خلافِ سنت عمل پر "مصلحت” کے نام پر خاموشی اختیار کرنا
سوال:
خلاف سنت عمل پر، مصلحت اور اتفاق کا بہانہ بنا کر علماء اور عوام اہل حدیث کا خاموشی اختیار کرنا اور ان اعمال میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خلافِ سنت عمل، یعنی بدعیہ افعال کا ارتکاب یا ان میں شرکت کرنا، یا باوجود قدرت خاموشی اختیار کرنا – اگر یہ خاموشی دنیاوی مصلحت یا آپسی اتفاق کی خاطر ہو تاکہ اختلاف پیدا نہ ہو – تو یہ عمل مذموم اور قبیح ہے۔
- بدعیہ اعمال کا ارتکاب فسق ہے۔
- اور ان پر خاموشی اختیار کرنا مداہنت فی الدین ہے۔
- یہ دونوں امور شرعاً ممنوع ہیں۔
علمائے کرام اور عوام کی ذمہ داری:
اگر کسی شخص کو امر بالمعروف (نیکی کا حکم دینا) اور نہی عن المنکر (برائی سے روکنا) پر قدرت حاصل ہے، پھر بھی وہ خاموشی اختیار کرتا ہے تو یہ بہت بڑا جرم ہے۔
کیونکہ:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دین کے فرائض میں سے ہیں۔
البتہ، تبلیغ کے وقت نرمی اور حکمت کا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں حکم ہے:
﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ﴾ (النحل: 125)
وعید اور ترغیب احادیث کی روشنی میں:
1. خلاف پر خاموشی پر وعید:
عن جرير بن عبدالله قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: مامن رجل يكون فى قوم يعمل فيهم بالمعاصى، يقدرون على أن يغيروا عليه ولا يغيرون، إلا أصابهم الله منه بعقاب قبل أن يموتوا
(ابوداؤد: کتاب الملاحم، باب الامر والنهى، حدیث: 4339، ابن ماجہ: کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، حدیث: 4009، 2/1327)
2. احیاءِ سنت اور اماتتِ بدعت کی فضیلت:
عن ابى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دعا إلى الهدى كان له من الأجر مثل أجورمن تبعه، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا
(مسلم: كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، حدیث: 1017، 2019)
عن بلال بن الحارث المزنى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحى سنة من سنتى، قد أميتت بعدى، فإن له من الأجر مثل أجور من عمل بها
(ترمذى: كتاب الصلاة، باب ما جاء فى صلاة الحاجة، حدیث: 1384، 1/441)
3. بدعت کی حمایت پر وعید:
عن ابراهيم بن ميسرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من وقر صاحب بدعة، فقد أعان على هدم الإسلام
(رواه البيهقى فى شعب الإيمان مرسلا – مشكاة مع المرعاة، حدیث: 189، 1/292 – والحديث ضعيف، سلسلة الأحاديث الضعيفة، حدیث: 1962، 4/441)
نتیجہ:
پس، احیاءِ سنت اور اماتتِ بدعت کی کوشش ہمیشہ کرنی چاہیے تاکہ ہم ان وعیدوں سے محفوظ رہیں جن کا ذکر ان احادیث میں کیا گیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب