بنی آدم کے ناخن تراشنے سے متعلق شرعی رہنمائی
سوال:
کیا بنی آدم کے ناخن حضرت آدم علیہ السلام کی نشانیاں ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا ان کو کاٹ کر پھینک دینا بےحرمتی کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ناخن کا حضرت آدم علیہ السلام کی نشانی ہونے کا دعویٰ
◈ ناخن کو حضرت آدم علیہ السلام کی نشانی قرار دینے کے بارے میں کوئی ضعیف روایت بھی موجود نہیں۔
◈ ملا علی قاری حنفی نے مرفاة شرح مشکوٰة (جلد 5، صفحہ 646) میں حدیث ذکر اویس قرنی کی شرح میں لکھا:
"کما قیل ظفر آدم أنه أثر من جلده السابق”
یعنی: کہا جاتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے ناخن ان کی پہلی جلد کی باقیات ہیں۔
◈ تاہم ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ یہ بات محض مشہور ہو گئی ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
◈ کیونکہ یہ ایک ظاہر حقیقت ہے کہ انسان کے تمام اعضاء حضرت آدم علیہ السلام کی نشانی ہیں، لہٰذا ناخن کو کسی خاص حیثیت سے جدا کرنا درست نہیں۔
ناخن اور بال کا کیا کیا جائے؟
◈ بہتر اور مستحب عمل یہ ہے کہ انسان جب ناخن یا بال کاٹے تو انہیں دفن کر دے۔
◈ امام احمد بن حنبل سے جب اس بارے میں پوچھا گیا کہ:
"شعر اور ناخن کاٹنے کے بعد انہیں دفن کرنا چاہیے یا پھینک دینا چاہیے؟”
◈ انہوں نے فرمایا: "دفن کرے”۔
◈ سوال کیا گیا: "کیا اس بارے میں کوئی دلیل پہنچی ہے؟”
◈ انہوں نے جواب دیا: "عبداللہ بن عمرؓ ایسا کرتے تھے”۔
◈ مزید فرمایا گیا: نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"بال اور ناخن دفن کر دو، کیونکہ ان سے اولادِ آدم پر جادو کیا جا سکتا ہے”۔
◈ یہ حدیث بیہقی نے وائل بن حجرؓ سے روایت کی ہے، جس کا مضمون مذکورہ روایت سے ملتا ہے۔
◈ اس بنا پر فقہائے کرام نے دفن کرنے کو مستحب قرار دیا ہے کیونکہ یہ آدمی کے جسم کا حصہ ہیں۔
حدیث کی مزید تائید:
◈ ترمذی الحکیم نے عبداللہ بن بسرؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اپنے ناخن کاٹو، اپنی زنجیروں کو دفن کرو، اور اپنی انگلیوں کے جوڑ صاف کرو”۔
◈ البتہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔
(تحفۃ الاحوذی، جلد 4، صفحہ 10، محدث دہلی)
نتیجہ:
◈ ناخن اور بال حضرت آدم علیہ السلام کی کوئی خاص نشانی نہیں ہیں۔
◈ بہتر اور مستحب عمل یہ ہے کہ ناخن اور بال کو کاٹنے کے بعد دفن کر دیا جائے تاکہ بےحرمتی نہ ہو اور اس میں ایک روحانی حکمت بھی پائی جاتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب