نماز جنازہ کی تکبیرات میں رفع یدین سے متعلق مکمل تحقیق
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد1، کتاب الجنائز، صفحہ530

نمازِ جنازہ میں تکبیرات کے وقت رفع یدین کا حکم

سوال:

نمازِ جنازہ میں تکبیر کے وقت رفع یدین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (جنازے کے مسائل) میں ترمذی اور دارقطنی سے دو حدیثیں نقل کی گئی ہیں، جن میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کا ذکر ہے۔ اس کی مکمل تفصیل بیان فرمائیں۔
(ابو طلحہ حافظ ثناء اللہ شاہد القصوری)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازِ جنازہ کی تکبیروں کے وقت رفع یدین کرنا بالکل درست ہے۔ اس بارے میں محدثین اور ائمہ کے اقوال و روایات درج ذیل ہیں:

دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

> "وقد سئل الدارقطني في العلل : عَن حَديث نافع، عَن ابن عُمر؛ أَن النَّبي صَلى الله عَليه وسَلمَ كان إِذا صلى على جِنازة رفع يديه في كل تكبيرة، وإِذا انصرف”
(کتاب العلل للدارقطنی 13/ص22/ح2908)

تشریح:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازِ جنازہ پڑھتے تو ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے اور جب نماز مکمل کرتے تو سلام کہتے۔

◈ اس روایت کی سند "حسن لذاتہ” ہے۔
◈ امام دارقطنی اور یحییٰ بن سعید الانصاری تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔
(دیکھئے: الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین، ص26،32)
◈ عمر بن شبہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔
◈ احمد بن محمد بن الجراح اور محمد بن مخلد دونوں ثقہ ہیں۔
(دیکھئے: تاریخ بغداد 4/409 ت2312، 3/310،311 ت1406)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازِ جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔
(جزء رفع الیدین للبخاری تحقیق شیخنا ابی محمد بدیع الدین الراشدی السندھی، ص184، ح109،111)

◈ اس کی سند صحیح ہے۔
◈ ابن ابی شیبہ (3/296) اور بیہقی (4/44) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو "صحیح” قرار دیا ہے۔
(التلخیص الجیر، ج2، ص146، ح807)
◈ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے "بسند صحیح” قرار دیا ہے۔
(حاشیہ احکام الجنائز)

تابعین اور ائمہ کا عمل

جنازے کی تکبیرات میں رفع یدین کرنا درج ذیل بزرگوں سے بھی ثابت ہے:

◈ قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ
◈ نافع بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ
◈ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ
◈ مکحول رحمۃ اللہ علیہ
◈ وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ
◈ الزہری رحمۃ اللہ علیہ
(دیکھئے: جزء رفع الیدین، ح112،114،118)

اسی قول اور عمل کو ان حضرات نے بھی اپنایا:

◈ عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ
◈ سالم بن عبد اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ
◈ ازواری رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
◈ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ
◈ اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ
(الاوسط لابن المنذر، ج5، ص427)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک قول منقول ہے کہ تکبیراتِ جنازہ میں رفع یدین کرنا پسندیدہ عمل ہے۔
(ایضاً)

دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اور حدیث

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "العلل” سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ جنازہ میں رفع یدین کرنا مروی ہے۔
(التلخیص الجیر، ج2، ص146)

◈ اس حدیث کی ابتدائی سند نہیں ملی تھی، لیکن بعد میں سند دستیاب ہو گئی۔
◈ اگر سند عمر بن شبہ تک صحیح ہو تو یہ روایت "حسن لذاتہ” ہے کیونکہ عمر بن شبہ بذاتِ خود صدوق حسن الحدیث ہیں۔
(دیکھئے: کتاب العلل للدارقطنی 13/22، ح2908)

البانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ دو ضعیف روایتوں پر تبصرہ

پہلی روایت:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه من أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة فرفع يديه في أول تكبيرة ووضع اليمنى على اليسرى”
(احکام الجنائز للالبانی، ص115، والترمذی، ح1077، بتحقیقی وقال: "غریب”، البیہقی 4/38، الدارقطنی 2/74، ح1812 مختصراً و1813، وابو الشیخ فی طبقات الاصبہانیین، ص262 بحوالہ البانی)

تبصرہ:

◈ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
◈ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے "بسند ضعیف” قرار دیا ہے۔
◈ راوی "ابو فروۃ یزید بن سنان التمیمی الرھاوی” ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب، ص558)
◈ مزید جرح کے لیے: تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال ملاحظہ ہوں۔
◈ راوی یحییٰ بن یعلی الاسلمی بھی ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب، ص556، تہذیب التہذیب، ج2/534)

خلاصہ:

یہ روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔

دوسری روایت:

"عن ابن عباس ، رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه على الجنازة في أول تكبيرة ، ثم لا يعود”
(سنن دارقطنی، ج2، ص75، ح1814، وقال محشیہ: "اسنادہ ضعیف”)

تبصرہ:

◈ اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔
◈ راوی "حجاج بن نصیر” ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب، ص96،98، وزاد: کان یقبل التلقین)
◈ دوسرا راوی "الفضل بن السکن” مجہول ہے، جیسا کہ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
◈ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ بھی مجہول العین راوی کی روایت کو سخت ضعیف بلکہ بعض اوقات موضوع قرار دیتے ہیں۔

خلاصہ:

یہ روایت اپنی دونوں یا تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے اور مردود ہے۔
(شہادت نومبر 2001ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1