نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین
رفع یدین سے متعلق جھوٹی روایت کا رد
سوال کا پس منظر: اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا نماز میں رفع یدین کرنا جائز ہے؟ بعض حضرات یہ جواب دیتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ بغلوں میں بت چھپا کر لاتے تھے، اس لیے رفع یدین کا حکم دیا گیا تاکہ وہ ظاہر ہو جائیں۔ یہ دعویٰ سراسر جھوٹا اور بے بنیاد ہے، جس کی کوئی معتبر حدیثی سند موجود نہیں۔
رفع یدین کی صحیح احادیث سے تائید
نبی کریم ﷺ کا عمل
✅ صحیح بخاری (حدیث: 736) اور صحیح مسلم (حدیث: 390) میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
"میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے، رکوع میں جاتے وقت بھی ایسے ہی کرتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی، اور فرماتے:
"سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ”
لیکن سجدہ کرتے وقت ایسا نہ کرتے۔”
(صحیح بخاری، ج1، ص102)
صحابہ کرامؓ کا عمل
عبداللہ بن عمرؓ خود بھی رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرتے اور کہتے:
"نبی ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے”
(صحیح بخاری: 739، شرح السنۃ للبغوی 3/21، حدیث 560، "ھذا حدیث صحیح”)
سالم بن عبداللہ بن عمرؓ (سیدنا ابن عمر کے بیٹے):
وہ بھی رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرتے تھے
(حدیث السراج 2/34، 35، حدیث 115، سند صحیح)
عبداللہ بن زبیرؓ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے بھی رفع یدین ثابت ہے
(السنن الکبری للبیہقی 2/73، الذہبی فی المذہب 49/2، حدیث 1943: "رواتہ ثقات”، سند صحیح)
تابعین و تبع تابعین کا عمل
عطاء بن ابی رباحؒ (مشہور تابعی):
وہ بھی شروع نماز، رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرتے تھے
(السنن الکبری للبیہقی 2/73، ابن حجر فی التخلیص الحبیر، ص219، حدیث 328: "درجالہ ثقات”)
ایوب السختیانیؒ (عطاء کے شاگرد):
نماز میں رفع یدین کا عمل کرتے تھے
(السنن الکبری للبیہقی 2/73، سند صحیح)
ابو النعمان محمد بن الفضلؒ (ایوب کے شاگرد):
وہ بھی رفع یدین کرتے تھے
(السنن الکبری للبیہقی 2/73، سند صحیح)
امام بخاریؒ (ابو النعمان کے شاگرد):
آپ نے رفع یدین کے جواز پر مستقل کتاب لکھی: "جزء رفع الیدین”
رفع یدین کی تسلسل سے موجودگی
📌 رفع یدین کا عمل:
◈ دور نبوی
◈ دور صحابہ
◈ دور تابعین
◈ دور تبع تابعین
◈ اور اس کے بعد بھی تمام ادوار میں تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔
لہٰذا اس پر اعتراض کرنا یا جھوٹی کہانیاں گھڑنا احادیث اور سلف صالحین کے عمل کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
اگر رفع یدین منسوخ ہوتا تو…؟
اگر رفع یدین کا عمل منسوخ ہوتا:
تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ جیسی عظیم ہستی اسے کبھی نہ اپناتے،
کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آخری نمازیں ادا کیں،
حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو امام بھی مقرر کیا۔
📘 مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے:
"نور العین فی (اثبات) مسئلہ رفع یدین” (ص119، ا21)
الحمدللہ، 17 دسمبر 2008ء
واللہ أعلم بالصواب