خود کشی: ایمان کی کمزوری اور شدید وعید
بعض لوگ دنیاوی مشکلات اور عارضی تکالیف کا صبر سے سامنا کرنے کے بجائے خود کو ہلاک کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت تقدیر اور آخرت پر کامل ایمان نہیں رکھتے۔
اگر ان لوگوں کو موت کے بعد خودکشی کرنے والوں کے لیے جو عذاب احادیث صحیحہ میں بیان کیا گیا ہے، اس پر صحیح ایمان ہوتا تو کوئی بھی مسلمان اس عمل کی طرف مائل نہ ہوتا۔
حدیث نبوی میں خودکشی کی وعید:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے اپنے آپ کو دھار والی چیز کے ذریعے قتل کیا تو دھار والی وہ چیز اس کے ہاتھ میں ہو گی، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ کو اس کے ذریعے چیرتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا جہنم کی آگ میں وہ زہر کو اپنے اندر انڈیلتا رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا‘‘۔
(بخاری۔ الطب۔ باب شرب السم والدواء بہ 5778۔ مسلم۔ الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 109)
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں میں ایک زخم خوردہ آدمی تھا جس نے تکلیف سے گھبرا کر چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ دیا، جس سے اس قدر خون نکلا کہ وہ مر گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بندے نے میرے حکم (موت) سے پہلے اپنے بارے میں جلدی کی، میں نے اس پر جنت حرام کر دی‘‘۔
(بخاری۔ احادیث الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل 3463۔ مسلم: الایمان باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ 113)
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مومن کو لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے برابر ہے۔ جس نے کسی مومن کو کافر کہا تو وہ گویا اس کے قتل کرنے کی طرح ہے۔ جس کسی نے کسی چیز سے خودکشی کی، قیامت تک اسے اسی سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔
(بخاری۔ الایمان والنذور۔ باب من حلف بملۃ سوی ملۃ الاسلام 6652۔ مسلم الایمان۔ غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 110)
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے متعلق، جو جنگ میں بہادری سے لڑ رہا تھا، فرمایا کہ وہ جہنمی ہے۔ اس شخص نے زخموں کی شدت سے تنگ آ کر تلوار سے خودکشی کر لی۔
(بخاری۔ الجھاد والسیر باب لا یقول فلان شھید 2898۔ مسلم: 112)
جنازہ نہ پڑھنے کی تعلیم:
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا جس نے تیز دھار ہتھیار سے اپنے آپ کو قتل کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی‘‘۔
(مسلم۔ الجنائز۔ باب ترک الصلاۃ علیٰ القاتل نفسہ 978)
والدین کی نافرمانی: عظیم کبیرہ گناہ
قرآن پاک میں واضح حکم:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾ (بنی اسرائیل: 23-24)
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا۔ نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘
احادیث میں سخت وعید:
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟‘‘ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی بات کہنا یا جھوٹی گواہی دینا‘‘۔
(بخاری۔ الشھادات۔ باب ما قیل فی شھادۃ الزور: 2654۔ مسلم: الایمان۔ باب بیان الکبائر و اکبرھا 87)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے‘‘۔
(ترمذی۔ البر والصلہ۔ باب الفضل فی رضا الوالدین 1899)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’والد جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے پس تو اس کی حفاظت کر‘‘۔
(ترمذی 1900)
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’بیشک اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، کنجوسی، بھیک مانگنا، اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بحث مباحثہ، سوالات کی کثرت اور مال ضائع کرنے کو ناپسند قرار دیا ہے‘‘۔
(بخاری: 2408)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’والدین کا نافرمان، احسان جتلانے والا اور شراب پینے کا عادی جنت میں داخل نہیں ہوں گے‘‘۔
(النسائی۔ الاشریہ۔ باب الروایۃ فی المد منین فی الخمر 5675)
والدین کی بد دعا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’بلا شبہ تین قسم کے لوگوں کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں: مظلوم کی، مسافر کی، اور والد کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا‘‘۔
(ابو داود۔ الوتر۔ باب الدعا بظھر الغیب 1536)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’ایک شخص نے کہا: میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی ہے، میرا والد مجھ سے میرا مال لینا چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تو اور تیرا مال تیرے والد ہی کی ملکیت ہے۔‘‘‘
(ابو داؤد 3530، ابن ماجہ 2291)
والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت جو اپنے والدین پر لعنت کرے‘‘۔
(مسلم۔ الاضاحی۔ باب تحریم الذبح لغیر اللہ ولعن فاعلہ 1978)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘
(بخاری الادب۔ باب لا یسب الرجل والدیہ: 5973۔ مسلم: الایمان، باب: بیان الکبائر واکبرھا 90)
والدین کی نافرمانی صرف اللہ کے حکم کی خلاف ورزی پر جائز نہیں:
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (لقمان 15)
’’اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ علم بھی نہیں تو ان کا کہا نہ مان اور دنیا میں اچھے انداز سے ان سے نباہ کر‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے‘‘۔
(بخاری: اخبار الاحاد ۷۲۵۷۔ مسلم: ۱۸۴۰)
باپ کی بجائے دوسرے کی طرف نسبت کرنا: حرام اور لعنتی عمل
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’جو شخص جان بوجھ کر (اپنے باپ کو چھوڑ کر) غیر کی طرف نسبت کرے، اس پر جنت حرام ہے‘‘۔
(بخاری۔ المغازی، باب غزوۃ الطائف 4326، مسلم۔ الایمان۔ بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ 63)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اپنے باپوں سے اعراض نہ کرو، جس نے اپنے باپ سے اعراض کیا، اس نے کفر کیا‘‘۔
(بخاری: الفرائض۔ من ادعی الی غیر ابیہ 6768، مسلم 62)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’جس نے اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کی، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اس کے نہ فرض قبول ہونگے نہ نفل‘‘۔
(بخاری، فضائل المدینہ باب حرم المدینہ 1870، مسلم۔ الحج۔ باب فضل المدینۃ 1370)
جن پر خرچ کرنا واجب ہو ان پر خرچ نہ کرنا: کبیرہ گناہ
خیثمہ کہتے ہیں:
’’ہم حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کا داروغہ آیا۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم نے غلاموں کو خرچ دے دیا؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو فرمایا: جلدی جاؤ، انہیں خرچ دے کر آؤ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کا خرچ اس کے ذمہ ہے، اس کا خرچ روک لے‘‘‘۔
(مسلم۔ الزکاۃ باب فضل النفقۃ علی العیال 996)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’ایک اشرفی تم نے اللہ کی راہ میں دی، ایک اشرفی کسی غلام کو آزاد کرنے میں، ایک کسی مسکین کو دی، اور ایک اپنے گھر والوں پر خرچ کی تو ثواب کے اعتبار سے سب سے زیادہ اجر اس اشرفی پر ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر خرچ کی‘‘۔
(مسلم 995)