صحیح احادیث کی روشنی میں حیات کی 3 اقسام کا تفصیلی بیان
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 39

احادیث کی روشنی میں حیات کی اقسام

ابتدائی تمہید

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآنِ کریم اور معتبر احادیث کی روشنی میں "حیات” کی تین اقسام ثابت ہیں:

1. دنیاوی حیات

یہ وہ زندگی ہے جو انسان دنیا میں گزارتا ہے۔ یہ ہمارے حواس، مشاہدے اور شعور سے مربوط ہے۔

2. برزخی حیات

  • یہ وہ زندگی ہے جو موت کے بعد قبر میں شروع ہوتی ہے اور قیامت تک جاری رہتی ہے۔
  • اس کا تعلق برزخ کے عالم سے ہے، جو ہماری نگاہ، عقل، شعور اور ادراک سے مکمل طور پر پوشیدہ ہے۔
  • قرآنِ کریم میں شہداء کو مردہ قرار دینے سے منع فرمایا گیا ہے، بلکہ ان کے بارے میں فرمایا:

بل أحياء عند ربهم يرزقون

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شہداء کو برزخی حیات حاصل ہے۔

اس برزخی حیات کی نوعیت اور کیفیت ہم نہیں جانتے۔

برزخی حیات کی مختلف درجات

  • یہ زندگی تمام مرنے والوں کے لیے ثابت ہے:
    • انبیاء کرام علیہم السلام کو سب سے بلند اور اقویٰ حیات حاصل ہے۔
    • شہداء کی حیات عام مؤمنین سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے۔

عذاب و راحت کا مرحلہ

  • برزخ میں روح جسم کے ذرات کے ساتھ جُڑ کر راحت یا تکلیف محسوس کرتی ہے۔
  • اسی کو عذابِ قبر یا راحت فی القبر کہا جاتا ہے۔

نوٹ:
معلوم نہیں کہ آپ کے مولانا یا علامہ عذابِ برزخ کے قائل ہیں یا نہیں؟

3. اخروی حیات

  • یہ زندگی قیامت کے قیام کے بعد شروع ہوگی۔
  • یہ سب سے قوی اور کامل حیات ہے۔

حیات برزخی اور اخروی کا باہمی تقابل

  • حیاتِ برزخی اور حیاتِ اخروی دونوں انسان کے مشاہدے، شعور، احساس، ادراک سے بالاتر، غیر محسوس اور غیر معلوم ہیں۔
  • حیاتِ برزخی کو حیاتِ اخروی پر قیاس کرنا:
    • "قیاس غائب علی الغائب” ہے، جو کہ جہل قبیح شمار ہوتا ہے۔
  • اسی طرح حیاتِ برزخی کو حیاتِ دنیوی پر قیاس کرنا بھی:
      • "قیاس غائب علی الحاضر” ہے، اور یہ بھی جہل ہے۔

    صلوٰۃ میں درود و سلام کا مسئلہ

        • تشہد میں "السلام علیک ایھا النبی” کا استعمال:
          • نبی ﷺ کی ظاہری زندگی میں تمام صحابہ کرام نماز میں یہی کلمات پڑھتے تھے، خواہ وہ آپ ﷺ کے پیچھے نماز میں شریک ہوں یا مدینہ کی کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوں، حتیٰ کہ وہ لوگ جو مدینہ سے باہر کسی مفتوحہ علاقے میں نماز ادا کر رہے ہوں۔
          • سب کے سب یہی الفاظ "السلام علیک ایھا النبی” کے ساتھ التحیات پڑھتے تھے۔
          • آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام اور امت کا یہی عمل رہا ہے اور قیامت تک یہی رہے گا۔

    اہلِ حدیث کا موقف

        • کسی اہل حدیث کے ذہن میں یہ بات موجود نہیں ہوتی کہ نبی ﷺ ہر نمازی کے پاس بنفسِ نفیس حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔
        • بلکہ یہ خطاب صرف ذہنی تصور کے مطابق ہوتا ہے کہ ہم حضور ﷺ کو ذہن میں لا کر یہ الفاظ ادا کرتے ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1