حقوق سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
حَقُ اللهِ تَعَالَى عَلَى عِبَادِهِ

اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق

قَالَ تَعَالَى: نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ‎﴿٤٩﴾‏ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ‎﴿٥٠﴾
(15-الحجر:49، 50)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”(اے نبی!) میرے بندوں کو خبر دے کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں۔ اور ساتھ ہی میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے۔“
(عن معاذ بن جبل رضى الله عنه قال بينا انا رديف النبى صلى الله عليه وسلم ليس بيني وبينه الا اخرة الرحل فقال يا معاذا قلت لبيك يا رسول الله وسعديك ثم سار ساعة ثم قال يا معاذا قلت لبيك رسول الله وسعديك قال هل تدري ما حق الله على عباده قلت الله ورسوله اعلم قال حق الله على عباده ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا ثم سار ساعة ثم قال يا معاذ بن جبل قلت لبيك رسول الله وسعديك قال هل تدري ما حق العباد على الله اذا فعلوه قلت الله ورسوله اعلم قال حق العباد على الله ان لا يعذبهم )
(وفي رواية اخرى عن معاذ رضي الله عنه قال فقلت يا رسول الله افلا ابشر به الناس قال لا تبشرهم فيتكلوا )

صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6500 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 30
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ سوا کجاوہ کے آخری حصہ کے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے عرض کیا: لبیک و سعد یک، یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ پھر فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے عرض کیا: لبیک و سعد یک، یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ پھر فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے عرض کیا: لبیک و سعد یک، یا رسول اللہ! فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا: ”اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا: لبیک و سعد یک، یا رسول اللہ! فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ کر لیں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا: ”بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔“
” اور دوسری روایت میں آیا ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوشخبری نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو خوشخبری نہ سنانا، ورنہ وہ بس اسی پر توکل کر لیں گے۔“
قَالَ تَعَالَى: ﴿وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ﴾
(آل عمران: 108)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اللہ کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں۔“
وَقَالَ تَعَالَى:‏ مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿٢﴾‏
(35-فاطر:2)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اللہ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے پھر اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے پھر اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔“
وَقَالَ تَعَالَى:وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
(3-آل عمران:144)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جو کوئی اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔“
(عن ابي ذر رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم فيما روى عن الله تبارك وتعالى انه قال يا عبادي اني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا يا عبادي كلكم ضال الا من هديته فاستهدوني اهدكم يا عبادي كلكم جائع الا من اطعمته فاستطعموني اطعمكم يا عبادي كلكم عار الا من كسوته فاستكسوني اكسكم يا عبادي انكم تخطئون بالليل والنهار وانا اغفر الذنوب جميعا فاستغفروني اغفر لكم يا عبادي انكم لن تبلغوا ضري فتضروني ولن تبلغوا نفعي فتنفعوني يا عبادي لو ان اولكم واخركم وانسكم وجنكم كانوا على اتقى قلب رجل واحد منكم ما زاد ذلك فى ملكي شيئا يا عبادي لو ان اولكم واخركم وانسكم وجنكم كانوا على افجر قلب رجل واحد ما نقص ذلك من ملكي شيئا يا عبادي لو ان اولكم واخركم وانسكم وجنكم قاموا فى صعيد واحد فسألوني فاعطيت كل انسان مسألته ما نقص ذلك مما عندي الا كما ينقص المخيط اذا ادخل البحر يا عبادي انما هي اعمالكم احصيها لكم ثم اوفيكم اياها فمن وجد خيرا فليحمد الله ومن وجد غير ذلك فلا يلومن الا نفسه )
(قال سعيد كان ابو ادريس الخولاني اذا حدث بهذا الحديث جثا على ركبتيه )

صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2577
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم کو حرام قرار دیا اور تم پر بھی حرام کر دیا، پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، پس مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں، پس مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، پس مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہوں، پس مجھ سے معافی مانگو، میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے تکلیف پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی مجھے فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتے ہو۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، انسان اور جن، سب ایک سب سے زیادہ پرہیزگار انسان کے دل کی طرح ہو جائیں، تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، انسان اور جن، سب ایک سب سے زیادہ فاسق و فاجر انسان کے دل کی طرح ہو جائیں، تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، انسان اور جن، ایک مقام پر جمع ہو جائیں اور مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں، تو اس سے میری بادشاہت میں صرف اتنی کمی آتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے سمندر میں کمی آتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں، میں انہیں تمہارے لیے گنتا ہوں، پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا، پس جسے اچھا بدلہ ملے وہ اللہ کی تعریف کرے اور جسے اس کے علاوہ کچھ ملے وہ خود کو ہی ملامت کرے۔“
حدیث کے راوی سعید کا کہنا ہے کہ ”جب ابو ادریس الخولانی یہ حدیث بیان کرتے تو احتراماً اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔ “
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ‎﴿٦٨﴾‏
(25-الفرقان:68)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور وہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہو، بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔“
عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه قال قلت يا رسول الله اي الذنب اعظم قال ان تجعل لله ندا وهو خلقك قلت ثم اي قال ان تقتل ولدك من اجل ان يطعم معك قلت ثم اي قال ان تزاني حليلة جارك
صحیح بخاری، کتاب الشهادات، رقم: 6811 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 86
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوگی۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ‎﴿٧٢﴾‏
(25-الفرقان:72)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔“
عن ابي بكرة رضى الله عنه قال قال النبى صلى الله عليه وسلم الا انبئكم باكبر الكبائر ثلاثا قالوا بلى يا رسول الله قال الاشراك بالله وعقوق الوالدين وجلس وكان متكئا فقال الا وقول الزور وشهادة الزور فما زال يكررها حتى قلنا ليته سكت
صحیح بخاری، کتاب الشهادات، رقم: 2654 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 87
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟“ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔“ آپ اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ”ہاں، اور جھوٹی گواہی بھی۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے: کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
عن ابي جحيفة رضى الله عنه قال آخى النبى صلى الله عليه وسلم بين سلمان وابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فرآى ام الدرداء متبدلة فقال لها ما شانك قالت اخوك ابو الدرداء ليس له حاجة فى الدنيا فجاء ابو الدرداء فصنع له طعاما فقال كل قال فاني صائم قال ما انا باكل حتى تاكل قال فاكل فلما كان الليل ذهب ابو الدرداء يقوم قال نم فنام ثم ذهب يقوم فقال نم فلما كان من آخر الليل قال سلمان قم الان فصليا فقال له سلمان ان لربك عليك حقا ولنفسك عليك حقا ولاهلك عليك حقا فاعط كل ذي حق حقه فاتى النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال صدق سلمان
صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم: 1968
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان (ہجرت کے بعد) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بہت پھٹے پرانے حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے۔ پھر حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں۔ اس پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہو گئے (اور روزہ توڑ دیا)۔ رات ہوئی تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا، اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہیے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمان رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔“
حُقُوقُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى:إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴿٥٦﴾
(33-الأحزاب:56)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہو۔“
عن عبد الرحمن بن ابي ليلى قال لقيني كعب بن عجرة رضى الله عنه فقال الا اهدي لك هدية ان النبى صلى الله عليه وسلم خرج علينا فقلنا يا رسول الله قد علمنا كيف نسلم عليك فكيف نصلي عليك قال فقولوا اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على آل ابراهيم انك حميد مجيد اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على آل ابراهيم انك حميد مجيد
صحیح بخاری، کتاب الدعوات، رقم: 6357 – صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 406
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ (یعنی ایک عمدہ حدیث نہ سناؤں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں تشریف لائے تو ہم نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہم آپ کو سلام کس طرح کریں، لیکن آپ پر درود ہم کس طرح بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کہو: ”اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمت نازل فرما اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور صاحب فضل و کرم ہے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور صاحب فضل و کرم ہے۔“
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ‎﴿٢٤﴾
(9-التوبة:24)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
عن عبد الله بن هشام رضى الله عنه قال كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيد عمر بن الخطاب رضى الله عنه فقال له عمر يا رسول الله انت احب الي من كل شيء الا من نفسي فقال النبى صلى الله عليه وسلم لا والذي نفسي بيده حتى اكون احب اليك من نفسك فقال له عمر فانه الان والله انت احب الي من نفسي فقال النبى صلى الله عليه وسلم الان يا عمر
صحیح بخاری، كتاب الأيمان والنذور، رقم: 6632
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر اللہ کی قسم! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔“
حقوق الوالدين

والدین کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ‎﴿١٤﴾‏
(31-لقمان:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہوئی کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال جاء رجل الى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله من احق الناس بحسن صحبتي قال امك قال ثم من قال ثم امك قال ثم من قال ثم امك قال ثم من قال ثم ابوك
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 5971 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والأدب، رقم: 2548
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: ”تمہاری ماں ہے۔“ عرض کیا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: ”تمہاری ماں ہے۔“ پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: ”تمہاری ماں ہے۔“ انہوں نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہارا باپ ہے۔“
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال جاء رجل الى النبى صلى الله عليه وسلم فاستأذنه فى الجهاد فقال احي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
صحیح بخاری، كتاب الجهاد والسير، رقم: 3004 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والأدب، رقم: 2549
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر انہی میں جہاد کرو (یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو)۔“
عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه قال سألت النبى صلى الله عليه وسلم اى العمل احب الى الله قال الصلاة على وقتها قال ثم اى قال ثم بر الوالدين قال ثم اى قال الجهاد فى سبيل الله قال حدثني بهن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو استزدته لزادني
صحیح بخاری، كتاب مواقيت الصلاة، رقم: 527 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 85
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا۔“ پھر پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔“ عرض کیا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتاتے (لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی)۔
قَالَ اللهُ تَعَالَى:‏ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴿١٠٨﴾
(6-الأنعام:108)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ جہالت کی وجہ سے حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔“
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان من اكبر الكبائر ان يلعن الرجل والديه قيل يا رسول الله وكيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل ابا الرجل فيسب اباه ويسب امه فيسب امه
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 5973 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 90
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔“ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ کو اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔“
حقوق ذَوِي الأرحام

قریبی رشتہ داروں کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى:فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ‎﴿٢٢﴾‏
(47-محمد:22)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ان الله خلق الخلق حتى اذا فرغ من خلقه قالت الرحم هذا مقام العائذ بك من القطيعة قال نعم اما ترضين ان اصلى من وصلك واقطع من قطعك قالت بلى يا رب قال فهو لك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقرؤا ان شئتم ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ﴾
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 5987 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والأدب، رقم: 2554
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی اور جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم نے عرض کیا: یہ اس شخص کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں، کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اس سے جوڑوں جو تم سے اپنے آپ کو جوڑے اور اس سے توڑوں جو تم سے اپنے آپ کو توڑ لے؟ رحم نے کہا: کیوں نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس یہ تجھے دیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا: ”اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ﴾ کچھ عجیب نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم ملک میں فساد برپا کرو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ان الرحم شجنة من الرحمن فقال الله من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 5988
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے، پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بھی اسے اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے، میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔“
عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الرحم معلقة بالعرش تقول من وصلني وصله الله ومن قطعني قطعه الله
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والأدب، رقم: 2555 – صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 5989
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحم (رشتہ داری) رحمن سے ملی ہوئی شاخ ہے، جو اس سے ملے، میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے، میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔“
عن جبير بن مطعم رضى الله عنه انه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول لا يدخل الجنة قاطع
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 5984 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والأدب، رقم: 2556
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“
حقوق الزوجين

میاں بیوی کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(2 – البقرة: 229)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال استوصوا بالنساء فان المرأة خلقت من ضلع وان اعوج شيء فى الضلع اعلاه فان ذهبت تقيمه كسرته وان تركته لم يزل اعوج استوصوا بالنساء خيرا
صحیح بخاری، كتاب النكاح، رقم: 5186 – صحیح مسلم، كتاب النكاح، رقم: 1468
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس لیے میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا دعا الرجل امرأته الى فراشه فابت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح
صحیح بخاری، كتاب بدء الخلق، رقم: 3237 – صحیح مسلم، كتاب النكاح، رقم: 1436
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا تصوم المرأة وبعلها شاهد الا باذنه
صحیح بخاری، كتاب النكاح، رقم: 5192 – صحیح مسلم، كتاب الزكاة، رقم: 1026
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر شوہر گھر پر موجود ہو تو کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔“
حُقُوقُ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ

مسلمان حکمرانوں کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ ‎﴿٧٣﴾
(21-الأنبياء:73)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور ہم نے انہیں پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کام کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکاۃ دینے کی وحی (تلقین) کی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔“
وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: ‏ وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ ‎﴿٤١﴾
(28-القصص:41)
❀ اللہ عز و جل نے فرمایا:
”اور ہم نے انہیں ایسے امام بنا دیے کہ لوگوں کو جہنم کی طرف بلائیں اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہ کی جائے گی۔“
عن ابي ادريس الخولاني انه سمع حذيفة بن اليمان رضى الله عنه يقول كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت اسأله عن الشر مخافة ان يدركني فقلت يا رسول الله انا كنا فى جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلك الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هداي تعرف منهم وتنكر قلت فهل بعد ذلك الخير من شر قال نعم دعاة الى ابواب جهنم من اجابهم اليها قذفوه فيها قلت يا رسول الله صفهم لنا فقال هم من جلدتنا ويتكلمون بالسنتنا قلت فما تأمرني ان ادركني ذلك قال تلزم جماعة المسلمين وامامهم قلت فان لم يكن لهم جماعة ولا امام قال فاعتزل تلك الفرق كلها ولو ان تعض باصل شجرة حتى يدركك الموت وانت على ذلك
صحیح بخاری، كتاب الفتن، رقم: 7084 – صحیح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 1847
حضرت ابو ادریس خولانی فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خیر سے نوازا، تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن اس خیر میں کمزوری ہو گی۔“ میں نے پوچھا: اس کی کمزوری کیا ہو گی؟ فرمایا: ”کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے، ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم برائی دیکھو گے۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر آئے گا؟ فرمایا: ”ہاں، جہنم کی طرف بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے، جو ان کی بات مان لے گا، وہ اسے اس میں جھٹک دیں گے۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ان کی کچھ صفت بیان کیجیے۔ فرمایا: ”وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔“ میں نے پوچھا: پھر اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو آپ مجھے ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا۔“ میں نے کہا: اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو؟ فرمایا: ”پھر ان تمام لوگوں سے الگ ہو کر خواہ تمہیں جنگل میں جا کر درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت آ جائے۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم انه قال من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات مات ميتة جاهلية ومن قاتل تحت راية عمية يغضب لعصبة او يدعو الى عصبة او ينصر عصبة فقتل فقتلة جاهلية ومن خرج على امتي يضرب برها وفاجرها ولا يتحاشى من مؤمنها ولا يفي لذي عهد عهده فليس مني ولست منه
صحیح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 1848
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص (امیر کی) اطاعت سے الگ ہوا اور جماعت (کے نظم) سے علیحدہ ہوا اور اسی حالت میں فوت ہوا، تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص اندھا دھند یعنی نامعلوم جھنڈے کے نیچے لڑتا رہا، عصبیت کے پیش نظر غصے میں آیا، عصبیت کی بنیاد پر دعوت دیتا رہا یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا رہا اور قتل ہو گیا، تو اس کا قتل ہونا جاہلیت کے انداز کا ہے۔ اور جو شخص میری امت کے خلاف تلوار لے کر نکلا، نیک و بد سب کو تہ و تیغ کرتا ہے اور کسی مومن انسان کی اسے پروا نہیں اور نہ ہی کسی عہد والے کے عہد کا کچھ پاس ہے، تو وہ مجھ سے نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔“
عن وائل بن حجر رضى الله عنه قال سأل سلمة بن يزيد الجعفي رضى الله عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا نبي الله ارأيت ان قامت علينا امراء يسألوننا حقهم ويمنعونا حقنا فما تأمرنا فاعرض عنه ثم سأله فاعرض عنه ثم سأله فى الثانية او فى الثالثة فجذبه الاشعث بن قيس رضى الله عنه وقال اسمعوا واطيعوا فانما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم
صحیح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 1846
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ بتائیں! اگر امراء ہم پر مقرر ہوں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں (لیکن) ہمیں ہمارے حقوق نہ دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو، اس لیے کہ ان پر وہ ذمہ داریاں ہیں جو ان پر ڈال دی گئی ہیں اور تم پر وہ ذمہ داریاں ہیں جو تم پر ڈال دی گئی ہیں۔“
حُقُوقُ الْأَئِمَّةِ وَأَفْرَادِ الرَّعِيَّةِ

حکمرانوں اور رعایا کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
(4-النساء:59)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور تم میں سے اختیار والوں کی۔“
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته فالامام الذى على الناس راع وهو مسئول عن رعيته والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عن رعيته والمرأة راعية على اهل بيت زوجها وولده وهى مسئولة عنهم وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسئول عنه الا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته
صحیح بخاری، كتاب الأحكام، رقم: 7138 – صحیح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 1829
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو جاؤ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ امام جو لوگوں پر ہے، وہ نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا۔ کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش ہو گی۔“
حُقُوقُ النَّفْسِ وَالْأَهْلِ وَالزَّائِرِ

اپنے نفس، بیوی بچوں اور مہمان کے حقوق

عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال لي النبى صلى الله عليه وسلم الم اخبر انك تقوم الليل وتصوم النهار قلت اني افعل ذلك قال فانك اذا فعلت ذلك هجمت عينك ونفهت نفسك وان لنفسك حقا ولاهلك حقا فصم وافطر وقم ونم

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور پھر دن میں روزے رکھتے ہو؟“ میں نے کہا: ہاں، حضور! میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری آنکھیں (بیداری کی وجہ سے) بیٹھ جائیں گی اور تیری جان ناتواں ہو جائے گی۔ یہ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی بلا روزے کے بھی رہو، عبادت بھی کرو اور سو بھی۔“
صحیح بخاری، كتاب التهجد، رقم: 1154 – صحیح مسلم، كتاب الصيام، رقم: 1159
حقوق الجار

پڑوسی کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ
(4-النساء:36)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پہلو سے لگے ہوئے دوست اور مسافر (کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرو)۔“
عن ابي شريح وابي هريرة رضي الله عنهما ان النبى صلى الله عليه وسلم قال والله لا يؤمن والله لا يؤمن والله لا يؤمن قيل ومن يا رسول الله قال الذى لا يأمن جاره بوائقه
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6016 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 4
حضرت ابو شریح اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں۔“ عرض کیا گیا: کون، یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يمنع جار جاره ان يغرز خشبه فى جداره ثم يقول ابو هريرة مالي اراكم عنها معرضين والله لارمين بها بين اكتافكم
صحیح بخاری، كتاب المظالم، رقم: 2463 – صحیح مسلم، كتاب المساقاة، رقم: 1609
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں تو اس حدیث کا تمہارے سامنے برابر اعلان کرتا رہوں گا۔
حَقُّ الْأَقْرَبِ مِنَ الْجِيرَانِ

پڑوسیوں میں سے قریبی کا حق

عن عائشة رضي الله عنها قالت قلت يا رسول الله ان لي جارين فالى ايهم اهدي قال الى اقربهما منك بابا
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6020
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری دو پڑوسنیں ہیں (اگر ہدیہ ایک ہو تو) میں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔“
حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي سِتّ

مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ‎﴿٨٦﴾‏
(4-النساء:86)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس سے اچھا جواب دو، یا اسی کو لوٹا دو، بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔“
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ‎﴾
(11-هود:73)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم اہل بیت کے لیے ہیں، وہ بے شک لائق حمد و ثنا، بزرگی والا ہے۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول حق المسلم على المسلم خمس رد السلام وعيادة المريض واتباع الجنائز واجابة الدعوة وتشميت العاطس
صحیح بخاری، كتاب الجنائز، رقم: 1240 – صحیح مسلم، كتاب السلام، رقم: 2162
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ: ”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک پر (اس کے الحمد لله کے جواب میں يرحمك الله کہنا)۔“
حَقُّ الْعَاطِسِ إِذَا حَمِدَ اللَّهَ فِي التَّسْمِيتِ

چھینکنے والا الحمد لله کہے تو اس کا جواب دینے کا حق

عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ان الله يحب العطاس ويكره التثاؤب فاذا عطس احدكم وحمد الله كان حقا على كل مسلم سمعه ان يقول له يرحمك الله واما التثاؤب فانما هو من الشيطان فاذا تثاءب احدكم فليرده ما استطاع فان احدكم اذا تثاءب ضحك منه الشيطان
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6226 – صحیح مسلم، كتاب الزهد، رقم: 2994
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ بعض دفعہ صحت کی علامت ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی چھینکے تو وہ الحمد لله کہے، لیکن جمائی لینا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنی قوت و طاقت کے مطابق اسے روکے، کیونکہ جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔“
حَقٌّ مَنْ شَمَّتَ فِي الدُّعَاءِ

چھینک کا جواب دینے والے کو دعا کا حق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ﴾
(محمد: 5)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”وہ عنقریب انہیں اپنی راہ دکھائے گا اور ان کے حالات کی اصلاح کر دے گا۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال اذا عطس احدكم فليقل الحمد لله وليقل له اخوه او صاحبه يرحمك الله فاذا قال له يرحمك الله فليقل يهديكم الله ويصلح بالكم
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6224
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی چھینکے تو الحمد لله کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی (راوی کو شک تھا) يرحمك الله کہے۔ جب ساتھی يرحمك الله کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا يهديكم الله ويصلح بالكم کہے۔“
حُقُوقُ الْحَادِمِ فِي الطَّعَامِ

کھانے میں خادموں کے حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ‎﴿٣٦﴾
(4-النساء:36)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پہلو سے لگے ہوئے دوست، مسافر اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ (بھی اچھا برتاؤ کرو)۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال اذا اتى احدكم خادمه بطعامه فان لم يجلسه معه فليناوله اكلة او اكلتين او لقمة او لقمتين فانه ولي حرة علاجه
صحیح بخاری، كتاب الأطعمة، رقم: 5460 – صحیح مسلم، كتاب الأيمان والنذور، رقم: 1663
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہ بٹھا سکتا ہو تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے، کیونکہ اس نے (پکاتے وقت) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔“
حُقُوقُ الْمُتَشَاحِنَيْنِ فِي الصُّلْحِ وَشُومُ الشَّحْنَاءِ

آپس میں کینہ رکھنے والوں کے لیے صلح کا حق اور کینہ کی مذمت

عن أبى هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين، ويوم الخميس، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا، إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم: 2565
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پیر اور جمعرات کے روز جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، سوائے اس شخص کے جس کے اور اس کے بھائی کے درمیان کینہ ہو۔ چنانچہ کہا جاتا ہے: ان دونوں کو روکے رکھو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں، ان دونوں کو روکے رکھو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں، ان دونوں کو روکے رکھو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔“
عن أبى أيوب الأنصاري رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدأ بالسلام
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6077 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم: 2560
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ ملاقات ترک کرے، اس طرح کہ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔“
حَقُّ الْمُسْلِمِ فِي السَّلَامِ

سلام کہنے میں مسلمان کا حق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ‎﴿٨٦﴾‏
(4-النساء:86)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس سے بہتر جواب دو یا اسی کو لوٹا دو، بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً
(24-النور:61)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پس جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، جو اللہ کی جانب سے مبارک اور پاکیزہ تحیہ ہے۔“
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، أن رجلا سأل النبى صلى الله عليه وسلم: أى الإسلام خير؟ قال: تطعم الطعام، وتقرأ السلام علىٰ من عرفت ومن لم تعرف
صحیح بخاری، كتاب الإيمان، رقم: 12 – صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 39
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اسلام کا کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ کہ (اللہ کی مخلوق کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔“
عن البراء بن عازب رضي الله عنه، قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبع: بعيادة المريض، واتباع الجنائز، وتشميت العاطس، ونصر الضعيف، وعون المظلوم، وإفشاء السلام، وإبرار المقسم، ونهى عن الشرب فى الفضة، ونهانا عن تختم الذهب، وعن ركوب المياثر، وعن لبس الحرير والديباج والقسي والإستبرق
صحیح بخاری، كتاب الإستئذان، رقم: 6235 – صحیح مسلم، كتاب اللباس والزينة، رقم: 2066
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا: بیمار کی مزاج پرسی کرنے کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینکنے والے کے جواب دینے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنے کا، سلام پھیلانے کا، اور قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا، سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا، ریشمی زین پر سوار ہونے سے منع فرمایا، اور ریشم، دیباج، قسی اور استبرق پہننے سے منع فرمایا۔
حَقُّ الْمُسْلِمِ فِي نَهْيِ التَّحَاسُدِ

مسلمان کا حق ہے کہ اس سے حسد نہ کیا جائے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ
(49-الحجرات:12)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے ایمان والو! بہت زیادہ بدگمانی سے بچو، کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ اور نہ کسی کی جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تم اسے ناپسند کرو گے۔“
عن أبى هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تنافسوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6066 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم: 2563
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ نہ کسی کے عیوب کی ٹوہ کرو، نہ جاسوسی کرو، نہ مقابلہ بازی کرو، نہ حسد کرو، نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو، اور اللہ کے بندوں کی طرح بھائی بھائی بن کر رہو۔“
عَظْمَةُ حَقِّ الْمُسْلِمِ

مسلمان کی تعظیم کا حق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿١٨٨﴾‏
(2-البقرة:188)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تم اپنے اموال آپس میں ناحق نہ کھاؤ اور نہ حکام تک اس غرض سے معاملہ لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ گناہ کے ساتھ، جانتے بوجھتے کھا جاؤ۔“
عن أم سلمة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه سمع خصومة بباب حجرته، فخرج إليهم، فقال: إنما أنا بشر، وإنه يأتيني الخصم، فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض، فأحسب أنه صادق، فأقضي له بذلك، فمن قضيت له بحق مسلم، فإنما هي قطعة من النار، فليأخذها أو ليتركها
صحیح بخاری، كتاب الأحكام، رقم: 7181 – صحیح مسلم، كتاب الأقضية، رقم: 1713
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ، بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی، تو آپ ان کی طرف باہر تشریف لائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ فصیح بولنے والا ہو، تو میں سمجھوں کہ وہی سچا ہے اور اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس جس کے لیے بھی میں کسی مسلمان کا حق دلا دوں، وہ درحقیقت جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ وہ چاہے اسے لے یا چھوڑ دے۔“
حُقُوقُ الْمُسْلِمِينَ بَعْضِهِمْ عَلَىٰ بَعْضٍ

مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾
(الحجرات: 10)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک مومن آپس میں بھائی ہیں۔“
عن النعمان بن بشير رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مثل المؤمنين فى توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكىٰ منه عضو تداعىٰ له سائر الجسد بالسهر والحمى
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم: 6011 – صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم: 2586
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مومنوں کی مثال ان کی باہمی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم اس کے لیے بیدار رہتا ہے اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“
حَقُّ الْمَعِينِ فِي التَّبْرِيكِ وَالْوُضُوءِ

جس کو نظر بد لگ جائے اس کا حق ہے کہ اسے وضو اور غسل کرایا جائے

عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: العين حق، ولو كان شيء سابق القدر، سبقته العين، وإذا استغسلتم فاغسلوا
صحیح بخاری، كتاب الطب، رقم: 5740 – صحیح مسلم، كتاب السلام، رقم: 2188
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نظر بد حق ہے۔ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے سکتی تو نظر بد لے لیتی۔ اور جب تم سے غسل (دھوون) کا مطالبہ کیا جائے تو غسل کرو۔“
حُقُوقُ الدَّوَابِّ وَنَحْوِهَا

چوپایوں اور جانوروں کے حقوق

عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا سافرتم فى الخصب، فأعطوا الإبل حظها من الأرض، وإذا سافرتم فى السنة، فأسرعوا عليها السير، وإذا عرستم بالليل، فاجتنبوا الطريق، فإنها مأوى الهوام بالليل
صحیح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 1926
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم خوشحالی میں سفر کرو تو اونٹوں کو زمین (کے چارے) سے ان کا حق دو۔ اور جب تم قحط سالی میں سفر کرو تو ان پر تیزی سے سفر مکمل کرو۔ اور جب تم رات کو آرام کے لیے اترو تو راستے سے ہٹ کر اترو، کیونکہ وہ رات کے وقت زہریلے جانوروں کا ٹھکانہ ہوتا ہے۔“
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: عذبت امرأة فى هرة ربطتها حتى ماتت، فدخلت فيها النار، لا هي أطعمتها ولا سقتها إذ حبستها، ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض
صحیح بخاری، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 3482 – صحیح مسلم، كتاب السلام، رقم: 2242
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جسے اس نے باندھ رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ اس وجہ سے وہ عورت دوزخ میں داخل ہوئی۔ اس نے نہ تو اسے کھانا دیا، نہ پانی پلایا جب اس نے اسے قید کیا، اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1