قبر پر نماز جنازہ اور غائبانہ نماز جنازہ کا شرعی جائزہ
قبر پر نماز جنازہ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی، جسے پچھلی رات دفن کر دیا گیا تھا۔
بخاری: 0431 مسلم، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر: 459
فقہی استدلال:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی میت کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکا ہو تو وہ بعد میں قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کر سکتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
ایک سیاہ فام خاتون مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھیں، ان کا انتقال ہو گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے انتقال کی اطلاع نہ دی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں پوچھا تو صحابہ نے بتایا کہ وہ فوت ہو چکی ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔‘‘
صحابہ نے قبر دکھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا:
’’یہ قبریں تاریکی اور ظلم سے بھری ہوتی ہیں۔ میری نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کو منور فرما دیتا ہے۔‘‘
بخاری، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن: 7331 مسلم: 659
نکات:
❀ مسجد کی صفائی کرنے والوں کو دین میں بڑا مقام حاصل ہے۔
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر غیبی بات کا علم عطا نہیں کیا گیا تھا۔
غائبانہ نماز جنازہ
واقعہ وفاتِ نجاشی رحمہ اللہ:
جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی رحمہ اللہ کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ باہر تشریف لائے، صف بندی کی، اور چار تکبیروں کے ساتھ ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
بخاری، کتاب الجنائز، باب الرجل ینعی الی اہل المیت بنفسہ: 5421 مسلم: 159 ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاۃ علی النجاشی: 1537
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے بھائی کی نماز جنازہ ادا کرو کیونکہ وہ سرزمین غیر میں فوت ہوا۔”
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور اُحد کے شہداء کے لیے ایسے نماز پڑھی جیسے میت پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔‘‘
بخاری: 1343 مسلم، کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبینا: 2296
استدلال:
امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے مطابق غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے۔
غائبانہ نماز جنازہ کا اختلافی پہلو
دلائل عدمِ معمول:
❀ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں غائبانہ نماز جنازہ کو عمومی معمول نہیں بنایا گیا۔
❀ اگر یہ عمل معمول ہوتا، تو خلفائے راشدین کی وفات پر پوری اسلامی ریاست میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جاتی، جبکہ ایسا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں۔
اقوالِ محدثین و محققین:
➊ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ:
’’اگر غائب پر نماز جنازہ جائز ہوتی تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے، اسی طرح دنیا کے مختلف حصوں میں فوت ہونے والے خلفائے راشدین کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے، لیکن ایسا کسی روایت سے ثابت نہیں۔‘‘
➋ امام ابن قیم رحمہ اللہ:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے ایسے افراد کا انتقال ہوا جو آپ سے دور تھے، مگر آپ نے ان میں سے کسی کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا نہیں کی۔‘‘
نتیجہ:
غائبانہ نماز جنازہ بعض مواقع پر جائز ہو سکتی ہے، لیکن یہ عمومی معمول نہیں ہے۔
بعض ائمہ اور محققین اس عمل کے عدم جواز کے قائل ہیں، جبکہ امام شافعی و احمد رحمہما اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