جہری نمازوں سے متعلق آمين آہستہ کہنے کا ذکر ہے، وہ سند اور متن دونوں اعتبار سے کمزور اور ضعیف ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم امام ہوں یا مقتدی یا پھر اکیلے نماز ادا کرنے والے، جہری نمازوں میں خوبصورتی کے ساتھ بلند آواز سے "آمین” کہیں۔ یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عمل صحابہ رضی اللہ عنہم، اور تعامل امت ہے۔
سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت کی قرآت
نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد پہلی دو رکعتوں میں قرآن کی کوئی اور سورت یا آیت پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے۔
عن عبد الله بن أبى قتادة رضى الله عنه عن أبيه قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم يقرأ فى الركعتين من الظهر والعصر بفاتحة الكتاب، وسورة سورة، ويسمعنا الآية أحيانا.
(رواه البخاري)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی کبھار کچھ آیات ہمیں سنا بھی دیتے تھے۔
(صحیح بخاری: 762)
عن جابر بن عبد الله رضى الله عنه قال: كنا نقرأ فى الظهر والعصر خلف الإمام فى الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخرتين بفاتحة الكتاب.
(رواه ابن ماجه بسند صحيح)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ ایک اور سورت پڑھا کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے۔
(سنن ابن ماجه: 843)
فائدہ : سری نمازوں یعنی (ظہر و عصر) کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت پڑھی جائے گی، جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں بحیثیت امام پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس کا ثبوت ہے۔ بلکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں تو اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والا شخص بھی ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت بحیثیت مقتدی ملا سکتا ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے مقتدی کو صرف سورہ فاتحہ پڑھنا ہے جو فرض ہے۔ دوسری سورت ملانے کی اجازت نہیں، بلکہ امام کی قراءت کو غور سے سننے کا حکم ہے، جیسا کہ (سنن أبو داود: 823) میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے۔
رکوع کرنا
نماز میں رکوع کرنا ارکان صلاۃ میں سے ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ﴿٤٣﴾
(2-البقرة:43)
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
رکوع کی کیفیت:
حالتِ رکوع میں نمازی کو چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لے، دونوں ہاتھوں کو تان کر رکھے اور پہلو سے دور رکھے۔
قال أبو حميد رضي الله عنه: أنا أعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر بعض هذا، قال: ثم ركع فوضع يديه على ركبتيه كأنه قابض عليهما، ووتر يديه فتجافى عن جنبيه.
(رواه أبو داود بسند صحيح)
حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا، دونوں ہاتھ سیدھے تان کر رکھے اور کہنیوں کو پہلو سے دور رکھا۔
(سنن أبو داود: 734)
اور بخاری کی روایت میں ہے کہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
(صحیح بخاری: 827)
عن وائل بن حجر رضي الله عنه، أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا ركع فرج أصابعه.
(رواه ابن خزيمة بسند صحيح)
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو اپنی انگلیوں کو کھلا رکھتے تھے۔
(صحیح ابن خزيمة: 690)
فائدہ : سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کی قراءت سے فارغ ہو کر نمازی کو چاہیے کہ "اللہ اکبر” کہے اور رفع الیدین کرتے ہوئے رکوع میں جائے، جو کہ ارکانِ نماز میں سے ایک اہم رکن ہے، جس کی رکنیت پر کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے واضح اور صریح دلائل موجود ہیں۔
حالتِ رکوع میں نمازی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے دونوں ہاتھ گھٹنوں کو مضبوطی سے اس طرح پکڑے ہوئے ہوں کہ انگلیاں کھلی رہیں، بازو پہلوؤں سے دور ہوں، اور کہنیاں سیدھی رہیں۔
حالتِ رکوع میں پیٹھ اور سر کی کیفیت
حالتِ رکوع میں نمازی کو اپنا سر اپنی پیٹھ کی برابری میں رکھنا چاہیے۔
عن عائشة رضي الله عنها قالت: وكان إذا ركع لم يشخص رأسه، ولم يصوبه، ولكن بين ذلك.
(رواه مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ وہ کہتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو سر نہ اوپر اٹھاتے نہ نیچے جھکاتے، بلکہ دونوں کے درمیان سیدھا رکھتے۔
(صحیح مسلم: 498)
قال أبو حميد رضى الله عنه فى أصحابه: ركع النبى صلى الله عليه وسلم، ثم هصر ظهره.
(رواه البخاري)
حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، پھر اپنی پیٹھ پوری طرح جھکا دی۔
(صحيح بخاري: 828)
فائدہ : حالتِ رکوع میں پیٹھ اور سر کو برابر رکھنے کے تعلق سے نمازیوں میں اکثر کوتاہی دیکھنے میں آتی ہے۔ بعض لوگ سر کو بہت زیادہ جھکائے ہوئے ہوتے ہیں، بلکہ گھٹنوں میں دبائے نظر آتے ہیں، اور بعض پیٹھ کو سیدھا نہ رکھتے ہوئے سر کو بھی بہت اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں طریقے درست نہیں ہیں۔ مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں رکوع کی حالت میں ایک نمازی کو اپنی پیٹھ کی طرح سر کو بھی نہ زیادہ جھکانا چاہیے نہ زیادہ اٹھانا چاہیے، بلکہ سر کو پیٹھ کی برابری میں رکھنا چاہیے کہ یہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
رکوع کی بابت ایک اور اہم بات کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں کہ رکوع کرتے ہوئے بہت سے نمازی عجلت اور جلدبازی سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب کہ رکوع میں اطمینان و سکون کا پایا جانا فرض اور رکن ہے۔ اس میں بھاگم بھاگ والی کیفیت جائز نہیں، کیونکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے اطمینان سے رکوع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا حکم نماز میں صحیح طرح سے رکوع نہ کرنے والے اعرابی (دیہاتی) صحابی رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ: "پھر تم رکوع کرو، یہاں تک کہ تم رکوع میں خوب مطمئن ہو جاؤ۔”
(صحیح بخاری: 757)
رکوع کی دعائیں
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ
میرا رب عظیم ہر عیب سے پاک ہے۔
(صحیح مسلم: 772)
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي
اے اللہ! تو پاک ہے، ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔
(صحیح بخاری: 794 – صحیح مسلم: 484)
سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ
فرشتوں اور روح (جبریل علیہ السلام) کا رب نہایت پاک ہے۔
(صحیح مسلم: 487)
فائدہ : رکوع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد اذکار، تسبیحات، اور دعائیں ثابت ہیں، جن میں سے بعض کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ ان مذکورہ دعاؤں میں سے کسی ایک کو بھی رکوع میں پڑھ لینا کفایت کر جائے گا۔
تسبیحات کی تعداد:
رکوع اور سجدے کی تسبیحات اور دعاؤں کا ایک مخصوص تعداد (طاق یا جفت) میں پڑھنا کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے۔ تاہم، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ
(صحیح مسلم: 2677)
کہ "اللہ ایک ہے اور طاق عدد کو پسند فرماتا ہے”
کی روشنی میں تسبیحات کو ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔ تاہم، تین، پانچ، یا سات وغیرہ طاق عدد میں پڑھنا فضل اور مستحب معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے (ترمذی مع تحفة الأحوذی: 2/118-120) میں تسبیحات کو کم از کم تین کی تعداد میں پڑھنا اہل علم کا عمل قرار دیا ہے۔ البتہ، قیام اللیل اور دیگر نوافل پڑھتے ہوئے اگر لمبے رکوع و سجود کیے جائیں تو طاق عدد کی رعایت کے بجائے جو میسر آئے پڑھ لینا بہتر ہوگا۔
کیا رکوع پانے والے کو رکعت ملے گی یا نہیں؟
رکوع پانے والے کو رکعت مل گئی یا اسے دہرانا ہے، آئیے اس مسئلے کو دلائل کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔
عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها تسعون، وأتوها تمشون، عليكم السكينة، فما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فأتموا.
