دین کے 10 اصول جہاں سلف صالحین کا فہم لازم ہے

غلط فہمی:

غیر معصوم امتیوں کے اقوال کا تقلیدی سہارا یہ بات کہی جاتی ہے کہ نماز نبوی سے متعلقہ تحقیق میں 450 مقامات پر غیر معصوم امتیوں کے اقوال کا تقلیدی سہارا لے کر احادیث کو صحیح یا حسن قرار دیا گیا ہے۔

ازالہ:

فہم دین میں سلف صالحین کی اقتداء ہی نجات کا راستہ ہے
ہمیں دین کو ویسے ہی سمجھنا اور اسی طرح اس پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا، کیونکہ:

◈ انہوں نے قرآن کی تفسیر براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی۔

◈ وہ معیاری مسلمان تھے اور ان کا فہم ہی حق کی پہچان ہے۔

صحابہ کرام کا منہج: حق کی پہچان

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة”
کہ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے۔
عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سا گروہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا:
"ما أنا عليه وأصحابي”
’یہ وہ جماعت ہو گی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں‘۔
(ترمذی 5652)

اس حدیث سے واضح اشارہ:

سنتِ رسول اور صحابہ کرام کے طریقے کا قیامت تک محفوظ رہنا لازم ہے۔
جو چیز محفوظ نہ ہو، وہ نجات یافتہ گروہ کی علامت نہیں بن سکتی۔

اختلافات کے دور میں رہنمائی کا راستہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل بدعة ضلالة”
’’تم میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے۔ اس وقت تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔ اس پر مضبوطی سے جمے رہنا، دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
(ابن ماجہ 74)

نکتہ:

فتنوں سے بچاؤ کا واحد راستہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی۔

خلفاء اور صحابہ کی اقتداء کا حکم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اقتدوا باللذين من بعدي: أبي بكر وعمر”
’’میرے بعد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرتے رہنا۔‘‘
(ابن ماجہ 79)

"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين…”
’’میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کر کے میری سنت کی حفاظت کرو پھر تابعین اور تبع تابعین کے طریقہ پر چلو پھر اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا۔‘‘
(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، 3632)

ابتدائی تین زمانے: معیارِ حق

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"خير أمتي قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه، ويمينه شهادته”
’’میری امت میں بہترین زمانہ میرا ہے۔ پھر اس کے بعد والا (تابعین کا) زمانہ پھر اس کے بعد والا (تبع تابعین کا) زمانہ پھر ایسی قومیں پیدا ہونگی جو بغیر مطالبے کے جھوٹی گواہیاں دیں گی اور خیانت کریں گی اس لیے انہیں امین نہیں بنایا جائے گا اور ان میں موٹاپا عام ہو جائے گا۔‘‘(مسلم 5352، ترمذی 0181)

نتیجہ:

دین کا درست فہم صرف پہلے تین زمانوں میں پایا جاتا ہے۔
بعد والوں کے لیے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ انہی کے پیچھے چلیں۔

فہمِ سلف: کتاب و سنت کو سمجھنے کا درست طریقہ

قرآن و سنت کو سیکھنے کے لیے صرف محنت، ذہانت اور زبان کا جاننا کافی نہیں۔
ضروری ہے کہ موجودہ فہم کو سلف کے منہج پر پرکھا جائے۔
کتاب و سنت کی کسوٹی پر اپنے فہم کو نہیں بلکہ سلف کے فہم کو رکھنا ہوگا۔

فائدہ:

دین میں کوئی نیا راستہ بنانے کی ضرورت نہیں۔
سلف کے راستے پر چلنا ہی نجات کا راستہ ہے۔
اس طریقے سے کوئی بھی شخص کتاب و سنت کے ساتھ کھیل نہیں سکتا۔

فہمِ سلف سے ہٹنا: موجودہ دور کا المیہ

آج کل لوگ چند آیات یا احادیث کا ترجمہ پڑھ کر اپنی ایک نئی "اسلامی تعبیر” پیش کرتے ہیں۔
پھر اپنی سمجھ کو حق اور دوسروں کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے پیروکار ان کی تعبیر کو کتاب و سنت سمجھ کر اپناتے ہیں۔
نتیجتاً اخلاص کے باوجود امت میں فرقہ بندی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔

طائفہ منصورہ: ہمیشہ حق پر قائم رہنے والا گروہ

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق، لا يضرهم من خذلهم ولا من خالفهم حتى يأتي أمر الله وهم كذلك”
’’میری امت سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا، ان کو رسوا کرنے والا ان کو کوئی ضرر نہ پہنچائے گا تا آنکہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ اسی حالت میں ہوں
(مسلم)

علماء حق: انبیاء کے وارث

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"العلماء ورثة الأنبياء”
’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ‘‘
(ابو داؤد 1463)

یہ علماء کون ہیں؟

◈ صحابہ کرام
◈ تابعین عظام
◈ ائمہ حدیث
◈ فقہا کرام
◈ امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام محمد بن عبدالوہاب اور ان کے شاگرد رحمہم اللہ
یہ تمام طائفہ منصورہ کے وہ چمکتے ستارے ہیں جنہیں علماء حق اپنا امام مانتے ہیں۔

فہمِ سلف: اہل حدیث کا طریقہ

ان علماء کے بیان کردہ فہم کو پیش کرنا اہل رائے کا نہیں بلکہ اہل حدیث کا طریقہ ہے۔
جن مسائل میں سلف صالحین کا اجماع ہے، ان میں نئی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں۔
جو کچھ سلف نے کہا، وہی حق ہے اور اس کو ماننا واجب ہے۔
جہاں سلف میں اختلاف ہوا، حق انہی کے اقوال میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے۔
تحقیق کا دائرہ سلف کے اختلاف کی حد تک محدود ہونا چاہیے۔
یہ کام صرف وہی علماء کریں جو سلف کے پیروکار ہوں اور دین کو گہرائی سے سمجھتے ہوں۔

ایک طالب علم کا منہج

طالبعلم کو منہج سلف ہی بیان کرنا چاہیے۔
ہم علماء کی وضاحت اس لیے کرتے ہیں کہ:
◈ ہم قرآن و سنت کو ناکافی نہیں سمجھتے۔
◈ بلکہ طائفہ منصورہ کے علماء ہر دور میں ان آیات و احادیث کی درست تشریح کرتے آئے ہیں۔

فنِ حدیث میں ماہرین کی ضرورت

احادیث کو صحیح، حسن یا ضعیف کہنا صرف فنِ حدیث کے ماہرین کا حق ہے۔
ایک طالب علم کو ان ہی سے رجوع کرنا چاہیے۔

جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:

(فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) (النحل: 43)
"اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو۔”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1