آں حضرت ﷺ نے افلح، رباح، یسار، نجیح نام رکھنے کی ممانعت – تفصیلی وضاحت
❖ سوال
آں حضرت ﷺ نے افلح، رباح، یسار، نجیح نام رکھنے کی ممانعت کیوں فرمائی؟
❖ جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آں حضرت ﷺ نے افلح، رباح، یسار، نجیح جیسے نام رکھنے کی ممانعت فرمائی، اور اس کی علت اور نہی کا سبب بھی ارشاد فرمایا۔ اس ممانعت کی بنیاد ایک نفسیاتی اور معاشرتی حکمت پر ہے، جس کا مقصد لوگوں کو بدشگونی (تطیر) سے بچانا ہے۔
❖ ممانعت کی علت: تطیر (بدشگونی) سے بچاؤ
آپ ﷺ نے ان ناموں سے ممانعت کی وجہ یوں بیان فرمائی:
فإنك تقول: أَثم هو؟ فيقول: لا
یعنی:
اگر تم کسی شخص سے سوال کرو کہ افلح (کامیاب)، رباح (نفع دینے والا)، یسار (آسانی)، نجیح (کامیاب) وہاں ہے؟
اور وہ جواب دے: "لا” (نہیں)،
تو یہ جواب سن کر دل میں یہ وسوسہ اور بدفالی آسکتی ہے کہ گویا کامیابی، آسانی یا نفع موجود نہیں ہے۔
یہ خیال دل میں آنا، تطیر (بدشگونی) کے زمرے میں آتا ہے، جس سے بچنے کی خاطر نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ کو ناموں کے طور پر اختیار کرنے سے منع فرمایا۔
❖ عربی لفظ "ثَمّ” کی لغوی وضاحت
لفظ "ثَمّ” کی وضاحت کچھ یوں ہے:
◈ ثَمّ:
– "ثاء” کے فتحہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے
– بعض اوقات وقف کی صورت میں اس کے آخر میں "ہاء السکت” شامل کی جاتی ہے، یعنی "ثمّه”
– یہ ایک ظرفِ مکان ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے: وہاں
– یہ دور کے مقام کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
وأُزْلِفَتِ الجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ ﴿٢٣﴾ هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ﴿٢٤﴾ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ ﴿٢٥﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ ﴿٢٦﴾ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا ۖ وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ ﴿٢٧﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُم بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ ۖ هَلْ مِن مَّحِيصٍ ﴿٢٨﴾ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴿٢٩﴾ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ﴿٣٨﴾ فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿٣٩﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿٤٠﴾
❖ نحوی تجزیہ: "أثم هو؟”
یہ جملہ نحوی طور پر اس طرح ہے:
◈ "أ” : حرف استفہام
◈ "ثم” : ظرف مکان ہے، جس میں "کائن” (محذوف فعل) شامل ہے
◈ "ھو” : مبتدا مؤخر
مکمل جملہ ایک جملہ اسمیہ بنتا ہے جس کا مطلب ہے: "کیا وہ وہاں ہے؟”
❖ نتیجہ
آں حضرت ﷺ نے مذکورہ ناموں کو رکھنے سے اس لیے منع فرمایا تاکہ بدشگونی، وہم اور وسوسے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ یہ ممانعت دراصل امت کو روحانی صفائی، ایمان کی مضبوطی اور توکل علی اللہ کی تعلیم دینے کا ایک ذریعہ ہے۔
❖ حوالہ
(عبیداللہ رحمانی 22؍ 10؍1965ء) – (نقوش شیخ رحمانی، ص 53؍54)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب