اولیاء اللہ اور صحابہ کرام کو گالی دینا، پڑوسی و مسلمانوں کو تکلیف دینا اور قطع تعلق
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

اولیاء اللہ، خصوصاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا یا تکلیف دینا

اولیاء اللہ سے دشمنی پر اللہ کا اعلانِ جنگ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی اس سے میرا اعلان جنگ ہے‘‘

(بخاری۔ الرقاق۔ باب التواضع 6502)

صحابہ کرام: سب سے افضل اولیاء اللہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان اولیاء اللہ میں سرفہرست ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے۔

صحابہ کرام کو ناراض کرنا، رب کو ناراض کرنا

حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

’’اے ابو بکر! اگر تم نے ان مسکین مسلمانوں (سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم) کو ناراض کر دیا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا‘‘

(مسلم۔ فضائل الصحابہ باب من فضائل سلمان وصہیب وبلال 2504)

صحابہ کرام کو گالی دینا شدید گناہ ہے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر لے تو ان (صحابہ کرام) میں سے (ثواب کے لحاظ سے) کسی کے ایک مد یا نصف مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘

(بخاری۔ فضائل الصحابہ باب لو کنت متخذا خلیلا 3673، مسلم۔ فضائل الصحابہ۔ باب تحریم سب الصحابہ 2541)

صحابہ پر لعنت کرنے والے پر اللہ، فرشتوں اور انسانوں کی لعنت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے‘‘

(صحیح الجامع 6285)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت، ایمان کی علامت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھ سے یہ عہد ہے کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا‘‘

(مسلم۔ الایمان۔ الدلیل علی أن حب الانصار وعلی من الایمان 78)

انصار مدینہ سے محبت اور بغض، ایمان اور نفاق کی پہچان

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انصار مدینہ سے محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے‘‘

(بخاری۔ الایمان۔ علامۃ الایمان حب الانصار 17، مسلم۔ الا یمان۔ حب الانصار وعلی رضی اللہ عنہ من الایمان 74)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انصار سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھتا ہے۔ جس نے ان سے محبت کی اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا‘‘

(بخاری 3783، مسلم 75)

پڑوسی کو تکلیف دینا

ایمان اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک

حضرت ابو شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ سے بہتر سلوک کرے‘‘

(بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من کان یومن باللہ 6019، مسلم۔ الایمان باب الحث علی اکرام الجار والضیف 48)

جنت سے محرومی کا سبب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو‘‘

(مسلم۔ الایمان۔ تحریم ایذاء الجار 46)

تین مرتبہ قسم اٹھا کر بدسلوکی کرنے والے کو مومن نہ قرار دیا

حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں‘‘

عرض کیا گیا: کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟
فرمایا: ’’جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں‘‘

(بخاری: الادب، باب: اثم من لا یا من جارہ بوائقہُ 6016)

پڑوسی کی گواہی بطور معیار

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا کہ اپنی اچھائی یا برائی کا کیسے پتا چلے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر تو اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنے کہ تو نے اچھا کیا تو سمجھ لو کہ تو نے اچھا کیا اور اگر تیرے پڑوسی یہ کہیں کہ تو نے برا کیا تو پھر جان لے کہ تو نے برا کیا‘‘

(ابن ماجہ: الزہد، باب: الثناء الحسن 4223)

عبادات کے باوجود زبان سے تکلیف دینا جہنم میں لے جانے والا عمل

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’ایک عورت رات کو تہجد پڑھتی ہے، دن میں نفلی روزے رکھتی ہے مگر اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے، آپ نے فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں اور وہ آگ میں ہے‘‘

(مسند احمد: 440/2)

عملی نصیحت

◈ پڑوسیوں کو بغیر اجازت عمارت بلند کر کے دھوپ سے محروم نہ کریں۔
◈ کھڑکیوں کا رخ ان کے گھر کی طرف نہ رکھیں۔
◈ اونچی آواز میں ریڈیو، ٹی وی یا موسیقی نہ چلائیں۔
◈ ان کے دروازے پر کوڑا نہ پھینکیں۔

مسلمانوں کو تکلیف دینا

قرآن کی روشنی میں

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿٥٨﴾ (الاحزاب: 58)
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿١١﴾(الحجرات: 11)

’’اے ایمان والو کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کرے وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘

سب سے برا شخص

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

’’بے شک قیامت کے دن درجہ و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے برا وہ آدمی ہو گا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے کنارہ کشی کر لیں‘‘

(بخاری۔ الادب۔ باب لم یکن النبی فاحشا ولامتفحشا 6032، مسلم: البر والاداب، باب: مداراۃ من یتقی فحشہ 2591)

مسلمانوں سے قطع تعلق کرنا

ہفتہ وار معافی کا وقت اور استثناء

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’پیر اور جمعرات کے روز جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ ہر اس بندے کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے (مسلم) بھائی کے درمیان دشمنی ہو پس کہا جاتا ہے ان دونوں کو مہلت دے دو یہاں تک کہ صلح کر لیں‘‘

(مسلم ۔ البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھاجر 2565)

تین دن سے زیادہ قطع تعلق، جہنم کا باعث

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق منقطع رکھے۔ پس جو شخص تین دن سے زائد تعلق منقطع رکھے گا اور اگر اسی حالت میں اسے موت آگئی تو وہ جہنم میں جائے گا‘‘

(ابو داود۔ الادب۔ باب فیمن یھجر اخاہ المسلم 4914)

ایک سال قطع تعلق، قتل کے برابر

حضرت ابو خراش السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ایک سال تک تعلق منقطع رکھے گا اس کا یہ عمل اس کو قتل کرنے کے برابر ہے‘‘

(ابو داود: 4915)

عملی ہدایت

◈ شرعی عذر کے بغیر قطع تعلق جائز نہیں۔
◈ دنیاوی اختلافات کی بنیاد پر تعلق توڑنا معاشرے کو کمزور کرتا ہے۔
◈ اگر کسی سے قطع تعلق اصلاح کا ذریعہ بنے تو جائز ہے۔
◈ اگر الٹا اثر ہو تو حسن سلوک اور نصیحت جاری رکھنی چاہیے تاکہ وہ مزید گناہ میں نہ پڑے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1