اسلام میں ظلم، دھوکہ، گداگری، قرض، تہمت اور مزدور کے حقوق سے متعلق احکام و وعیدیں
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

ذمہ داری، انصاف اور سماجی رویوں سے متعلق اسلامی احکامات اور ان کے اثرات

ماتحتوں کے ساتھ دھوکہ دہی اور ظلم کرنا

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے جس کو کسی رعیت کی نگرانی عطا کی اور وہ اس حال میں مر گیا کہ وہ رعیت کو دھوکہ دینے والا ہے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی۔ اگر اس نے انکی خیر خواہی کی کوشش نہیں کی تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔

(بخاری 7150، مسلم۔ الایمان۔ استحقاق الوالی، الغاش لرعیتہ النار 142)

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اے اللہ جو شخص اس امت کے کسی معاملے کا والی بنایا جائے اگر وہ ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما۔ اور اگر وہ ان پر تنگی رکھے تو تو بھی اس پر تنگی رکھ‘‘۔

(مسلم: الامارہ، باب فضیلۃ الامام العادل 1828)

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میرے بعد کچھ فاسق اور ظالم امیر ہوں گے، جو شخص ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر تعاون کرے گا وہ مجھ سے نہیں اور میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور وہ حوض کوثر پر نہ آسکے گا۔ اور جو ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر ان کا تعاون نہ کرے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا‘‘۔

(ترمذی۔ الجمعہ۔ باب ماذکر فی فضل الصلاۃ نمبر 614، نسائی البیعۃ 4207)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تم امارت پر حرص کرو گے لیکن قیامت کے دن وہ ندامت کا باعث ہو گی‘‘۔

(بخاری: 7148)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"فیصلہ کرنے والے قاضی تین قسم کے ہیں:

– ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں جائیں گے۔
– پس وہ قاضی جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے،
– اور جس قاضی نے حق کو پہچانا اور جان بوجھ کر اس کے خلاف فیصلہ کیا وہ جہنمی ہے،
– اور وہ قاضی جس نے علم حاصل کیے بغیر فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے۔ اس کا گناہ یہ ہے کہ جب تک وہ علم حاصل نہ کر لیتا فیصلہ نہ کرتا۔”
(ابو داؤد: 3573، ابن ماجہ 2315، قال الشيخ الألباني: صحيح، قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ہر دھوکہ باز کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اور جس قدر اس نے دھوکا کیا ہو گا اسی لحاظ سے اسے اونچا اٹھایا جائے گا۔ خبردار! جو امیر اپنی رعایا کو دھوکہ دے اس سے بڑا دھوکہ باز کوئی نہیں ہو سکتا‘‘۔

(مسلم۔ الجھاد والسیر۔ باب تحریم الغدر 1738)

خلیفہ المسلمین کی بغاوت کرنا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اور امام ڈھال ہے اس کے پیچھے قتال کیا جاتا ہے۔ اور اس کے ذریعے بچاؤ کیا جاتا ہے‘‘

(بخاری: الجھاد والسیر۔ باب یقاتل من وراء الامام 2957، مسلم 1835)

اسی طرح انہوں نے مزید روایت کی:

’’جو شخص امام (مسلمان حاکم) کی اطاعت سے نکل جائے اور جماعت (جو اس حاکم کو اپنا امام اور حکمران تسلیم کر چکے ہیں) کا ساتھ چھوڑ دے اور اس حالت میں مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔

اور جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑا (جس کی لڑائی کی درستگی شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو) اور قومیت کے تعصب کی وجہ سے غصے ہوتا ہے اور تعصب کی طرف دعوت دیتا ہے اور تعصب کی وجہ سے کسی کی مدد کرتا ہے، پھر وہ قتل ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔
اور جو میری امت کے خلاف تلوار اٹھاتا ہے، اچھے اور بروں کو قتل کرتا ہے، نہ مومن کو چھوڑتا ہے اور نہ عہد والے کو، تو وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں‘‘۔
(مسلم۔ الامارۃ۔ باب وجوب ملازمہ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن 1848)

گداگری کرنا

بغیر ضرورت لوگوں سے مانگنا، جھوٹ بول کر یا جعلسازی کے ذریعے خیرات وصول کرنا حرام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ مر جاتا ہے تو اس کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت کا کوئی ٹکڑا نہ ہو گا‘‘۔

(بخاری 1474، مسلم 1040)

سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس شخص نے بے نیاز ہوتے ہوئے گداگر بن کر کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا وہ جہنم کے انگارے جمع کرتا ہے‘‘۔

صحابہ نے عرض کی: "اس بے نیازی کی حد کیا ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کے پاس دوپہر اور شام کا کھانا موجود ہو وہ غنی ہے‘‘۔
(ابو داود۔ الزکوٰۃ 1629)

واپس نہ کرنے کی نیت سے قرض لینا

قرض لے کر ادائیگی نہ کرنا ایک سنگین جرم ہے، خواہ کسی ذاتی سہولت کے لیے لیا گیا ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’سبحان اللہ! قرض کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر زیادہ سختی فرمائی ہے۔

مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جائے، پھر دوبارہ زندہ ہو، پھر شہید ہو، پھر زندہ ہو، پھر شہید ہو، اگر وہ مقروض ہے تو جب تک اس کا قرض ادا نہ کیا جائے وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔
(النسائی۔ البیوع۔ التغلیظ فی الدین 4688)

پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾(النور)
’’جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی گئی ہے اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے۔‘‘

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤﴾ (النور)
’’جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں 80 کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو زنا کی تہمت لگائے گا قیامت کے دن اس پر حد قائم کی جائے گی، الا یہ کہ وہ ویسا ہی ہو جس طرح مالک نے کہا تھا‘‘۔

(بخاری۔ الحدود۔ باب قذف العبید 6858، مسلم۔ الایمان باب التغلیظ علی من قذف مملوکہ بالزنا 1660)

مزدور کو مزدوری نہ دینا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تین طرح کے لوگ ہیں جن سے میں جھگڑوں گا:

– وہ آدمی جس کو میرے نام سے کوئی چیز دی گئی اور وہ اس سے پھر گیا (خیانت کی)،
– وہ آدمی جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی،
– وہ آدمی جس نے کسی کو ملازم رکھ کر اس سے پورا کام لیا لیکن اجرت پوری نہ دی‘‘
(بخاری۔ البیوع۔ باب اثم من باع حراً 2227)

مسلمان معاشروں میں اکثر ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔

طے شدہ تنخواہ میں کمی، تاخیر یا غیر معقول اوقات میں کام لینا، شدید ظلم ہے۔

قیامت کے دن مظلوم کا حق ظالم سے لیا جائے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1