نبی ﷺ کی وفات کے بعد وسیلہ دینے کے 3 شرعی اصول
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

وسیلہ کا مسئلہ

نبی ﷺ کی دعا کے رد نہ ہونے کی بنیاد پر اُن کا وسیلہ پکڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا کی شرعی حیثیت

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وسیلہ سے مراد ایسا ذریعہ اختیار کرنا ہے جو مقصود (اللہ کی بارگاہ میں دعا کی قبولیت) تک پہنچا دے۔ شرعی طور پر جائز وسیلہ کی تین اقسام ہیں، جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں:

1. اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا وسیلہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلِلَّهِ ٱلۡأَسۡمَآءُ ٱلۡحُسۡنَىٰ فَٱدۡعُوهُ بِهَاۖ﴾
(الاعراف: 180)

’’اور اللہ کے نام سب کے سب اچھے ہیں، پس تم اس کو انہی ناموں سے پکارو۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے خوبصورت ناموں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز اور مستحب ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مثال ملتی ہے، چنانچہ:

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دعا سکھانے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے یہ دعا تعلیم فرمائی:

«اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفرلي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم»
(صحیح بخاری: 834)

’’اے اللہ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔ پس تو اپنی خاص مغفرت سے میرے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو ہی بہت بخشنے والا، مہربان ہے۔‘‘

اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء: الغفور، الرحیم کا وسیلہ استعمال کیا گیا ہے۔

2. اللہ تعالیٰ کی صفات کا وسیلہ

وسیلے کی دوسری جائز صورت اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے دعا کرنا ہے۔

جیسا کہ حدیث میں ہے:

«اللهم بعلمك الغيب وقدرتك على الخلق أحيني ما علمت الحياة خيرًا لي وتوفني إذا علمت الوفاة خيرًا لي»
(سنن النسائی: 1306)

’’اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور مخلوق پر تیری قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو، مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے موت بہتر ہو، تو مجھے وفات دے دے۔‘‘

یہ دعا اللہ تعالیٰ کی صفات: علم و قدرت کے وسیلے سے کی گئی ہے۔

3. نیک اور زندہ شخصیت کا وسیلہ

تیسری جائز صورت یہ ہے کہ کسی نیک اور زندہ شخصیت سے دعا کروائی جائے، جس کے بارے میں قوی امید ہو کہ اس کی دعا اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔

مثالیں:

  • صحابہ کرام بارش کے لیے رسول اللہ ﷺ سے دعا کرواتے تھے:
    (صحیح بخاری: 847)
  • حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں قحط پڑا تو لوگوں نے حضرت عباسؓ سے دعا کروائی۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے فرمایا:

«اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا»
(صحیح بخاری: 1010)

’’اے اللہ! ہم پہلے تیرے نبی ﷺ کو وسیلہ بناتے (دعا کرواتے) تھے، تو ہمیں بارش عطا فرماتا تھا، اب ہم تیرے نبی کے چچا کو وسیلہ بنا رہے ہیں (یعنی ان سے دعا کروارہے ہیں)، تو ہمیں بارش عطا فرما۔‘‘

اس کے بعد حضرت عباسؓ نے دعا کی۔

سوال کے تناظر میں وضاحت

سوال میں پوچھا گیا ہے کہ نبی ﷺ کے صدقے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا کیسا ہے، خاص طور پر اس بنیاد پر کہ ان کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔

وضاحت:

اوپر بیان کردہ تین جائز صورتوں میں:

  • پہلے دو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے وسیلے سے متعلق ہیں۔
  • تیسری صورت نیک، زندہ شخصیت سے دعا کروانے کی ہے۔

جبکہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد، فوت شدہ شخصیت کو وسیلہ بنانا قرآن و حدیث یا صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کا عمل اس بات کو واضح کرتا ہے کہ:

  • صحابہ کرام نبی ﷺ کی وفات کے بعد اُن کو وسیلہ نہیں بناتے تھے۔
  • بلکہ زندہ نیک شخص (جیسے حضرت عباسؓ) سے دعا کرواتے تھے۔

لہٰذا یہ سمجھنا کہ نبی ﷺ کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی اور اس بنیاد پر وفات کے بعد ان کا وسیلہ دے کر اللہ سے دعا کرنا، شرعاً جائز نہیں۔

نتیجہ

فوت شدہ شخصیت کو وسیلہ بنانا، خواہ وہ نبی ﷺ ہی کیوں نہ ہوں، قرآن، حدیث اور صحابہ کے عمل سے ثابت نہیں۔ لہٰذا:

  • فوت شدگان کو وسیلہ بنانا ناجائز اور حرام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1