(رواه البخاري)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ اطمینان اور وقار سے چلتے ہوئے آؤ، وقار و طمانیت تم پر لازم ہے، نماز کا جو حصہ تمہیں مل جائے اسے پڑھ لو اور جو نہ ملے اسے پورا کر لو۔
(صحیح بخاری: 908)
فائدہ : رکوع کا موضوع ختم کرنے سے پہلے ایک اہم مسئلہ کی طرف رہنمائی ضروری ہے کہ آیا رکوع پانے والے کی رکعت شمار کی جائے گی یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہیے کہ بعد میں آکر نماز میں شامل ہونے والے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ”وہ جتنی نماز امام کے ساتھ پائے ادا کرے اور جو چھوٹ گئی ہو اسے بعد میں اٹھ کر مکمل کر لے“۔
حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حاصل یہ ہے کہ رکوع میں شامل ہونے والے کی وہ رکعت شمار نہیں ہوگی کیونکہ اسے چھوٹے ہوئے حصے کی قضا کرنے کا حکم ہے اور اس سے قیام اور سورہ فاتحہ کی قراءت دونوں چھوٹ گئے ہیں۔
یہ مسئلہ علماء کے مابین اختلافی رہا ہے تاہم جمہور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم، محدثین کرام اور اصحاب تحقیق علماء امت جن میں امام بخاری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ رکوع پانے والے کی رکعت شمار نہیں ہوگی کیونکہ اس سے نماز کے دو اہم اجزاء چھوٹ گئے ہیں:
(1) قیام: جو بالاتفاق نماز کا رکن ہے۔
(2) سورہ فاتحہ: جو اس نے نہیں پڑھی۔ جبکہ محققین اہل علم کے نزدیک اس کا پڑھنا نماز کا رکن ہے۔
اور اس پر اتفاق ہے کہ نماز کا رکن چھوٹ جانے پر نماز نہیں ہوتی تو رکوع پانے والے کو ایک طرف قیام نہیں ملا اور دوسری طرف سورہ فاتحہ بھی چھوٹ گئی تو اس کی وہ رکعت کیسے شمار کی جائے گی!
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب (جزء القراءة: 76) میں لکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اگر امام کو رکوع جانے سے پہلے کھڑے نہ پاؤ تو تمہاری وہ رکعت نہیں ہوگی۔”
البتہ دوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ رکوع پانے والے کی رکعت ہو جاتی ہے۔ ان کا استدلال جن احادیث سے ہے ان میں معروف چار احادیث ہیں جن میں تین احادیث وہ ہیں جن کی سند پر کلام ہے:
پہلی حدیث: "جو شخص نماز جمعہ کی ایک رکعت پائے وہ (بعد میں اٹھ کر) ایک رکعت اور پڑھ لے۔”
(سنن دار قطنی: 127/2)
دوسری حدیث: "جس نے امام کے ساتھ رکعت کو پالیا (اس سے پہلے کہ وہ اپنی کمر سیدھی کرے) تو اس نے اسے پالیا۔”
(السنن الکبری بیہقی: 2617)
تیسری حدیث: "جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم حالت سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ شمار مت کرو اور جس نے رکعت کو پالیا اس نے نماز پالی۔”
(ابن خزیمہ: 1622)
مذکورہ بالا تینوں احادیث سند کے اعتبار سے ضعیف اور ناقابل حجت ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تینوں روایات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، لیکن خود ان کا فتویٰ اور عمل یہ رہا ہے کہ وہ رکوع پانے والے کی رکعت کو شمار نہیں کرتے تھے۔ دیکھیے (جزء القراءة: 76)
رہی چوتھی حدیث جو حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تو وہ اس مسئلہ میں صاف اور صریح نہیں بلکہ احتمال والی ہے جس سے دونوں فریق اپنے موقف کی دلیل پکڑتے ہیں۔
اس مختصر بحث کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ رکوع پانے والے کی رکعت شمار نہیں کرتے ہیں ان کا پہلو از روئے دلیل قوی اور بھاری ہے اور احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جب ایسا موقع آجائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس رکعت کو اٹھ کر پڑھ لیا جائے۔
رکوع کے بعد اطمینان سے کھڑے ہونا ہے
رکوع سے اٹھنے کے بعد نمازی کو اطمینان سے کھڑے ہو کر قومہ کی دعا پڑھنی چاہیے، یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
عن البراء ، قال: كان ركوع النبى صلى الله عليه وسلم وسجوده، وإذا رفع رأسه من الركوع وبين السجدتين قريبا من السواء
(رواه البخاري ومسلم)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع، سجدے، اسی طرح رکوع سے اٹھ کر قیام اور دونوں سجدوں کے درمیان کا بیٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہوتا تھا۔
(صحیح بخاری: 801، صحیح مسلم: 471)
اور صحیح بخاری میں دوسری جگہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بڑی صراحت کے ساتھ قومہ کا ذکر ہے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی (دیہاتی) صحابی کو، جو رکوع کے بعد صحیح طور سے قومہ نہ کر رہا تھا، حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم ارفع رأسك حتى تعتدل قائما
(رواه البخاري)
پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ خوب اچھی طرح کھڑے ہو جاؤ۔
(صحیح بخاری: 6667)
فائدہ : رکوع سے اٹھ کر قومہ میں اطمینان سے کھڑے ہو کر دعا پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہونے کے ساتھ نماز کے فرائض میں سے ایک ہے، لیکن ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ نماز پڑھتے وقت رکوع کی دعاؤں سے فارغ ہو کر سیدھے کھڑے ہونے کی بجائے سر کو اوپر کی جانب تھوڑا سا جھٹکا دیتے ہیں اور پھر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ یہ انداز سنت کے بالکل خلاف ہے، اس لیے ہم محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہوئے قومہ میں اطمینان سے کھڑے ہو کر دعا پڑھنی چاہیے جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث میں بالکل صراحت سے اس بات کا ذکر موجود ہے۔
قومہ کی دعا
رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قومہ کی حالت میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ دعائیں ثابت ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ درج ذیل حدیث میں ہے:
عن رفاعة بن رافع رضى الله عنه قال: كنا يوما نصلي وراء النبى صلى الله عليه وسلم فلما رفع رأسه من الركعة قال: سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه
(رواه البخاری)
حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو کہا: اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے پروردگار! تو بہت زیادہ پاکیزہ، بابرکت ہے اور تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔
(صحیح بخاری: 799)
رکوع سے اٹھنے کے بعد مقتدی کیا کہے؟
رکوع سے اٹھنے کے بعد مقتدی کو کیا پڑھنا چاہیے؟ دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے علماء امت نے اس بارے میں دو الگ الگ موقف اپنائے ہیں، دونوں میں راجح کیا ہے، آئندہ سطروں میں اسے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
عن أبى هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد
(رواه البخاري ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام (سمع الله لمن حمده) کہے تو تم (ربنا ولك الحمد) کہو۔
(صحیح بخاری: 722، صحیح مسلم: 409)
اس حدیث میں (ربنا ولك الحمد) سے مراد مکمل دعا یعنی "ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه” پڑھنا ہے جیسا کہ اوپر قومہ کی دعا میں اس کا ذکر حوالے کے ساتھ موجود ہے۔
فائدہ : یہاں پر قومہ کے باب میں اس بات کی وضاحت بہت اہم ہے کہ اگر نمازی امام یا منفرد (اکیلا) ہو تو ظاہر ہے کہ وہ رکوع سے اٹھتے ہوئے (سمع الله لمن حمده) کہے گا اور (ربنا ولك الحمد) کی پوری دعا بھی پڑھے گا، البتہ اگر کوئی نمازی مقتدی کی حیثیت سے نماز پڑھ رہا ہو تو کیا وہ صرف (ربنا ولك الحمد) پڑھے یا امام کی طرح (سمع الله لمن حمده) بھی کہے؟ اس بارے میں جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ امام تو (سمع الله لمن حمده) کہے گا لیکن مقتدی نہ کہے بلکہ صرف (ربنا ولك الحمد) پڑھے۔ جمہور کا استدلال( صحیحین، سنن ابو داؤد، سنن نسائی اور سنن ترمذی) میں موجود روایات سے ہے۔
تاہم راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح (سمع الله لمن حمده) اور (ربنا ولك الحمد) دونوں پڑھے گا کیونکہ مذکورہ حدیث میں مقتدی کے لیے (سمع اللہ لمن حمدہ) نہ کہنے کی صراحت موجود نہیں ہے، جس طرح امام کے لیے (ربنا ولك الحمد) پڑھنے کی صراحت موجود نہیں۔ جبکہ دوسری احادیث کی روشنی میں مقتدی امام کی پیروی کا پابند ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت امام (سمع الله لمن حمده) اور (ربنا ولك الحمد) دونوں پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: "کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو” اس کا تقاضا کرتا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح (سمع الله لمن حمده) پڑھے گا، بالکل اسی طرح جیسے مقتدی امام کی ہر تکبیر انتقال (الله اكبر) کو امام کے پیچھے دہراتا ہے۔ اسی کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (صفة صلاة النبي صلی اللہ علیہ وسلم، ص: 135) میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (فتح الباری 266/2) میں، نیز علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے (نیل الاوطار 2/93,94) میں بیان کیا ہے۔
رکوع سے اٹھنے پر نمازی اپنا ہاتھ کہاں رکھے؟
بعض دفعہ یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ بعض لوگ نماز پڑھتے ہوئے رکوع سے اٹھ کر رفع الیدین کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو نیچے چھوڑنے کی بجائے سینے پر باندھ لیتے ہیں جیسا کہ وہ رکوع سے پہلے قیام میں باندھے ہوئے تھے۔ اس عمل کو دیکھ کر بعض دوسرے نمازی حیرانگی کے عالم میں یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا ایسا کرنا بھی جائز ہے؟
دراصل یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ اس بابت کتاب و سنت کی کوئی صریح نص موجود نہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھ کر رکھا جائے یا چھوڑا جائے اور یہی وجہ اختلاف ہے۔
جن لوگوں نے باندھنے کی بات کہی ہے انہوں نے دلیل میں رکوع سے پہلے حالت قیام میں ہاتھ باندھنے والی روایات کو پیش کیا ہے جو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے لیے غیر صریح ہیں۔ البتہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کو اپنی اصلی حالت پر چھوڑ دیا جائے، باندھا نہ جائے کہ اس کی کوئی صریح دلیل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود نہیں ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے اس لیے اس میں توسع اور گنجائش والا موقف اپنانا ہی منہج سلف ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے:
إن شاء أرسل يديه بعد الرفع من الركوع وإن شاء وضعهما
کہ رکوع کے بعد چاہے اپنے ہاتھوں کو چھوڑ دے اور چاہے تو باندھ لے۔
(صفة الصلاة للتويجري، ص: 80)
اس سے معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کا اختلاف جائز و ناجائز کا نہیں بلکہ افضل و غیر افضل کا ہے۔ اس موضوع پر علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی بات کو نقل کرنا فائدہ سے خالی نہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ”کہ ہاتھوں کو باندھنا سنت کے قبیل سے ہے، واجبات میں سے نہیں۔ اگر کوئی شخص قیام اور قومہ میں ہاتھوں کو باندھے بغیر لٹکائے ہوئے ہی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے، البتہ اس کا ترک افضل ہے اور مسلمانوں میں سے کسی کے لیے لائق نہیں کہ وہ ایسے معاملات کو اپنے درمیان جھگڑے اور تفرقے کا ذریعہ بنائے، بلکہ سب پر واجب ہے کہ تمام ممکن کوششیں اس بات پر صرف کریں کہ بھلائی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون بحال رہے، حق کو دلیل کے ساتھ واضح کیا جائے، ایک دوسرے کے خلاف حسد و نفرت سے دلوں کو پاک و صاف رکھا جائے اور ہاتھوں کو باندھنے یا چھوڑنے جیسے فرعی مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے ترک تعلق اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے پرہیز کرنے کا رویہ ہرگز نہ اپنایا جائے۔“
(ثلاث رسائل، ص: 140,141)
سجدے میں جانے کی کیفیت
سجدے میں جاتے ہوئے نمازی کو زمین پر پہلے اپنے ہاتھ رکھنے چاہییں پھر گھٹنے۔ دلیل ملاحظہ ہو:
عن أبى هريرة رضى الله عنه ۖ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا سجد أحدكم فليضع يديه قبل ركبتيه ولا يبرك بروك البعير
(رواه النسائي بسند صحيح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے اور اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔
(سنن نسائی: 1091)
عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما، أنه كان يضع يديه قبل ركبتيه وقال: كان النبى صلى الله عليه وسلم يفعل ذلك
(رواه البخاري، معلقا في صحيحه و الحاكم في مستدركه)
حضرت نافع رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھا کرتے اور فرماتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
(صحیح بخاری، باب: يھوي بالتكبير حين يسجد، معلقا؛ مستدرک حاکم: 826)
فائدہ : رکوع، قومہ اور ان کے اذکار سے فارغ ہو کر سجدہ کیا جاتا ہے۔ البتہ سجدہ میں جاتے ہوئے کچھ نمازیوں کو پہلے ہاتھ پھر گھٹنے، جبکہ بعض کو پہلے گھٹنے پھر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے صحیح اور قوی ترین بات یہ ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھے جائیں کیونکہ نمازیوں کو سجدہ میں جاتے ہوئے اونٹ کی طرح پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور پہلے ہاتھ رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اور ایسے ہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث اور آثار سے بالکل واضح ہے اور اس کی تائید میں صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین سے بکثرت روایات مروی ہیں۔
البتہ وہ روایات جن سے سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے پھر ہاتھ رکھنے پر دلیل لی جاتی ہے وہ ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں جیسا کہ عصر حاضر کے معروف محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (إرواء الغليل: 75/2-79 اور سلسلة الأحاديث الضعيفة: 328-332/2) میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
سجدے کی کیفیت
سجدہ کرتے ہوئے نمازی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سجدے میں سات اعضاء جسم زمین سے لگے ہوئے ہوں جیسا کہ حدیث میں ہے:
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: أمرت أن أسجد على سبعة أعظم على الجبهة وأشار بيده على أنفه واليدين والركبتين وأطراف القدمين
(رواه البخاري ومسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر۔
(صحیح بخاری: 812، صحیح مسلم: 490)
فائدہ : سجدہ ارکان نماز میں سے ایک اہم رکن ہے، جسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اعضاء پر کیا ہے۔ امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ پر عمل ضروری ہے۔ اس لیے تمام متبعین کتاب و سنت کو انہی سات اعضاء پر سجدہ کرنا چاہیے:
(1) پیشانی (جس میں ناک بھی شامل ہے)
(2-3) دونوں ہاتھ
(4-5) دونوں گھٹنے اور
