فٹ بال کھیلنے کا شرعی حکم: تفصیلی تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 154

سوال

فٹ بال کھیلنا جائز ہے؟

زید کہتا ہے کہ فٹ بال کھیلنا جائز ہے کیونکہ بہت سے علمائے دین خود بھی کھیلتے ہیں، جبکہ عمر کا کہنا ہے کہ فٹ بال کھیلنا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کیونکہ یہ نصاریٰ کا کھیل ہے۔ عمر اپنی بات کی دلیل میں یہ حدیث پیش کرتا ہے:

من تشبه بقوم فهو منهم
(روایت: ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی لبس الشهرة، حدیث نمبر 4031، جلد 3، صفحہ 314، حسن صحیح، ابوداؤد جلد 2 صفحہ 302)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:

إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم
(بخاری: کتاب الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، جلد 4 صفحہ 143)

صاحب تذکیر الإخوان نے ان دونوں احادیث کے ترجمے میں کچھ ایسی وضاحت کی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فٹ بال کھیلنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آج کے زمانے میں مسلمان فٹ بال کی طرف اتنے مائل ہو گئے ہیں کہ دین اور دنیا کی پرواہ نہیں کرتے اور مشرکوں کے طریقے اپنا لیتے ہیں۔

(عبداللہ، مقام ہلائے جانا ضلع دیناج پور)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کا مفہوم

پہلے ان احادیث کا مفہوم واضح کرنا ضروری ہے جن سے فٹ بال کو مسلمانوں پر حرام قرار دینے کی دلیل لی گئی ہے۔
علامہ امیر یمانی نے سبل السلام (جلد 4، صفحہ 273) میں حدیث
"من تشبه بقوم فهو منهم”
کی تشریح میں لکھا ہے:

والحديث يدل على أن من تشبه بالفساق كان منهم، أو بالكفار أو بالمبتدعة في أي شيء مما يختصون به، من ملبوس أو مركوب أو هيئة

یعنی:
◈ اگر کوئی مسلمان کسی کافر، بدعتی یا فاسق کی ایسی چیز میں مشابہت اختیار کرے جو ان کے ساتھ خاص ہو اور ان کی علامت ہو، چاہے وہ لباس ہو یا سواری یا شکل و صورت، تو یہ شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔
◈ اگر وہ چیز غیرمسلم قوم کا محض قومی یا ملکی شعار ہو تو اس کو اختیار کرنا سیاسی یا تمدنی لحاظ سے نقصان دہ اور خلاف مصلحت ہوگا۔

چیزوں کی اقسام اور ان کا حکم

◈ اگر کوئی چیز غیرمسلموں کی دینی علامت ہو یا فسق و فجور کی نشانی ہو تو اس کا اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے۔
◈ اگر کوئی چیز محض قومی یا تمدنی شعار ہو، اور دینی یا فسقی علامت نہ ہو، تو اس کو اختیار کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

فٹ بال کی حیثیت

◈ فٹ بال نہ تو انگریزوں کا دینی شعار ہے اور نہ ہی یہ فسق و فجور کی علامت ہے۔
◈ یہ محض ایک جسمانی ورزش ہے جیسے کہ ہمارے دیس میں بھی مختلف قسم کی ورزشیں رائج ہیں، مثلاً بنوٹ، دوڑ، گلی ڈنڈا، کشتی، کلوخ اندازی وغیرہ۔
◈ ان ورزشوں کا مقصد جسمانی چستی، صحت اور تندرستی کو بہتر بنانا ہوتا ہے اور ان کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

ورزش اور جہاد کی تیاری

◈ اگر ورزش کا مقصد جہاد کی تیاری ہو تو وہ مستحب اور باعثِ ثواب ہوگی، جیسا کہ قرآن میں فرمایا:

وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة
(الأنفال: 60)

◈ اور یہ بھی فرمایا:

فاضربوا فوق الأعناق واضربوا منهم كل بنان
(الأنفال: 12)

◈ رسول اللہ ﷺ کا حضرت رکانہ کو کشتی میں پچھاڑنا اور حضرت سمرہ اور حضرت رافع کی کشتی کروانا، جس میں سمرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا اور انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت ملی، اسی طرح صحابہ کے درمیان گھوڑ دوڑ کروانا یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ جسمانی مشقوں کو دین میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

کھیلوں کا حکم

◈ فٹ بال، والی بال، ہاکی اور دیگر ورزشیں جائز اور مباح ہیں بشرطیکہ:

➊ جوا بازی نہ ہو۔

➋ دینی فرائض سے غفلت نہ ہو۔

➌ بے پردگی یا کسی اور شرعی ممانعت کا ارتکاب نہ ہو۔

نئی ایجادات کا استعمال

◈ جس طرح ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، ریڈیو، ریل گاڑی، موٹر سائیکل، مشین گن، توپ، زہریلی گیس وغیرہ کا جائز اور درست استعمال مباح ہے اور ان کا استعمال مشابہتِ مذمومہ میں شامل نہیں، اسی طرح ان ورزشوں کا استعمال بھی جائز ہے۔
◈ ان چیزوں کا استعمال حدیثِ تشبہ میں داخل کرنا غلو فی الدین ہے اور حلال کو حرام ٹھہرانا ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے۔

اسلام کی عالمگیریت

◈ اسلام ایک عالمگیر اور ہمیشہ باقی رہنے والا دین ہے۔
◈ غیرمسلم اقوام کی بیہودہ اور مضر چیزوں کو اپنانا جائز نہیں، لیکن ان کی جائز اور مفید چیزوں کو اپنانا ناجائز بھی نہیں۔
◈ اسلام نہ تو تنگ نظری کا قائل ہے اور نہ ہی اس میں اتنی وسعت ہے جیسا کہ نیچریوں اور ملحدوں نے سمجھا ہے۔
◈ افراط و تفریط سے بچ کر اسلام کو اس کی اصل اور حقیقی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1