نوازل یا مقدمات کے سلسلہ میں طلبہ کو مجتمع کر کے بخاری شریف ختم کرانا: جواز اور دلائل
سوال
نوازل یا مقدمات کے سلسلہ میں طلبہ کو مجتمع کر کے بخاری شریف ختم کرانا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو اس کا جواز کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بخاری شریف کا ختم: جواز و اباحت
صحیح اور جائز مقاصد کے لیے بخاری شریف کا ختم، چاہے طلبہ و علماء کو مجتمع کر کے ہو یا انفرادی طور پر، جائز اور مباح ہے۔
تاریخی پس منظر
◈ اس طریقہ کی مخالفت سب سے پہلے ایک ازہری فاضل نے کی، جب جامع ازہر کے علماء نے ہیضہ کی وبا کے دوران بخاری شریف ختم کی۔
◈ جمادی الاولیٰ 1320ھ میں مصر کے ایک علمی رسالے میں ایک سخت مضمون شائع ہوا، مگر وہ سطحی اعتراضات پر مبنی تھا۔
جواز کی دو بڑی وجوہات
(1) بخاری شریف کے فضائل و خصوصیات
◈ بیشتر تراجم الابواب آیات قرآنیہ پر مشتمل ہیں۔
◈ کتاب التفسیر میں قرآنی آیات کی کثرت۔
◈ اس کا متن تمام کتب حدیث سے اصح ہے۔
◈ اس میں احادیث قدسیہ کی تعداد زیادہ ہے۔
◈ اس میں صحیح ترین دعائیں اور اذکار موجود ہیں۔
ان تمام خصوصیات کی روشنی میں بخاری شریف کی قرات ایک صالح عمل قرار پاتی ہے، اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے توسل کا جواز اہلِ ایمان میں مسلم ہے۔
توسل کی مثال
"كيف وقد ثبت في الصحيحين… أن النبي ﷺ حكي عن الثلاثة الذين انطبقت عليهم الصخرة…”
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب إجابة دعاء من بر والديه 7/69،
صحیح مسلم، کتاب الذكر، باب قصة أصحاب الغار 2743، 4/2099)
◈ ان تین افراد نے اللہ کے حضور اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے توسل کیا تو ان کی دعا قبول ہوئی۔
◈ اگر یہ توسل ناجائز یا شرک ہوتا، تو نبی ﷺ اس پر خاموش نہ رہتے۔
لہٰذا بخاری شریف کی قرات بھی عمل صالح ہے، اور اس کے ذریعے توسل جائز ہے، اگرچہ یہ قرآن کریم کی طرح متعبد بہ نہیں۔
(2) بخاری شریف کو بطور رقیہ پڑھنے کا جواز
◈ وہ کلمات جو شرکیہ یا کفریہ نہ ہوں اور ان کا مطلب معلوم ہو، ان سے دم کرنا جائز ہے۔
◈ یہ ضروری نہیں کہ ان کا رقیہ ہونا نصوص قرآن و سنت سے ثابت ہو۔
"كما يدل عليه حديث أبي سعيد الخدري في الصحيحين…”
(صحیح بخاری، کتاب الإجازة، باب ما يعطي في الرقية، 3/53
صحیح مسلم، کتاب السلام، باب جواز أخذ الأجرة على الرقية، 2201، 4/1727)
◈ بخاری شریف کو رقیہ کے طور پر پڑھنا علماء سلف کے تجربے سے ثابت ہے۔
◈ اسی وجہ سے آفات و بلیات کے موقع پر بطور رقیہ بخاری شریف کی قرات کی جاتی ہے۔
"وهذا لا بأس به”
(مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص: 57)
مخالفین کے شبہات اور ان کا جواب
(1) اعتراض:
آں حضرت ﷺ، صحابہ و تابعین کے دور میں احادیث کے مجموعے موجود تھے، مگر ان کی قرات سے توسل کا حکم یا عمل منقول نہیں۔
جواب:
◈ مخالفین بھی ختم قرآن سے توسل کو جائز مانتے ہیں، حالانکہ وہ بھی آں حضرت ﷺ سے صراحتاً منقول نہیں۔
◈ عدم نقل، عدم جواز کی دلیل نہیں۔
"ما سكت عنه فهو عفو”
(ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء 1762،
ابو داؤد، کتاب الأطعمة، باب ما لم یذکر مالم تحریمه 2800)
(2) اعتراض:
کبھی وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کے لیے بخاری شریف پڑھی جاتی ہے۔
جواب:
◈ مجرب ہونا یقینی حصول کا دعویٰ نہیں۔
◈ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اگر سلیمان علیہ السلام "ان شاء الله” کہہ دیتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا۔
(3) اعتراض:
قرآن کی تلاوت متعبد بہ ہے، حدیث نہیں، تو قرآن کو کیوں نہیں ترجیح دی جاتی؟
جواب:
◈ مجوزین بخاری مختلف مقاصد کے لیے قرآن بھی پڑھتے ہیں۔
◈ وہ لوگ جو قرآن کو ترک کر کے صرف بخاری پر اعتماد کرتے ہیں، غلطی پر ہیں۔
◈ قرآن کریم کی اصل حیثیت برقرار ہے، اس کے بعد صحیح بخاری کا درجہ ہے۔
(4) اعتراض:
اگر ختم بخاری اتنا مؤثر ہے تو جنگ، بیماری، چوری، آگ، سب میں بس ختم بخاری کافی ہے، باقی ظاہری اسباب کی ضرورت کیا؟
جواب:
◈ یہ اعتراض عناد، کج فہمی اور سطحی سوچ کا نتیجہ ہے۔
◈ آں حضرت ﷺ نے بھی مختلف مواقع پر آیات و اذکار کی تعلیم دی مگر ظاہری اسباب سے قطع تعلق نہیں کیا۔
(5) اعتراض:
ختم بخاری کو سب سے پہلے کس نے شروع کیا؟
جواب:
◈ اول من سنّ ذلک کا علم نہ ہونا عدم جواز کی دلیل نہیں۔
◈ جب معتبر دلائل سے جواز ثابت ہے تو پہلا شخص معلوم ہونا ضروری نہیں۔
"ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب”
(محدث دہلی ج: ا ش: رمضان 1361ھ / اکتوبر 1942ء)