(6-7) دونوں پاؤں (کی انگلیاں)
کچھ لوگ سجدہ کرتے ہوئے لاعلمی یا تساہل کی بنا پر ناک کو زمین سے الگ رکھتے ہیں۔ ایسے نمازیوں کو جاننا چاہیے کہ پیشانی کے ساتھ ناک کو زمین پر رکھنا واجب ہے، اس لیے حالت سجدہ میں اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔
سجدے میں کہنیوں کا انداز
حالت سجدہ میں نمازی کو اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھ کر کہنیوں کو زمین سے اوپر رکھنا چاہیے۔ ارشاد نبوی ہے:
عن البراء رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا سجدت، فضع كفيك وارفع مرفقيك
(رواه مسلم)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھو اور کہنیوں کو زمین سے اوپر اٹھاؤ۔
(صحیح مسلم: 494)
سجدے میں بازوؤں کا انداز
سجدہ کی حالت میں نمازی کو اپنی کہنیاں اور اپنے بازو اپنے پہلو سے ہٹا کر رکھنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں بالکل صراحت کے ساتھ موجود ہے:
عن عبد الله بن مالك ابن بحينة رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا سجد فرج بين يديه حتى نرى إبطيه
(رواه البخاري)
حضرت عبد اللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازوؤں کو پہلو سے اس قدر الگ رکھتے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں دکھائی دیتیں۔
(صحیح بخاری: 3564)
بعض دفعہ کچھ نمازیوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ بوقت سجدہ اپنی کہنیوں اور بازوؤں کو اپنے گھٹنوں کے ساتھ لگائے ہوئے اور پسلیوں سے جوڑے ہوئے ہوتے ہیں جو درست نہیں ہے بلکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ نمازی سجدے میں اپنے بازوؤں اور کہنیوں کو پہلوؤں سے ہٹا کر رکھے۔
عن أنس بن مالك رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: اعتدلوا فى السجود، ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب
(رواه البخاري ومسلم)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سجدے میں اعتدال سے رہو اور تم میں سے کوئی شخص اپنا ہاتھ کتے کی طرح زمین پر نہ بچھائے۔
(صحیح بخاری: 822، صحیح مسلم: 493)
فائدہ : سجدہ کرتے وقت چونکہ نمازی کے ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سجدے کی یہی صورت ہے کہ وہ آگے سے جھکے ہوئے اور پیچھے سے اٹھے ہوئے ہوں، لیکن بازوؤں کو زمین پر بچھانے کی صورت میں سجدے کی حالت باقی نہیں رہتی۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کو ناپسند کیا ہے اور بازوؤں کو زمین پر بچھانے سے کتے کی مشابہت ہوتی ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ یہ ممانعت مرد و عورت دونوں کے لیے ہے کہ مرد و عورت کے سجدے کی کیفیت میں کوئی فرق کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
سجدے میں ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کا انداز
سجدے میں نمازی کو اپنے ہاتھ کی انگلیاں زمین پر قبلہ رخ لٹا کر اور آپس میں ملا کر رکھنا چاہیے اور پاؤں کی انگلیوں کو بھی زمین سے لگا کر قبلہ کی طرف کر لینا چاہیے کہ یہی نبوی طریقہ ہے۔
عن علقمة بن وائل رضى الله عنه عن أبيه، أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا سجد ضم أصابعه
(رواه الحاكم في المستدرك بسند صحيح)
حضرت علقمہ بن وائل رضی اللہ عنہ اپنے والد (وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے (ہاتھ) کی انگلیوں کو آپس میں ملا دیتے۔
(المستدرک علی الصحیحین: 832)
فائدہ : حالت سجدہ میں نمازی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے دونوں ہاتھ کی انگلیاں زمین پر قبلہ رخ ہوں اور آپس میں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوں، کھلی ہوئی نہ ہوں۔
قال أبو حميد الساعدي رضى الله عنه (في وصف صلاة النبى صلى الله عليه وسلم فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما، واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة
(رواه البخاري)
حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق فرماتے ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو ہاتھوں کو نہ بچھایا نہ ہی (پہلو سے چپکایا) سمیٹا اور اپنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا۔
(صحیح بخاری: 828)
عن عائشة رضي الله عنها قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من الفراش فالتمسته فوقعت يدي على بطن قدميه وهو فى المسجد وهما منصوبتان
(رواه مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا تو میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوؤں پر جا لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے اور اپنی ایڑیاں کھڑی کر رکھی تھیں۔
(صحیح مسلم: 486)
فائدہ : بحالت سجدہ نمازی کے لیے (مرد ہو یا عورت) ضروری ہے کہ اپنے پاؤں کھڑے رکھے اور پاؤں کی انگلیوں کو اس طرح زمین پر لگا کر رکھے کہ وہ قبلہ رخ ہوں۔ پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ بعض لوگ سستی یا لاعلمی کی وجہ سے پاؤں کو سیدھا کھڑا رکھنے کی بجائے پیچھے کی طرف بچھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک تو پاؤں کھڑے نہیں رہتے، دوسرے پاؤں کو پیچھے کی طرف بچھا دینے سے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ نہیں رہتیں، جس سے حالت سجدہ میں پاؤں مسنون طریقے پر قائم نہیں رہ پاتے۔ حالانکہ جسم کے تمام اعضاء کو مسنون انداز میں رکھا جائے تو سجدہ اپنے تمام اعضاء کے ساتھ مسنون طریقے پر ادا ہوتا ہے جو مقصود و مطلوب ہے۔
اسی طرح بعض نمازیوں میں ایک بڑی کوتاہی نظر آتی ہے کہ وہ بحالت سجدہ اپنے پاؤں کو زمین پر رکھنے کی بجائے اوپر کی طرف اٹھا لیتے ہیں۔ تو ایسے نمازیوں کو باخبر رہنا چاہیے کہ سجدہ کی حالت میں پاؤں کی انگلیوں کا زمین سے لگا رہنا واجب ہے۔ کسی شرعی عذر کے بغیر پاؤں کو اوپر اٹھائے رکھنے سے سجدہ نہیں ہوگا کیونکہ (صحیح بخاری: 812، اور صحیح مسلم: 490) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نے مجھے سات چیزوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، ان سات چیزوں میں أطراف القدمين (انگلیوں) کا بھی ذکر ہے، یعنی انگلیوں کو قبلہ رخ کر کے زمین پر رکھ کر سجدہ کرنا واجب ہے۔
علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے (مرعاة المفاتيح 3/204) میں اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے کہ ساتوں اعضاء کو زمین پر رکھ کر سجدہ کرنا واجب ہے کیونکہ حدیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے۔
اس موضوع کے تحت ایک اور بات کی رہنمائی فائدہ مند ہوگی کہ دوران سجدہ عام طور پر دونوں پاؤں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے۔ تاہم پاؤں کی ایڑیاں بحالت سجدہ اگر ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت (سنن ترمذی: 654) میں بسند صحیح آئی ہے جس میں بحالت سجدہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کے ملے رہنے کا ثبوت موجود ہے۔
سجدے میں ہتھیلیوں کو رکھنے کی جگہ
سجدہ میں ہتھیلیوں کو اپنے کندھے کے مقابل اور برابری میں زمین پر رکھنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے:
عن أبى حميد الساعدي رضي الله عنه، أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا سجد أمكن أنفه وجبهته من الأرض، ونحى يديه عن جنبيه، ووضع كفيه حذو منكبيه
(رواه الترمذي بسند صحيح)
حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو ناک اور پیشانی زمین پر ٹکا دیتے، اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے دور رکھتے اور ہتھیلیوں کو کندھوں کے برابر رکھتے۔
(سنن ترمذی: 270)
دوران سجدہ بسا اوقات کچھ نمازیوں سے ایک بے احتیاطی یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کو کانوں سے آگے بلکہ بعض لوگ تو اپنے سر سے بھی آگے لے جا کر رکھتے ہیں جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس لیے نمازیوں کو اس سے بچنا چاہیے اور دوران سجدہ اپنی ہتھیلیوں کو اپنے کندھوں کے برابر رکھنا چاہیے کہ یہی صورت احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
سجدہ کی دعائیں
(1) سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى
میرا بلند و اعلیٰ رب پاک ہے۔
(صحیح مسلم: 772)
(2) سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي
اے اللہ! تو پاک ہے، ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔
(صحیح بخاری: 794، صحیح مسلم: 484)
(3) سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ
فرشتوں اور روح (جبریل علیہ السلام) کا رب نہایت پاک ہے۔
(صحیح مسلم: 487)
فائدہ : سجدے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد اذکار، تسبیحات اور دعائیں ثابت ہیں جن میں سے بعض کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ ان مذکورہ دعاؤں میں سے کسی ایک کو بھی سجدے میں پڑھ لینا کفایت کر جائے گا۔
سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی کیفیت
دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی کیفیت کچھ اس طرح ہے کہ مصلی پہلے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اپنے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھے اور دوسرے سجدے سے اٹھنے کے بعد بھی بیٹھنے کا یہی طریقہ ہے جو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
قال أبو حميد رضي الله عنه: ويفتح أصابع رجليه إذا سجد، ثم يقول: الله أكبر، ويرفع ويثني رجله اليسرى، فيقعد عليها
(رواه أبو داؤد بسند صحيح)
حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے پاؤں کی انگلیاں کھول دیتے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے، پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کرتے۔
(سنن ابو داؤد: 963)
فائدہ : سجدے سے اٹھنا اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا ارکان نماز میں سے ہے۔ تو جب نمازی پہلے سجدے کے اذکار و تسبیحات سے فارغ ہو جائے تو ”اللہ اکبر“ کہتے ہوئے سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور پورے اطمینان سے بیٹھ جائے۔ البتہ بیٹھنے کی کیا کیفیت ہونی چاہیے، اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث وارد ہیں جن میں حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے طریقہ نماز کی بابت مروی تفصیلی حدیث میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے، بائیں پاؤں کو موڑ کر اس کے اوپر خوب اچھی طرح بیٹھ جاتے اس طرح کہ جسم کی ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ پر پہنچ جاتی۔
(سنن ابو داؤد: 730، صحیح ابن خزیمہ: 677)
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بعض نمازی اپنا بایاں پاؤں تو بچھاتے ہیں، ساتھ میں دایاں بھی بچھا دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ بایاں پاؤں بچھانے کی بجائے دایاں پاؤں بچھا دیتے ہیں اور بائیں کو کھڑا رکھتے ہیں، جبکہ یہ دونوں باتیں خلاف سنت ہیں۔ البتہ بعض احادیث میں بائیں پاؤں کو بچھانے اور دائیں کو کھڑا رکھنے والے اس طریقے کے علاوہ ایک دوسرا طریقہ بھی مذکور ہے کہ نمازی دو سجدوں کے درمیان اپنے دونوں پاؤں جوڑ کر کھڑا رکھے اور ان کی ایڑیوں پر بیٹھ جائے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس عمل کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتلایا ہے جیسا کہ (صحیح مسلم: 536) میں ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار دونوں سجدوں کے درمیان ایسا بھی کرتے تھے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی عمل بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنا اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھنا ہی ہے۔
سجدوں کے درمیان کی دعا
سجدوں کے درمیان پڑھی جانے والی دعا کے جملے کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ متعدد روایات میں آئے ہیں، تاہم سنن ابو داؤد کے جملے اس ترتیب سے ہیں:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي
اے اللہ! مجھے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما، عافیت دے، ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
(سنن ابو داؤد: 850)
جلسہ استراحت
پہلی رکعت کے دو سجدوں سے فارغ ہو کر دوسری رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے اطمینان سے بیٹھ جانا، اسی طرح تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے فارغ ہو کر چوتھی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے اطمینان سے بیٹھنے کو ”جلسه استراحت“ کہتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
عن مالك بن الحويرث رضى الله عنه أنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم يصلي، فإذا كان فى وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي قاعدا
(رواه البخاري)
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ کی پہلی اور تیسری رکعت میں ہوتے تو دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے ٹھیک سے بیٹھ جاتے۔
(صحیح بخاری: 823)
عن مالك بن الحويرث رضى الله عنه أنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم يصلي، وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس، واعتمد على الأرض ثم قام
(رواه البخاري)
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سجدے سے سر اٹھایا تو بیٹھ گئے اور پھر زمین پر ہاتھوں سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے۔
(صحیح بخاری: 824)
فائدہ : دوسرے سجدے سے جب فارغ ہو جائیں تو دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے بالکل اسی طرح بیٹھ جائیں جس طرح دونوں سجدوں کے درمیان والے وقفے میں دایاں پاؤں کھڑا رکھ کر اور بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھا جاتا ہے۔ اس بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہا جاتا ہے۔ دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھ لینے کے بعد جب اٹھنے کا ارادہ کریں تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر انہی کے بل پر اٹھیں جیسا کہ (صحیح بخاری: 824) میں حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے بصراحت اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود ہے۔
بعض احادیث میں جلسہ استراحت کے بعد اٹھتے ہوئے زمین پر ہاتھوں کو کیسے ٹیکا جائے اس کا انداز بھی مذکور ہے کہ ہاتھوں کو مٹھی بنا کر اس طرح بند رکھا جائے جس طرح آٹا گوندھتے وقت ہاتھوں کی مٹھیاں بند ہوتی ہیں اور انہی بند مٹھیوں کے سہارے زمین پر ٹیک لگا کر اٹھا جائے جیسا کہ امام بیہقی نے اپنی (سنن کبری: 135/2) میں بسند صحیح اس عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے۔
تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت
