میت کے گھر ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کے بارے میں 5 دیوبندی فتاویٰ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد 1، کتاب الجنائز، صفحہ 514

میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعائیں: شرعی حکم

سوال

میت کے گھر تین دن تک ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
(سوال از: حاجی نذیر خان دامان حضر)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کے گھر یا اہلِ میت کے پاس جاکر تین دن تک بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا اسلام میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا یہ عمل اسلام میں جائز نہیں، بلکہ یہ کام بدعت شمار ہوتا ہے۔

علماء دیوبند کے فتاویٰ

مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے فرمایا:
> "تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانا بدعت ہے”
(احسن الفتاویٰ، جلد 4، صفحہ 245)

خیر المدارس ملتان سے جاری کردہ فتویٰ میں لکھا گیا:
> "تعزیت مسنونہ میں آپ ﷺ اور صحابہ کرام سے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا ثابت نہیں”
(رجل رشید، تصنیف نعیم الدین دیوبندی، صفحہ 173)

دارالعلوم دیوبند کے مفتی کا فتویٰ:
> "تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کیف ما اتفق انفرادی طور پر میت کے گھر جائے اور گھر والوں کو صبر کی تلقین کرے اور تسلی کے کچھ کلمات کہہ دے، ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں۔”
(حبیب الرحمن دیوبندی کا فتویٰ، بحوالہ رجل رشید، صفحہ 170)

دارالعلوم کراچی والوں کا فتویٰ:
> "مروجہ طریقہ کے مطابق تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے۔ اس لیے تعزیت کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں۔”
(رجل رشید، صفحہ 171)

تنبیہ

حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ اس عمل کو بدعت اور غیر ثابت قرار دیتے ہیں، وہ خود بھی تعزیت کی اجتماعی دعاؤں میں سرگرم نظر آتے ہیں!
(الحدیث: 61)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1