حضرت موسیٰؑ کا فرشتۂ موت کو طمانچہ مارنا: 3 اہم وضاحتیں حدیث بخاری کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 63

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت عزرائیل علیہ السلام کو طمانچہ مارنے سے متعلق حدیث کی حقیقت

سوال:

کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو طمانچہ مارا جس سے ان کی آنکھ نکل گئی؟ ایک واعظ نے یہ بات بخاری شریف کے حوالے سے بیان کی ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو کیا یہ نبی کی شان کے خلاف نہیں؟

سائل:
محمد الدین خظیب، جامع مسجد ابدالیان، پوران، ضلع گجرات۔

جواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

حدیث کا حوالہ اور اصل الفاظ

یہ حدیث صحیح بخاری، جلد 4، صفحہ 130 پر ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:

’’عن ابي هريرة ، قال : أرسل ملك الموت الي موسي عليه السلام ، فلما جاء صكه ، فرجع إلي ربه ، فقال : أرسلتني إلي عبدلا يريد الموت ، فردالله عليه عنيه ، فقال : أرجع فقل له يضع يده علي متن ثور ، فله بكل ماغطت به يده بكل شعرة سنة ، قال : اي رب ثم ماذا ؟قال : ثم الموت ، قال : فالأن‘‘۔

یہ حدیث صحیح مسلم، جلد 4، صفحہ 842 اور سنن نسائی میں بھی مروی ہے۔

اعتراض کرنے والوں کی نوعیت

  • ملحدین اور نیچری حضرات اس حدیث کو قبول نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی نبی کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ایک بےقصور فرشتہ کو اس شدت سے مارے کہ اس کی آنکھ نکل جائے۔
  • ❀ نیچری حضرات کا طریقہ یہ ہے کہ جو حدیث ان کی عقل میں نہ آئے، اس کا انکار کر دیتے ہیں۔
  • ❀ اگر قرآن میں ایسی کوئی بات ہو، تو اس کی مضحکہ خیز تاویل کر دیتے ہیں جو درحقیقت معنوی تحریف کے زمرے میں آتی ہے۔

ایسے اعتراضات کا عقلی جواب

ایسے لوگوں سے یہ سوال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ:

اگر یہ حدیث خلاف عقل ہے، تو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غصے میں آ کر سر اور داڑھی سے پکڑ کر کھینچنا یا گھسیٹنا عقل کے مطابق کیسے ہو سکتا ہے؟

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

قال ابن امّ الا تأخذ بلحیتی ولا برأسی
(سورہ طٰہٰ: 94)

محدثین کا جواب

  • امام ابن خزیمہ اور ابن قتیبہ رحمہما اللہ نے اس طرح کے اعتراضات کا مفصل جواب دیا ہے۔
  • ❀ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
    • عینی شرح بخاری، جلد 15، صفحہ 305
    • نووی شرح صحیح مسلم، جلد 15، صفحہ 130
ماخذ: محدث دہلی، جلد: ش، رجب 1366ھ، جون 1947ء

ضمیمہ: سماع موتی، زیارت قبور اور متعلقہ تحقیقات

(1) سماع موتی کے رد میں امام ابو حنیفہ سے منسوب روایت

  • ❀ بعض لوگ کتاب ’’غرائب فی تحقیق المذاہب‘‘ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ کی طرف ایک روایت منسوب کرتے ہیں۔
  • ❀ اس کتاب کی تلاش میں شبلی منزل اعظم گڑھ گیا گیا، لیکن وہاں یہ کتاب نہ ملی۔
  • ❀ سورہ نحل اور سورہ فاطر کی سماع موتی والی آیات کی تفسیر میں بھی اس روایت کا ذکر نہ ملا۔
  • تفسیر نیشاپوری ایک معروف تفسیر ہے، لیکن اس میں بھی مذکورہ روایت نہیں ملی۔
  • ❀ کچھ قدیم تفسیری حواشی میں اس تفسیر کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن کتاب خود دستیاب نہ ہو سکی۔

اہم سوالات:

  • ➊ کتاب ’’غرائب فی تحقیق المذاہب‘‘ کا مصنف کون ہے؟
  • ➋ یہ کتاب کب لکھی گئی؟
  • ➌ کیا ’’کشف الظنون‘‘ (ترکی سے شائع شدہ) میں اس کتاب کا ذکر ہے؟

آپ سے درخواست ہے کہ اگر اس کتاب کا کوئی سراغ ملے تو ضرور مطلع فرمائیں۔

احادیث زیارت قبر نبوی اور ان کی تحقیق

  • ❀ حدیث: "لا تشدالرجال الا الی ثلثة مساجد”
  • ❀ زیارت قبر نبوی سے متعلق تفصیلی بحث ان کتب میں موجود ہے:
      • "التوسل الوسیله” از امام ابن تیمیہ
      • "الصارم المنکی فی الرد علی السبکی” از شیخ عبدالہادی
      • "صیانة الانسان عن وسوسة الشیخ دحلان” از مولانا محمد بشیر سہسوانی
  • ❀ کچھ مختصر بحث ان کتب میں بھی ہے:
    • مرعاۃ (1؍131، 133، 7؍379، 391)
    • تحفۃ الاحوزی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1