تقلید کا رد قرآن مجید سے:
1. اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾
(17-الإسراء:36)
ترجمہ:” اور جس کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کر۔ “
اس آیت کریمہ سے درج ذیل علماء نے تقلید کے ابطال (باطل ہونے) پر استدلال کیا ہے:
(1) ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (المستصفى من علم الاصول 2/389)
(2) السیوطی (الرد علی من اخلد الی الارض ص 125، 130)
(3) ابن القیم (اعلام الموقعین 2/188)
2. ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ
(9-التوبة:31)
ترجمہ: ”انھوں نے اپنے احبار (مولویوں) اور رہبان (پیروں) کو، اللہ کے سوا رب بنالیا۔ “
اس آیت کریمہ سے درج ذیل علماء نے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے:
➊ ابن عبدالبر (جامع بیان العلم وفضله ج 2 ص 109)
➋ ابن حزم (الاحکام فی اصول الاحکام ج 6 ص 283)
➌ ابن القیم (اعلام الموقعین ج 2 ص 190)
➍ السیوطی (الرد على من اخلد إلى الأرض ص 120)
➎ الخطيب البغدادی (الفقيه والمتفقه ج 2 ص 66)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد احتج العلماء بهذه الآيات فى إبطال التقليد ولم يمنعهم كفر أولئك من الإحتجاج بها، لأن التشبيه لم يقع من جهة كفر أحدهما وإيمان الآخر، وإنما وقع التشبيه بين المقلدين بغير حجة للمقلد
علماء نے ان آیات کے ساتھ، ابطال تقلید پر استدلال کیا ہے۔ انھیں (ان آیات میں مذکورین کے) کفر نے استدلال کرنے سے نہیں روکا، کیونکہ تشبیہ کسی کے کفر یا ایمان کی وجہ سے نہیں ہے، تشبیہ تو مقلدین میں بغیر دلیل کے (اپنے) مقلد (امام، راہنما) کی بات ماننے میں ہے۔
(اعلام الموقعین ج 2 ص 191)
3. رب العالمین فرماتا ہے:
﴿قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾
(2-البقرة:111، 16-النحل:64)
ترجمہ: ”کہو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ “
آیت کریمہ سے درج ذیل علماء نے تقلید کے باطل ہونے پر استدلال کیا ہے:
➊ ابن حزم (الاحکام ج 6 ص 275)
➋ الغزالی (المستصفى ج 2 ص 389)
➌ السیوطی (الرد على من اخلد الى الارض ص 130)
دیگر دلائل کے لئے مذکورہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔
تقلید کا رد احادیث سے:
1 : اس میں کوئی شک نہیں کہ تقلید مذاہب اربعہ بدعت ہے۔ حافظ ابن القیم نے فرمایا:
وانما حدثت هذه البدعة فى القرن الرابع المذموم على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم
اور تقلید کی یہ بدعت چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ہے جس صدی کی مذمت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنی مقدس زبان سے بیان فرمائی ہے۔
(اعلام الموقعین ج 2 ص 208)
حافظ ابن حزم نے کہا:
انما حدث التقليد فى القرن الرابع
تقلید مذاہب اربعہ کی تقلید چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ہے۔
(کتاب ابطال التقلید بحوالہ الرد على من اخلد الى الارض ص 133)
بدعت کے بارے میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
وكل بدعة ضلالة
” اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
(صحیح مسلم کتاب الجمعة باب تخفیف الصلوة والخطبة ح 868 وتر تیم دارالسلام 2005)
2 : گزشتہ صفحات پر باحوالہ عرض کر دیا گیا ہے کہ تقلید مروجہ میں کتاب و سنت کے بجائے بلکہ کتاب و سنت کے مقابلے میں اپنے مزعومہ امام یا فقہ کی آراء و اجتہادات کی پیروی کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قیامت سے پہلے کی ایک نشانی یہ بھی بیان فرمائی ہے:
فيبقى ناس جهال يستفتون فيفتون برأيهم فيضلون ويضلون
”پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
(صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب ما یذکر من ذم الرأي ح 7307)
تنبیہ:
امام طبرانی رحمہ اللہ (متوفی 360ھ) فرماتے ہیں:
حدثنا مطلب قال: حدثنا عبد الله قال وبه حدثني الليث قال قال يحيى بن سعيد: حدثني ابو حازم عن عمرو بن مرة عن معاذ بن جبل رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اياكم وثلاثة زلة عالم وجدال منافق ودنيا تقطع اعناقكم فاما زلة عالم فان اهتدى فلا تقلدوه دينكم وان زل فلا تقطعوا عنه امالكم الخ
”تین چیزوں سے بچو: عالم کی غلطی، منافق کا قرآن لے کر مجادلہ کرنا اور دنیا جو تمہاری گردنوں کو کاٹے گی۔ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو تو دین میں اس کی تقلید نہ کرو، اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے ناامید نہ ہو جاؤ۔ الخ“
(معجم الاوسط ج 9 ص 326-327 ح 8709-8710)
روایت کی تحقیق:
مطلب بن شعیب کی توثیق جمہور نے کی ہے، دیکھئے لسان المیزان (ج 1 ص 50)۔ ابو صالح عبد الله بن صالح کا تذکرہ لیث: صدوق كثير الغلط ثبت فى كتابه وكانت فيه غفلة ہے (التقریب 3388)۔ اس کی روایات صحیح بخاری (ج 4 ص 789) وغیرہ میں ہیں۔ لیث بن سعد: ثقة ثبت فقیہ امام مشہور ہیں (التقریب 5684)۔ یحیی بن سعید (الانصاری): ثقة ثبت ہیں (التقریب 7559)۔ ابوحازم کا تعین نہیں ہو سکا، ممکن ہے اس سے مراد سلمہ بن دینار الاعرج: ثقة عابد ہو (التقریب 2489) والله اعلم۔
عمرو بن مرة: ثقة عابد كان لا يدلس ورمي بالارجاء ہیں (التقریب 5112)۔
معاذ بن جبل رضي الله عنه جلیل القدر صحابی ہیں لیکن عمرو بن مرة کی ان سے ملاقات نہیں ہے لہذا یہ سند منقطع ہے اور اصطلاح فقہاء میں مرسل ہے۔ اسے امام لالکائی نے
عبدالله بن وهب حدثني الليث بن سعد عن يحيى بن سعيد عن خالد بن ابي عمران عن ابي حازم عن عمرو بن مرة عن معاذ بن جبل رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الخ کی سند سے روایت کیا ہے۔
(شرح اعتقاد اصول اهل السنة ص 116-117 ح 183)
خالد بن ابی عمران: فقیہ صدوق ہیں (التقریب 1662)۔
معلوم ہوتا ہے کہ الاوسط کی سند سے خالد بن ابی عمران کا واسطہ گر گیا ہے۔ یہاں یہ بھی قرینہ ہے کہ اس سے پہلے روایات میں خالد مذکور کا واسطہ موجود ہے (الاوسط 8708-8709)۔
نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔
تنبیہ:
لالکائی سے منسوب کتاب شرح اعتقاد اصول اہل السنة باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
3 : چونکہ تقلید کرنے والا کتاب و سنت کو رد کر دیتا ہے لہذا اتباع کتاب و سنت کی دلالت کرنے والی تمام آیات و احادیث کو تقلید کے ابطال پر پیش کرنا جائز ہے۔
تقلید کا رد اجماع سے:
صحابہ کرام رضي الله عنهم اور سلف صالحین نے تقلید سے منع کیا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے، ان کا کوئی مخالف نہیں جو تقلید کو جائز کہتا ہو، لہذا خیر القرون میں اس پر اجماع ہے کہ تقلید ناجائز ہے۔ حافظ ابن حزم فرماتے ہیں:
وقد صح اجماع جميع الصحابة رضي الله عنهم اولهم عن اخرهم واجماع جميع التابعين اولهم عن اخرهم على الامتناع والمنع من ان يقصد منهم احد الى قول انسان منهم او ممن قبلهم فياخذه كله فليعلم من اخذ بجميع قول ابي حنيفة او جميع قول مالك او جميع قول الشافعي او جميع قول احمد بن حنبل رضي الله عنهم ممن يتمكن من النظر ولم يترك من اتبعه منهم الى غيره قد خالف اجماع الامة كلها عن اخرها واتبع غير سبيل المؤمنين نعوذ بالله من هذه المنزلة وايضا فان هؤلاء الافاضل قد منعوا عن تقليدهم وتقليد غيرهم فقد خالفهم من قلدهم
اول سے آخر تک تمام صحابہ رضي الله عنهم اور اول سے آخر تک تمام تابعین کا اجماع ثابت ہے کہ ان میں سے یا ان سے پہلے نبی صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کسی انسان کے تمام اقوال قبول کرنا منع اور ناجائز ہے۔ جو لوگ ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رضي الله عنهم میں سے کسی ایک کے سارے اقوال لے لیتے یعنی تقلید کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ علم بھی رکھتے ہیں اور ان میں سے جس کو اختیار کرتے ہیں اس کے کسی قول کو ترک نہیں کرتے، وہ جان لیں کہ وہ پوری امت کے اجماع کے خلاف ہیں۔ انھوں نے مومنین کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہم اس مقام سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام فضیلت والے علماء نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے پس جو شخص ان کی تقلید کرتا ہے وہ ان کا مخالف ہے۔
(النبذة الكافية في احکام اصول الدین ص 83 بحوالہ الرد على من اخلد الى الارض للسیوطی ص 131-132)