قبر کشائی، زیارتِ قبور اور مُردوں سے متعلق چند اہم احادیث
قبر کشائی کی اجازت اور ایک مثال
حدیث:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد جنگِ اُحد میں شہید ہوئے۔ انہیں ایک اور شخص کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا، لیکن جابر رضی اللہ عنہ کا دل اس پر مطمئن نہ ہوا۔ چھ ماہ بعد انہوں نے اپنے والد کو قبر سے نکالا اور الگ دفن کیا۔ ان کا جسم ایسا تھا جیسے ابھی دفن کیا گیا ہو۔
(بخاری، الجنائز، ھل یخرج المیت من القبر، ۱۵۳۱)
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شدید ضرورت پیش آئے تو میت کو قبر سے نکالا جا سکتا ہے۔
قبروں کی زیارت کی اجازت اور اس کا مقصد
حدیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب تم ان کی زیارت کیا کرو۔”
(مسلم، الجنائز، باب استئذان النبی ربہ عز و جل فی زیارۃ قبر امہ: ۷۷۹)
مزید وضاحت:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، خود بھی روئے اور جو آپ کے ساتھ تھے وہ بھی روئے۔ پھر آپ نے فرمایا:
"میں نے اپنی والدہ کی بخشش کی دعا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت مانگی، مجھے اجازت نہیں ملی، پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی پس مجھے اجازت دے دی گئی۔ پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ قبروں کی زیارت موت یاد دلاتی ہے۔”
(مسلم: ۶۷۹)
عورتوں کا قبرستان جانا
حدیث:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔”
(ترمذی، الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ زیارۃ القبور للنساء: ۵۵۰۱۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا)
شیخ البانی رحمہ اللہ کی وضاحت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع فرمایا، مگر بعد میں اس کی اجازت دے دی، لہٰذا یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورت کو نصیحت کرنا
واقعہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی، آپ نے اسے اللہ سے ڈرنے اور صبر کرنے کی تلقین فرمائی۔
(بخاری، الجنائز، باب قول الرجل للمراۃ عند القبر اصبری: ۲۵۲۱۔ مسلم، الجنائز، باب فی الصبر علی المصیبۃ عند الصدمۃ الاولی: ۶۲۹)
فائدہ:
اگر عورتوں کا قبرستان جانا مکمل طور پر ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو وہاں سے جانے کا حکم دیتے۔
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی قبر کی زیارت
واقعہ:
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی سیدنا عبدالرحمن کی قبر کی زیارت کی۔ ان سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا؟ تو انہوں نے فرمایا:
"پہلے منع کیا تھا، پھر اجازت دے دی گئی تھی۔”
(مستدرک حاکم (۱/۶۷۳)؛ حافظ ذہبی اور حافظ عراقی رحمہما اللہ نے اس روایت کو صحیح اور جید قرار دیا)
دعا کی تعلیم:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جب میں قبرستان جاؤں تو کیا دعا پڑھوں؟ آپ نے مخصوص دعا سکھائی۔
(مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا: ۴۷۹)
نتیجہ:
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا کبھی کبھار قبرستان جانا جائز ہے، بشرطیکہ وہاں صبر و ضبط اور اسلامی آداب کا خیال رکھا جائے۔
عورتوں کے لیے کثرت سے زیارت کی ممانعت
وضاحت:
◈ عورتوں میں صبر کا مادہ نسبتاً کم ہوتا ہے۔
◈ وہ شرکیہ اعمال میں جلدی مبتلا ہو سکتی ہیں۔
◈ قبروں کی زیارت اس لیے مشروع نہیں کہ وہاں شرک و بدعت کی جائیں، بلکہ اس کا مقصد موت کی یاد دہانی ہے۔
مُردوں کو برا کہنے سے ممانعت
حدیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مُردوں کو برا نہ کہو، وہ تو آگے بھیجے ہوئے (اعمال) کی طرف چلے گئے ہیں۔”
(بخاری، الجنائز، باب ما ینھی من سب الاموات: ۳۹۳۱)