تشہد یعنی دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر بیٹھنے کی کیفیت یہ ہے کہ مصلی اپنے بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا کر اس پر بیٹھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے انگلیوں کو قبلہ رخ کر لے، جبکہ آخری تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں پاؤں کو دائیں پاؤں کے نیچے سے نکال کر سرین کے بل زمین پر بیٹھا جائے اور دائیں پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کر کے پاؤں کو کھڑا رکھا جائے۔ یہی نبوی سنت رہی ہے۔
قال أبو حميد الساعدي رضى الله عنه فإذا جلس فى الركعتين جلس على رجله اليسرى، ونصب اليمنى، وإذا جلس فى الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى، ونصب الأخرى وقعد على مقعدته
(رواه البخاري)
حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں پر بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر دیتے، اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں دائیں پاؤں کے نیچے سے باہر نکال دیتے، دائیں پاؤں کو کھڑا کر دیتے اور سرین کے بل بیٹھ جاتے۔
(صحیح بخاری: 828)
عن أبى حميد الساعدي رضى الله عنه قال: إذا كانت السجدة التى فيها التسليم أخر رجله اليسرى وقعد متوركا على شقه الأيسر
(رواه أبو داؤد بسند صحيح)
حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سجدہ میں ہوتے جس میں سلام کہنا ہوتا (تو تشہد میں) اپنے بائیں پاؤں کو آگے کر دیتے اور بائیں پہلو سرین کے حصے پر بیٹھ جاتے۔
(سنن ابو داؤد: 730)
فائدہ : دوسری رکعت سے فارغ ہو کر تشہد کے لیے بیٹھنا واجب ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متواتر عمل رہا ہے۔ تشہد اول میں بیٹھنے کی کیفیت یہ ہے کہ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھا جائے اور بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا کر اس پر بیٹھا جائے، اسے ”افتراش“ کہتے ہیں۔
رہا وہ تشہد جس میں سلام پھیرا جاتا ہے، خواہ وہ دو رکعت والی نماز کا تشہد ہو (جیسے فجر، جمعہ اور دیگر سنن و نوافل) یا تین اور چار رکعت والی نماز کا تشہد (جیسے مغرب اور عشاء وغیرہ)، اس میں بیٹھنے کی کیفیت یہ ہے کہ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھا جائے اور بائیں پاؤں کو دائیں کے نیچے سے نکال کر سرین کے بل زمین پر بیٹھا جائے۔ اسے ”تورک“ کہتے ہیں جس کا ثبوت مذکورہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
یہاں اس بات کی تنبیہ فائدہ سے خالی نہیں کہ تشہد میں بیٹھنے کی مذکورہ کیفیت چاہے وہ ”افتراش“ ہو یا ”تورک“، دونوں مسنون عمل ہیں، واجب اور فرض نہیں۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر نماز کے سلام سے پہلے والے تشہد میں تورک کیا جائے یا پھر صرف تین اور چار رکعت والی نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو؟ یہ محض افضل اور اولیٰ کا اختلاف ہے، جائز اور ناجائز کا نہیں، اس لیے اس بابت نہ تو کسی بحث و مناظرہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی پر طعن و تشنیع اور تنقید کی۔
البتہ اس بات کا خیال رہے کہ تین یا چار رکعت والی نماز میں پہلا تشہد واجب ہے، جبکہ دوسرا اور آخری تشہد نماز کا رکن ہے، جس کا مطلب ہے کہ پہلا تشہد جو واجب ہے، اگر چھوٹ جائے تو ”سجدہ سہو“ سے اس کی تلافی ہو جائے گی، لیکن دوسرا اور آخری تشہد چھوٹنے پر نماز ہی نہیں ہوگی۔
اس مناسبت سے ایک اور بات کا ذکر ضروری ہے کہ بعض لوگ تشہد کے لیے بیٹھنے کی کیفیت کے بارے میں مرد و عورت کے درمیان فرق مانتے ہیں، جبکہ قیام، سجدے، رکوع اور نماز کے دیگر احکام و مسائل میں مرد و عورت کے درمیان فرق کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ اسی طرح تشہد کے لیے بیٹھنے کی بابت بھی مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق صحیح احادیث میں مذکور نہیں۔
البتہ وہ آثار (صحابہ رضی اللہ عنہم) جنہیں فرق کرنے والے لوگ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، سب ضعیف ہیں۔ اس کے برخلاف امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (التاريخ الصغير: 95) میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کا ایک اثر نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
إنها كانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة
کہ وہ (ام درداء رضی اللہ عنہا) نماز میں مردوں کی طرح ہی بیٹھا کرتی تھیں، جبکہ وہ ایک فقیہ عورت تھیں۔ اور اسی اثر کو لے کر امام بخاری رحمہ اللہ نے (صحیح بخاری: 827) کے ضمن میں ایک باب باندھا ہے:
وكانت أم الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة
اس سے واضح ہے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
صلوا كما رأيتموني أصلي
(صحيح بخاري: 605)
کہ ”تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھے دیکھا ہے“ کا حکم مرد و عورت دونوں کو شامل ہے اور نماز کے کسی بھی حصہ میں مرد و عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔
تشہد میں دونوں ہاتھوں کی کیفیت
تشہد میں بیٹھتے ہوئے نمازی کو چاہیے کہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لے اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے تین کی گرہ لگا کر سبابہ سے اشارہ کرتا رہے۔ یہی طریقہ عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ حدیث ملاحظہ ہو:
عن عامر بن عبد الله بن الزبير رضى الله عنه عن أبيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى، ويلقم كفه اليسرى ركبته
(رواه مسلم)
حضرت عامر بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (نماز میں بیٹھ کر) دعا کرتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور اپنا انگوٹھا اپنی درمیانی انگلی پر رکھتے اور بائیں گھٹنے کو اپنی بائیں ہتھیلی کے اندر لے لیتے (پکڑ لیتے)۔
(صحیح مسلم: 579)
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قعد فى التشهد وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى، ووضع يده اليمنى على ركبته اليمنى، وعقد ثلاثة وخمسين، وأشار بالسبابة
(رواه مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے دائیں گھٹنے پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھ لیتے اور تین (53) کی گرہ بناتے اور اپنی سبابہ (شہادت کی انگلی) سے اشارہ کرتے۔
(صحیح مسلم: 580)
فائدہ : مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ نمازی چاہے تو دوران تشہد اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لے اور چاہے تو گھٹنوں سے تھوڑا پیچھے رانوں پر رکھ لے، دونوں ہی طریقے درست ہیں اور دونوں میں نمازی کو اختیار ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بوقت تشہد کہنیاں اور کلائیاں رانوں پر ہوتے ہوئے پہلوؤں کے ساتھ لگی ہوئی ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں۔
بائیں ہاتھ کی کیفیت
دوران تشہد بائیں ہاتھ کی کیفیت کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو رانوں یا گھٹنوں پر رکھ کر بچھی اور کھلی رکھتے تھے جیسا کہ (صحیح مسلم: 580) میں صراحت کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور عام طور پر بائیں ہاتھ سے متعلق نمازیوں کا یہی انداز دیکھنے میں آتا ہے جو عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق اور درست ہے۔ تاہم دوران تشہد دائیں ہاتھ کے بارے میں کچھ کوتاہیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔
دائیں ہاتھ کی کیفیت
دائیں ہاتھ سے متعلق اکثر نمازیوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے بھی دوران تشہد بائیں ہاتھ کی طرح کھلا اور بچھا رکھتے ہیں، حالانکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ یہ ہے کہ تشہد کے لیے بیٹھتے ہی دائیں ہاتھ کو ڈھیلی سی مٹھی کی شکل میں بند کر کے تین (53) کی گرہ لگا کر رکھا جائے اور صرف شہادت کی انگلی کو کھلا رکھا جائے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں اس کیفیت کی مکمل وضاحت موجود ہے۔
انگلی سے اشارہ کرنا
تشہد میں بیٹھتے ہی نمازی کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے تین (53) کی گرہ بنا لینی چاہیے اور شہادت کی انگلی کو اٹھا کر اشارہ کرتے رہنا چاہیے۔ اس پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا جلس فى الصلاة وضع يديه على ركبتيه، ورفع إصبعه التى تلي الإبهام، فدعا بها
(رواه مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے اور انگوٹھے سے ملنے والی دائیں ہاتھ کی انگلی (شہادت کی انگلی) اٹھا کر اس سے دعا کرتے۔
(صحیح مسلم: 580)
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: كان إذا جلس فى الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى، وقبض أصابعه كلها، وأشار بأصبعه التى تلي الإبهام
(رواه أبو داؤد بسند صحيح)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر رکھ لیتے اور ساری انگلیاں بند کر لیتے (یعنی 53 کی گرہ بنا لیتے) اور انگوٹھے کے ساتھ والی (شہادت والی) انگلی سے اشارہ کرتے۔
(سنن ابو داؤد: 987)
عن عامر بن عبد الله بن الزبير رضى الله عنه عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قعد فى التشهد وضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى، وأشار بالسبابة لا يجاوز بصره إشارته
(رواه النسائي بسند صحيح)
حضرت عامر بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے اور سبابہ (دائیں ہاتھ کے شہادت کی انگلی) سے اشارہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے آگے نہیں بڑھتی تھیں۔
(سنن نسائی: 1275)
فائدہ : مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ تشہد کے شروع میں بیٹھتے ہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ کو اپنے دائیں گھٹنے پر رکھ کر تین (53) کی گرہ بنا لیتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے رہتے۔ یہی اصحاب رسول رضی اللہ عنہم، محدثین کرام اور ائمہ اربعہ کا مسلک رہا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف بہت سے نمازیوں کی عادت یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ تشہد میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بچھا کر بیٹھے رہتے ہیں اور جب کلمہ شہادت پر پہنچتے ہیں تو ”لا إله“ پر شہادت کی انگلی اٹھاتے اور ”إلا الله“ پر گرا لیتے ہیں، جبکہ اس عمل کی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔
رہی یہ بات کہ انگلی کو ہلانے یا اشارہ کرنے میں کیا حکمت ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا واضح جواب دیتے ہوئے فرمایا:
إنها أشد على الشيطان من الحديد، يعني السبابة
(رواه أحمد بسند حسن)
کہ ”یہ (شہادت کی انگلی) تو شیطان کے لیے لوہے سے بھی زیادہ سخت اور اذیت ناک ہے۔“
(مسند احمد: 6108)
گویا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے رہنا شیطان کے خطرناک حملوں سے بچنے کے لیے ایک نسخہ کیمیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس طرح انگلی سے اشارہ کرنے میں صحابہ رسول رضی اللہ عنہم، محدثین کرام اور ائمہ اربعہ کا کوئی اختلاف نہیں، اسی طرح اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے سلام پھیرنے تک نمازی کی نگاہ اس اشارے پر ٹکی رہنی چاہیے کہ یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جیسا کہ سنن نسائی کی مذکورہ حدیث سے ثابت ہے۔
دعائے تشہد
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر سلام، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر بھی اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
(صحیح بخاری: 1202)
فائدہ :
”التحيات“ پڑھتے ہوئے ”السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“ یا ”السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ“ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا جائے؟ یہ سوال بعض لوگوں کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔
تو جاننا چاہیے کہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان یہ مسئلہ زیر بحث آیا، جس پر صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم با حیات تھے تو ہم تشہد میں ”السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“ کہا کرتے تھے کہ ”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر سلامتی ہو“۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے کی بجائے غائب کے صیغے سے سلام بھیجتے ہیں اور یہ کہتے ہیں: ”السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ“ کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو“۔
(مسند احمد: 3935)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ”السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“ کہنا واجب نہیں رہا بلکہ ”السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ“ بھی کہا جا سکتا ہے۔
البتہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بشمول حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ”السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“ ہی پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم: 403، سنن ابو داؤد: 974)
درود ابراهیمی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمتیں نازل کیں، یقیناً تو بزرگی والا قابل تعریف ہے۔
اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکتیں نازل کیں، یقیناً تو بزرگی والا قابل تعریف ہے۔
(صحیح بخاری: 3370)
فائدہ : درود ابراہیمی پہلے تشہد میں پڑھا جائے یا صرف اس تشہد میں جس میں سلام پھیرا جاتا ہے؟ نمازیوں کی طرف سے موقع بموقع یہ سوال آیا کرتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے وارد ایک حدیث میں اس کا جواب موجود ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نو رکعت پڑھتے تو ان کے درمیان صرف آٹھویں رکعت پر تشہد کے لیے بیٹھتے:
ويحمد الله ويصلي على نبيه ثم ينهض ولا يسلم
تو اللہ کی تعریف کرتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے اور پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے۔
(سنن نسائی: 1720)
یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ پر پہلے تشہد میں اسی طرح درود پڑھا جس طرح دوسرے تشہد میں پڑھتے تھے۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں سابق مفتی اعظم سعودی عرب علامہ ابن باز رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نیز مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اور پاک و ہند، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے اکثر اہل علم و فضل اس بات کے قائل ہیں کہ پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا چاہیے۔ البتہ پہلے تشہد میں درود کا پڑھنا جائز و مستحب ہے، جبکہ دوسرے اور آخری تشہد میں اس کا پڑھنا واجب اور فرض ہے۔
تشہد میں سلام سے پہلے کی دعائیں
اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اے اللہ! یقیناً میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو نہیں بخش سکتا، اپنے پاس سے مجھے بخشش عنایت فرما اور مجھ پر رحم فرما، یقیناً تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
(صحیح بخاری: 834، صحیح مسلم: 2705)
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ
اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں، مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(صحیح بخاری: 832، صحیح مسلم: 589)
فائدہ : تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے مذکورہ بالا دعاؤں کے علاوہ کچھ اور مأثور دعائیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جن کا پڑھنا جائز و مستحب ہے، جیسا کہ (صحیح مسلم: 771 اور سنن نسائی: 1302) وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سلام پھیرنا
تشہد میں دعاؤں سے فارغ ہو کر سلام پھیرنا ارکان نماز میں سے ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:
عن عبد الله رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يسلم عن يمينه، وعن شماله، حتى يرى بياض خده: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله
(رواه أبو داؤد بسند صحيح)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں پھر بائیں جانب سلام پھیرتے تھے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی نظر آتی۔ سلام کے الفاظ ہوتے:
السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ
(سنن ابو داؤد: 996)
فائدہ : تشہد میں التحیات، درود ابراہیمی اور دعاؤں سے فارغ ہو کر سلام پھیرا جاتا ہے جو ارکان نماز میں سے ہے۔ سلام پھیرنے کی کیفیت کچھ اس طرح ہے کہ پہلے دائیں جانب چہرہ پھیرتے ہوئے کہیں: ”السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ“ اور پھر بائیں جانب چہرہ پھریں اور کہیں: ”السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ“. بعض دیگر احادیث کی روشنی میں دونوں طرف سلام پھیرتے ہوئے ”السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ“ کے الفاظ بھی ثابت ہیں۔
(سنن ابو داؤد: 997)
رہی یہ بات کہ سلام کرتے ہوئے چہرہ کس حد تک پھیرا جائے تو (سنن ابو داؤد: 996) کے مطابق پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک چہرہ پھیرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں کی سفیدی نظر آجاتی۔
امام کی پیروی کا حکم
باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے مقتدیوں کو دوران نماز اپنا ہر کام امام کے بعد کرنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث کا مدلول بالکل واضح ہے:
عن أنس بن مالك رضى الله عنه يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا
(رواه البخاري)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام تو اقتدا کے لیے بنایا گیا ہے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی رکوع سے سر اٹھاؤ۔
(صحیح بخاری: 805)
فائدہ : امام کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی ارکان نماز کو نہ امام سے پہلے انجام دے اور نہ امام کے ساتھ، بلکہ مقتدی کو ہر کام اس وقت کرنا چاہیے جب امام کر چکے کہ یہی حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ ہے جیسا کہ (صحیح مسلم: 426) میں ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
أيها الناس، إني إمامكم، فلا تسبقوني بالركوع ولا بالسجود، ولا بالقيام ولا بالانصراف
”اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں، دیکھو، رکوع و سجود اور قیام و سلام مجھ سے پہلے نہ کیا کرو۔“
امام سے پہل کرنے پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا کی وعید بھی سنائی ہے کہ ”اللہ امام سے پہل کرنے والے کے چہرے کو کہیں گدھے کا چہرہ نہ بنا دے۔“
(صحیح مسلم: 427)
سجدہ سہو
نماز کو پوری توجہ سے ادا کرنا اور ادھر ادھر کے خیالات سے بچنا فضیلت و اجر کا باعث ہے لیکن اس کے باوجود انسان سے سہو (بھول چوک) ممکن ہے۔ تو اگر نمازی سے بھول چوک ہو جائے اور وہ بھول بھی ایسی ہو کہ نماز کا کوئی رکن (جیسے تکبیر تحریمہ، قیام، رکوع اور سجود) نہ چھوٹا ہو کہ ارکان کے بغیر نماز ہی ادا نہیں ہوتی تو دیگر امور میں بھول چوک ہو جانے پر اس کے ازالے کے لئے نماز کے آخر میں سلام سے پہلے یا بعد میں دو سجدے کئے جاتے ہیں جنہیں سجدہ سہو کہا جاتا ہے۔
سجدہ سہو کے اہم اسباب:
نماز میں کسی قسم کا اضافہ ہو جائے:
جیسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ظہر کی نماز بھول کر چار کی بجائے پانچ رکعات پڑھا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کیا۔
(صحیح بخاری: 1226)
دوران نماز کسی قسم کی کمی ہو جائے:
جیسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ظہر کی چار رکعات کی بجائے دو پر سلام پھیر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو رکعات پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو کیا۔
(صحیح بخاری: 1227)
نماز میں شک و شبہ پڑ جائے:
جیسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن ظہر کی نماز پڑھاتے ہوئے تشہد اول میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو کیا۔
(صحیح بخاری: 1225)
سجدہ سہو کا طریقہ:
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول چوک پر سجدہ سہو دو طرح سے ثابت ہے:
سلام پھیرنے سے پہلے:
عن عبد الله بن بحينة رضي الله عنه، أنه قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين من بعض الصلوات ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر قبل التسليم فسجد سجدتين وهو جالس ثم سلم.
(رواه البخاري، صحیح بخاری: 1224)
حضرت عبد اللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی نماز کی دو رکعتیں پڑھائیں، پھر (درمیانے تشہد کے لیے بیٹھے بغیر) کھڑے ہو گئے، لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا انتظار کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے "الله اكبر” کہا اور بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
سلام پھیرنے کے بعد:
عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه قال صلى النبى صلى الله عليه وسلم – قال إبراهيم: لا أدري زاد أو نقص – فلما سلم قيل له: يا رسول الله، أحدث فى الصلاة شيء؟ قال: وما ذاك؟ قالوا: صليت كذا وكذا، فثنى رجليه، واستقبل القبلة، وسجد سجدتين، ثم سلم.
(رواه البخاري، صحیح بخاری: 401)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ راوی حدیث ابراہیم نخعی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں اضافہ کیا تھا یا کچھ کمی کی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ اصل بات کیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
مذکورہ حدیثوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کبھی سلام پھیرنے سے پہلے اور کبھی سلام پھیرنے کے بعد کیا۔ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے (مرعاة المفاتیح: 3/32) میں اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کر لے یا بعد میں، اور اس کے جواز پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔
سجدہ سہو کی تسبیحات:
سہو کے دونوں سجدوں میں بھی عام نماز کے سجدوں کی طرح ”سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَىٰ“ پڑھنا ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے: اجْعَلُوهَا فِي سُجُودِكُمْ “اس تسبیح کو سجدوں میں پڑھا کرو۔”
(المحلی لابن حزم: 2/4/170)