قرآنی دعاؤں سے دم کیا پانی پلانے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد: 1 صفحہ: 55

پانی پر دم کر کے مریض کو پلانے کا شرعی جواز

قرآن و سنت سے ماخوذ دعاؤں کے ذریعے علاج کا تفصیلی جائزہ

سوال

قرآنی آیات اور ادعیہ ماثورہ (جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں) کو پانی پر دم کرکے مریض کو پلانا کیسا ہے؟ اس سلسلے میں سلف صالحین کا کیا طرزِ عمل رہا ہے؟

سائل: شاہد جمال، امام و خطیب جامع مسجد، مولانا پوسٹ، جگن ناتھ پور، ضلع سنگھ بھوم، بھارت

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دم، رقیہ اور جھاڑ پھونک کا عمل اگر قرآن مجید، ادعیہ ماثورہ یا ایسا کلام ہو جس کا معنی اور مفہوم معلوم ہو، تو جائز ہے۔ اس بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔

رقیہ کے جواز پر اجماع

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فتح الباری (10/195، باب: الرقی بالقرآن والمعوذات) میں فرماتے ہیں:

"وقد أجمع العلماء على جواز الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط: أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه أو صفاته وباللسان العربي، أو بما يعرف معناه عن غيره، وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى۔”

یعنی:

  • علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ رقیہ جائز ہے اگر:
  • اللہ کے کلام، اس کے ناموں یا صفات کے ساتھ ہو،
  • عربی زبان میں ہو یا ایسا کلام ہو جس کا مطلب معلوم ہو،
  • اور یہ عقیدہ ہو کہ رقیہ خود مؤثر نہیں بلکہ اللہ کی ذات سے شفا حاصل ہوتی ہے۔

پانی اور دیگر اشیاء پر دم کا ثبوت

سنن ابی داؤد اور سنن نسائی میں حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی حدیث موجود ہے:

"عن ثابت بن قيس بن شماس عن ابيه عن جده عن رسول الله ﷺ… ثم أخذ ترابا من بطحان، فجعله في قدح، ثم نفث عليه بماء وصبه عليه”
(سنن ابی داؤد مع عون المعبود، 10/320، کتاب الطب، باب الرقی)

یعنی:

  • رسول اللہ ﷺ نے بیمار ثابت بن قیس کی شفا کے لیے دعا کی،
  • بطحان کی مٹی لی، برتن میں رکھی،
  • پانی میں تھوتھو کیا اور پھر اس مٹی کو مریض پر ڈالا۔

حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری (10/208، کتاب الطب، باب الرقیہ) میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔

مٹی پر دم کرنے کا ثبوت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:

"كان النبي ﷺ يقول في الرقية: بسم الله تربة أرضنا وريقة بعضنا، يشفي مريضنا أو سقيمنا بإذن ربنا”
(شرح نووی علی مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرضی والرقي؛ سنن ابی داؤد مع عون المعبود، 10/399)

امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

  • نبی ﷺ نے اپنی انگلی کی تھوک مٹی پر لگائی،
  • پھر اس مٹی کو مریض کے مقام پر لگا کر مذکورہ دعا فرمائی۔

پانی پر دم کر کے پلانے کا سلف صالحین کا عمل

امام بغوی شرح السنۃ میں لکھتے ہیں:

"وقد روي عن عائشة، أنها كانت لا ترى بأسًا أن يعوذ في الماء، ثم يعالج به المرض…”
(شرح السنة للبغوی، 12/166؛ زاد المعاد، 4/170)

  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پانی پر دم کر کے مریض کو پلانے کو جائز سمجھتی تھیں،
  • مجاہد اور ابو قلابة نے بھی قرآن کو لکھ کر دھو کر مریض کو پلانے کی اجازت دی،
  • ابن عباس نے زچہ عورت کے لیے قرآن کی آیات لکھ کر دھونے اور پلانے کا حکم دیا،
  • ایوب نے بھی ابوقلابہ کو ایسا کرتے دیکھا۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ

شیخ ابن باز رحمہ اللہ اپنی کتاب حکم السحر والکہانۃ وما یتعلق بہ میں فرماتے ہیں:

"وإن قرأ هذه الرقية والأدعية في ماء، ثم شرب منه المسحور واغتسل بما فيه، كان من أسباب الشفاء والعافية بإذن الله…”
(السحر والكهانة، ص: 29/30؛ رسائل الدعوة السلفية، ص: 65)

  • رقیہ اور دعائیں پانی پر پڑھ کر پلانا اور غسل کرانا، شفا کا ذریعہ ہے،
  • اگر اس میں سات سبز بیری کے پتے بھی پیس کر ڈالے جائیں تو مزید مؤثر ہوتا ہے،
  • یہ طریقہ کئی بار آزمایا گیا ہے اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

نتیجہ

مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

  • قرآنی آیات اور مسنون دعائیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں، انہیں پانی یا مٹی وغیرہ پر دم کرنا،
  • پھر اس دم کردہ پانی کو مریض کو پلانا یا اس سے غسل کرانا،
  • نہ صرف جائز ہے بلکہ سلف صالحین اور اکابر علماء کے عمل سے بھی ثابت ہے۔

کتبه: عبدالعزیز عبیداللہ الرحمانی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1