سوال
نمازِ استسقاء کا طریقہ
روایت کا ماخذ اور سوال کی وضاحت:
بلوغ المرام، باب الاستسقاء میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت بیان کی گئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:
"نبی ﷺ نے نمازِ استسقاء، نمازِ عید کی طرح ادا کی۔”
(رواہ الخمسہ، وصححہ الترمذی، وابو عوانہ، وابن حبان)
سوال دو حصوں پر مشتمل ہے:
- روایت کی تخریج درکار ہے۔
- کیا اس روایت سے نمازِ استسقاء کا عید کی نماز کی طرح (زائد تکبیرات کے ساتھ) پڑھنا صحیح اور ثابت ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت کی تخریج:
یہ روایت "ثم صلی رکعتین کما یصلی فی العید”
(ترجمہ: پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز اس طرح پڑھی جیسے عید میں پڑھی جاتی ہے) کے الفاظ کے ساتھ
سند کے لحاظ سے حسن ہے۔
اس روایت کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:
- ابو داود: کتاب الصلوۃ، باب جماع ابواب صلوٰۃ الاستسقاء وتفریھا، حدیث 1165
- ترمذی: حدیث 558
- ابن ماجہ: حدیث 1266
- امام احمد بن حنبل: مسند احمد، جلد 1، صفحہ 230، 269، 355
اور اسے درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا:
- ابن حبان: الاحسان، جلد 4، صفحہ 229، حدیث 2851، مواد الظمان: 603
- ابن خزیمہ: حدیث 1405
- ابو عوانہ: صحیح ابی عوانہ، جلد 6، صفحہ 33 (القسم المفقود)
روایت کے ایک راوی ہشام بن اسحاق ہیں، جو حسن الحدیث تھے۔
- ابن خزیمہ، ترمذی اور ابن حبان نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
- حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں کہا: "صدوق” (الکاشف، جلد 3، صفحہ 194، ترجمہ 6060)
زائد تکبیرات کے ساتھ نمازِ استسقاء ادا کرنے کا حکم:
اس روایت کی بنیاد پر امام شافعیؒ اور ان کے ہم نوا علماء نے استدلال کیا کہ:
"نمازِ استسقاء میں عیدین کی طرح بارہ تکبیریں کہنا چاہئیں”
جبکہ جمہور علماء نے اس روایت کی درج ذیل تاویل کی ہے:
- اس سے مراد نماز کی دو رکعتوں کی تعداد ہے۔
- نماز میں بلند آواز سے قراءت (قراءت بالجہر) مراد ہے۔
- نماز کا خطبہ کے پہلے ہونا مراد ہے، جیسا کہ عید کی نماز میں ہوتا ہے۔
واللہ اعلم(تفصیل کے لیے دیکھئے: عون المعبود، جلد 1، صفحہ 453)
شوافع کے مؤقف کی تائید میں پیش کردہ روایت:
شوافع نے اپنے مؤقف کے ثبوت میں ایک صریح روایت بھی پیش کی ہے، لیکن:
- اس کا راوی محمد بن عبدالعزیز ہے جو منکر الحدیث ہے۔ (دیکھئے: تحفۃ الاحوذی، جلد 1، صفحہ 390)
جمہور کے مؤقف کی تائید میں پیش کردہ روایت:
جمہور نے اپنے مؤقف کے لیے المعجم الاوسط للطبرانی کی درج ذیل روایت پیش کی:
- المعجم الاوسط للطبرانی، جلد 10، صفحہ 42، حدیث 9104
لیکن:
- اس کا ایک راوی عبداللہ بن حسین بن عطاء ہے، جو ضعیف ہے۔ (دیکھئے: تقریب التہذیب، راوی نمبر 3275)
- دوسرا راوی مسعدہ بن سعد العطار ہے، جن کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔
لہٰذا یہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں۔
نتیجہ:
اس سلسلے میں امام شافعیؒ کا موقف قوی ہے، کیونکہ:
- ان کے مؤقف کی بنیاد حسن سند والی روایت پر ہے۔
- جمہور کی مؤید روایتیں ضعیف ہیں۔
تاہم جمہور کے مسلک پر بھی عمل کی گنجائش موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب