دانوں والی تسبیح کے شرعی احکام 8 دلائل کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد 1، کتاب الصلاة، صفحہ 474

دانوں والی مروجہ تسبیح کی شرعی حیثیت

سوال

آج کل نماز کے بعد لوگ جو دانوں میں پروئی ہوئی تسبیح استعمال کرتے ہیں، اس کا کیا شرعی حکم ہے؟ کیا یہ بدعت شمار ہوتی ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ ایک نابینا حافظ صاحب جو خود کو حافظ الحدیث کہتے ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دانوں والی تسبیح کا ثبوت ملتا ہے اور وہ حدیث دارقطنی کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر کوئی اس حدیث کو ضعیف ثابت کرے تو منہ مانگا انعام دیں گے۔ اس بارے میں تفصیلی وضاحت درکار ہے۔

(ابو طاہر محمدی، خانیوال)

جواب

مروجہ تسبیح کا واضح ثبوت

◈ موجودہ دور میں جو دانوں والی تسبیح رائج ہے، اس کا کوئی صریح ثبوت میرے علم میں نہیں ہے۔
◈ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔

مؤیدین کے دلائل

◈ اس کے جواز پر استدلال کرنے والے حضرات ان روایات کو بنیاد بناتے ہیں جن میں گھٹلیوں یا کنکریوں پر تسبیح کرنے کا ذکر موجود ہے۔
◈ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت گھٹلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "تجھے میں اس کام سے زیادہ آسان و افضل عمل نہ بتا دوں؟”
> پھر آپ ﷺ نے اسے ایک دعا سکھائی۔
سنن ابی داود، کتاب الوتر، باب التسبیح بالحصی، حدیث: 1500

حدیث کی صحت

◈ اس حدیث کی سند حسن ہے۔
◈ اسے امام ترمذی (حدیث 3567) نے "حسن غریب” قرار دیا ہے۔
ابن حبان (المورد: 2330)، حاکم (1/548) اور ذہبی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔
حافظ الضیاء المقدسی نے اسے اپنی کتاب المختارہ میں ذکر کیا ہے۔
◈ بعض جدید محققین کا اسے ضعیف کہنا درست نہیں۔
◈ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے اور اس کے بہت سے شواہد بھی موجود ہیں۔
"المنحة فی السبحۃ” از سیوطی، الحاوی للفتاوی، جلد 2، صفحہ 2

تسبیح کے دیگر ذرائع کا حکم

دیگر آلاتِ تسبیح کے ذریعے ذکر و اذکار کرنا جائز ہے، بدعت نہیں۔
◈ تاہم، افضل یہی ہے کہ گنتی ہاتھ کی انگلیوں پر کی جائے۔

دارقطنی کی روایت

دارقطنی والی روایت فی الحال میرے علم میں نہیں ہے۔
واللہ اعلم(ماخذ: شہادت، جون 2000ء)

مزید تفصیلات

سنن ابی داود (حدیث 1500) میں موجود روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ:
> ایک عورت کھجور کی گھٹلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اس سے بہتر عمل کے طور پر ایک دعا سکھائی۔
◈ یعنی آپ ﷺ نے کنکریوں اور گھٹلیوں پر تسبیح پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔

یہ روایت درج ذیل محدثین کے نزدیک صحیح ہے:
ترمذی (حدیث 3568) نے "حسن غریب”
ابن حبان (حدیث 2330)
ذہبی (تلخیص المستدرک، 1/547، 548)
ضیاء مقدسی (المختارہ، 3/209، 210، حدیث 1010، 1011)

روایت کی سند کے رواۃ

احمد بن صالح (المصری)
عبداللہ بن وہب
عمر بن الحارث
سعید بن ابی ہلال
عائشہ بنت سعد

تمام رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔
سعید بن ابی ہلال پر اختلاط کا الزام مردود ہے۔
خزیمہ کی توثیق ابن حبان، ترمذی، ذہبی اور ضیاء مقدسی نے کی ہے۔
◈ لہٰذا ابن حجر وغیرہ کا اس کے بارے میں "لایعرف” کہنا درست نہیں۔

شواہد

◈ اس روایت کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔
مثلاً:
"المنحة فی السبحۃ” از سیوطی
"الحاوی للفتاوی”، جلد 2، صفحہ 7

شیخ البانیؒ کا موقف

شیخ البانیؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
◈ حالانکہ یہ روایت حسن لذاتہ ہے اور شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔
(ماخذ: شہادت، جنوری 2003ء)

نتیجہ

◈ دانوں والی تسبیح کے استعمال کا واضح ثبوت اگرچہ موجود نہیں، مگر کنکریوں اور گھٹلیوں پر تسبیح کرنے کے شواہد ملتے ہیں، جس پر رسول اللہ ﷺ نے نہ تو منع فرمایا اور نہ ہی بدعت قرار دیا۔
◈ تاہم افضل طریقہ انگلیوں پر تسبیح کرنا ہے۔
◈ موجودہ دانوں والی تسبیح کو بدعت قرار دینا درست نہیں، جب کہ اس کا مقصد ذکر الٰہی ہو اور خلوص سے کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1