اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تاویل نہ کی جائے
سوال
بعض اسلامی ممالک میں دینی مدارس کے طلبہ یہ پڑھتے ہیں کہ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر ایمان لانا واجب ہے۔
کیا ابن تیمیہؒ اور ان کے تلامذہ کے مکتب فکر اور اشاعرہ و ماتریدیہ کے مکتب فکر میں اہل سنت کی تقسیم درست ہے؟
جو علماء اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تاویل کرتے ہیں، ان کے بارے میں ایک مومن کا کیا موقف ہونا چاہیے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
مقدمہ
یہ بات بالکل درست ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جو سیکھتے ہیں کہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے سلسلے میں تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل سے بچتے ہوئے ایمان لانا واجب ہے، یہ اہل سنت کے مسلک کے عین مطابق ہے۔
یہی بات کتب عقائد، سلف صالحین کے اقوال، کتاب و سنت، اور عقل سلیم سے بھی ثابت ہے۔
اگرچہ سوال میں دلائل کا مطالبہ نہیں کیا گیا، تاہم تقسیم اہل سنت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
اہل سنت کے دو مکتبہ فکر کا تعارف
➊ پہلا مکتب فکر
– شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ان کے تلامذہ کا ہے۔
– ان کا موقف یہ ہے کہ نصوص کو ان کے ظاہر پر برقرار رکھنا لازم ہے۔
➋ دوسرا مکتب فکر
– اشاعرہ اور ماتریدیہ کا ہے۔
– ان کے نزدیک نصوص کی ظاہر سے ہٹ کر تاویل کرنا واجب ہے۔
اختلاف کی وضاحت: قرآن مجید کی دو آیات کی روشنی میں
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿بَل يَداهُ مَبسوطَتانِ يُنفِقُ كَيفَ يَشاءُ﴾
’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘
(سورة المائدة: ٦٤)
اور فرمایا:
﴿قالَ يـإِبليسُ ما مَنَعَكَ أَن تَسجُدَ لِما خَلَقتُ بِيَدَىَّ﴾
’’اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! جس شخص کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا؟‘‘
(سورة ص: ٧٥)
اختلاف کی نوعیت:
➊ پہلا مکتب:
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے حقیقی ہاتھوں کے اثبات کو واجب سمجھتا ہے، جیسا کہ اللہ کی شان کے لائق ہو۔
➋ دوسرا مکتب:
ان الفاظ کی ظاہر سے ہٹ کر تاویل ضروری سمجھتا ہے، بعض کے نزدیک ہاتھ سے مراد قوت اور بعض کے نزدیک نعمت مراد ہے۔
کس کو اہل سنت کہا جائے؟
– ان دونوں مکاتب فکر کے درمیان بنیادی اختلاف اتنا شدید ہے کہ انہیں ایک ہی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔
– اس لیے صرف پہلے مکتب فکر یعنی نصوص کو ظاہر پر رکھنے والوں کو اہل سنت قرار دینا درست ہے۔
– دوسرے مکتب کو اہل سنت میں شامل کرنا ظلم ہوگا اور شرعی و عقلی اصولوں کے خلاف ہوگا۔
تاویل کرنے والوں کا موقف اور اس پر جواب
تاویل کا دعویٰ
تاویل کرنے والے علماء کا کہنا ہے کہ اگر تاویل کسی شرعی نص کے خلاف نہ ہو تو درست ہے۔
– بغیر شرعی دلیل کے نصوص کے ظاہر کے خلاف تاویل کرنا علم کے بغیر اللہ کی طرف بات منسوب کرنا ہے۔
– اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَوحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطـنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ﴾
’’کہہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو، جو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں ہے۔‘‘
(سورة الأعراف: ٣٣)
اور فرمایا:
﴿وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤادَ كُلُّ أُولـئِكَ كانَ عَنهُ مَسـٔولًا﴾
’’اور (اے بندے!) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘
(سورة الإسراء: ٣٦)
– تاویل کرنے والوں کے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں ہے، صرف کچھ شبہات ہیں۔
امام احمدؒ اور تاویل کے بارے میں وضاحت
امام احمدؒ کی طرف تاویل کی نسبت
– بعض کا کہنا ہے کہ امام احمدؒ نے بعض نصوص کی تاویل کی ہے، جیسے:
– حدیث: «قُلُوبَ بَنِی آدَمَ بَيْنَ اِصْبَعَيْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ»
’’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم، حدیث: ۲۶۵۴)
– حدیث: «اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ يَمِيْنُ اللّٰهِ فِی الْاَرْضِ»
’’حجر اسود سرزمین کائنات پر اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘
(ضعیف: مسند الفردوس للدیلمی، ۱۵۹/۲، حدیث: ۲۸۰۷، ۲۸۰۸)
– آیت: ﴿وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم﴾
’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
(سورة الحديد: ٤)
حقیقت
– ابن تیمیہؒ نے بیان کیا ہے کہ امام احمدؒ کی طرف یہ بات جھوٹ کے ساتھ منسوب کی گئی ہے۔
– امام احمدؒ نے معیت (ساتھ ہونے) کی تفسیر کی ہے تاویل نہیں کی، جیسا کہ علم، سماعت اور بصارت کے احاطے کے ساتھ۔
– "معیت” کا معنی موقع محل کے مطابق بدلتا ہے۔
صحیح مؤقف: تاویل اور اسماء و صفات
نصوص کے ظاہر پر ایمان
– اہل سنت والجماعت کا ایمان ہے کہ اللہ کی انگلیاں ہیں جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
– دلوں کے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہونے سے مس ہونا لازم نہیں آتا۔
حجر اسود کے بارے میں
– حدیث: «اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ يَمِيْنُ اللّٰهِ فِی الْاَرْضِ»
’’حجر اسود زمین میں اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘
ابن تیمیہؒ کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح طور پر نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔
تاویل کرنے والے علماء کے بارے میں موقف
– حسن نیت، دینداری، اور اتباع سنت میں مضبوط علماء تاویل میں معذور ہیں۔
– ان کے قول کو غلط سمجھا جائے گا مگر ان کی نیت پر حملہ نہیں ہوگا۔
– نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«اِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَهُ اَجْرَانِ، وَاِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَخْطَأَ فَلَهُ اَجْرٌ»
’’جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد سے کام لے اور اس کا اجتہاد درست بھی ہو تو اسے دو اجر ملیں گے اور اگر وہ فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد سے کام لے اور غلطی کر جائے تو اسے ایک اجر ملے گا۔‘‘
(صحیح البخاری، حدیث: ۷۳۵۲، صحیح مسلم، حدیث: ۱۷۱۶)
– اگر تاویل اجتہاد پر مبنی ہو اور نیت درست ہو تو اجتہاد پر اجر ملے گا۔
– مطلق گمراہی کی نسبت حسن نیت رکھنے والے مجتہد علماء کی طرف نہیں کی جائے گی۔
خلاصہ
– اہل سنت کا صرف وہی ایک گروہ ہے جو نصوص کے ظاہر پر بغیر تاویل ایمان لاتا ہے۔
– تاویل کرنے والے علماء حسن نیت کے ساتھ معذور سمجھے جا سکتے ہیں، لیکن ان کا منہج حق نہیں۔
– ابن تیمیہؒ کا موقف سلف صالحین کے موقف کا ہی تسلسل ہے، انہوں نے کوئی نیا مکتب ایجاد نہیں کیا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب