باغ فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کیوں نہ ملا؟
تعارف
باغِ فدک ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین منزلوں کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مقام تاریخِ اسلام میں ایک اہم مسئلے کی صورت میں سامنے آیا جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس باغ کا مطالبہ کیا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا۔ اس جواب کی شرعی اور تاریخی بنیاد کیا ہے؟ آئیے تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
باغ فدک کا پس منظر
◈ سن 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا۔
◈ واپسی پر رسول اللہﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہلِ فدک کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسلام قبول کریں۔
◈ فدک کے سردار یوشع بن نون (یہودی) نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی۔
◈ چونکہ فدک بغیر جنگ کے صلح کی بنیاد پر مسلمانوں کے قبضے میں آیا، اس لیے اسے "مالِ فَے” کہا گیا۔
◈ یہ باغ رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آیا، اور آپؐ اس سے اپنے اہلِ خانہ پر بھی خرچ کرتے تھے اور غرباء میں بھی تقسیم کرتے تھے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مطالبہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رد
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا۔ جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:
> "انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔”
حدیثِ صحیح بخاری کی روشنی میں وضاحت
روایت:
«عن عائشه۔ أن فاطمة والعباس علیهما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقة انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يصنعه فیه إلا صنعته»
’’اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد ﷺ کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب قول النبی لا نورث ماترکنا صدقه)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
◈ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ سے فدک اور خیبر کا حصہ مانگا۔
◈ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ:
> "ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔”
◈ مزید فرمایا:
> "اللہ کی قسم! جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے کیا، میں بھی اسے ضرور کروں گا۔”
حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
روایت:
«قال لا تقسم ورثتی دینارا ماترکت بعد نفقة نسائی و مؤنة عاملی فھو صدقة»
(سنن ابی داؤد، کتاب الخراج وإلا مارۃ والفئی، باب فی صفا یارسول اللہ من الأموال، حدیث: 2974)
◈ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "میرے ورثاء میری ترکہ سے کچھ تقسیم نہیں کر سکتے، میرے بعد صرف میری بیویوں کے اخراجات اور خادم کے خرچ کے بعد باقی سب کچھ صدقہ ہوگا۔”
اہلِ تشیع کی معتبر روایت سے تائید
شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب "اصول کافی” میں امام جعفر صادق سے روایت نقل کی:
«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ……………. دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر»
(اصول کافی: 1؍32، باب صفة العلم و فضله)
◈ امام جعفر صادق نے فرمایا:
> "انبیاء درہم و دینار کا ورثہ نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ احادیث چھوڑتے ہیں، جو انہیں لے وہی اصل وارث ہوتا ہے۔”
صرف اولاد ہی نہیں، ازواج مطہرات بھی محروم
یہ قانون صرف اولاد کے لیے نہیں بلکہ ازواج مطہرات اور دیگر رشتہ داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
روایت:
«عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
◈ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ازواجِ مطہرات نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ ترکہ کا مطالبہ کریں۔
◈ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
> "کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> ‘ہم پیغمبر ترکہ نہیں چھوڑتے، جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔'”
نتیجہ
◈ تمام مذکورہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ:
➤ انبیاء کرام کی وراثت مالی نہیں ہوتی۔
➤ وہ جو چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔
◈ یہی اصول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنایا اور اسی بنیاد پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ترکہ سے حصہ نہیں دیا۔
◈ اس پر عمل کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ نے وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ خود کرتے تھے۔