سوال
جس مسئلے کے منع کی دلیل موجود نہ ہو، کیا وہ جائز کہا جاتا ہے؟
اور اس کے جواز کی کیا دلیل ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات ایک قاعدہ کلیہ (Universal Principle) کے طور پر بیان نہیں کی جا سکتی کہ "جس مسئلے کے منع کی دلیل موجود نہ ہو، وہ جائز ہے”۔
البتہ معاملات (یعنی دنیوی امور و لین دین) کے بارے میں اصل قاعدہ یہی ہے کہ وہ مباح (جائز) ہیں، جب تک کہ ان کے منع کی کوئی نصی (صریح دلیل) یا استنباطی (اجتہادی دلیل) نہ آجائے۔
یعنی اگر کسی معاملے (معاشرتی یا تجارتی عمل) کے جواز کے خلاف کوئی واضح شرعی دلیل نہ ہو، تو اس معاملے کو جائز سمجھا جائے گا اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وما سکت عنه فهو عفو”
(یعنی: "جس چیز پر اللہ نے سکوت اختیار کیا، وہ معاف ہے۔”)
لیکن عبادات (یعنی عبادات و طاعات کے امور) میں یہ اصول نہیں چلتا۔
عبادت کے ہر فعل کے لیے شرعی سند کا ہونا ضروری ہے،
خواہ وہ سند کلی (عمومی) ہو یا جزئی (خاص)،
اور چاہے وہ عام ہو یا خاص۔
یہ ایک اصولی مسئلہ ہے، اس کی تفصیل اور وضاحت کے لیے اصولِ فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں تاکہ مزید بسط کے ساتھ اس کو سمجھا جا سکے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب۔