نماز کی مکروہات کا بیان
نماز ایک عظیم عبادت ہے، اور اس کی ادائیگی کے دوران مکمل خشوع و خضوع اور آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ بعض امور ایسے ہیں جو اگرچہ نماز کو باطل نہیں کرتے، مگر ان کی موجودگی نماز کی شان کے خلاف ہوتی ہے اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ ان امور کو "مکروہاتِ نماز” کہا جاتا ہے۔ ذیل میں چند ایسی مکروہات کا تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے:
➊ کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران کمر پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
(بخاری، العمل فی الصلاۃ، باب الخصر فی الصلاۃ، 1220۔ مسلم، المساجد، باب کراھۃ الاختصار فی الصلاۃ، 545)
➋ جمائی لینا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے حتی المقدور روکے کیونکہ اس وقت شیطان منہ میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
(مسلم، الزھد، باب تشمیت العاطس و کراھیۃ التثاؤب، 2995)
مزید فرمایا:
’’(جمائی کے وقت) ہا ہا (نہ کہو کیونکہ اس) سے شیطان خوش ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، 3289)
➌ فرض اور سنت کے درمیان کلام نہ کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ایک صحابی فرض کے فوراً بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بیٹھ جاؤ، اہل کتاب اس لیے برباد ہوئے کہ ان کی نمازوں میں فاصلہ نہیں تھا۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ابن خطاب نے صحیح کہا۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی 9252)
سیدنا سائب بن یزید نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقصورہ میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ سلام کے بعد سائب رضی اللہ عنہ نے فوراً نماز شروع کر دی، تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے منع کرتے ہوئے فرمایا:
"آئندہ ایسا نہ کرنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملاؤ۔ ان (فرض اور سنت) کے درمیان کلام کرو یا جگہ تبدیل کرو۔‘”
(مسلم، الجمعۃ، باب الصلاۃ بعد الجمعۃ، حدیث 388)
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام جس جگہ نماز پڑھ چکا ہے وہاں نماز نہ پڑھے بلکہ وہاں سے سرک جائے (یعنی جگہ تبدیل کر لے)۔”
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب: الإمام یتطوع فی مکانہ: 616)
➍ نماز میں باتیں کرنا
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ہم نماز میں باتیں کیا کرتے تھے، پھر
﴿حَافِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰتِ﴾
نازل ہوئی تو ہمیں چپ رہنے کا حکم ہوا اور بات کرنا منع ہو گیا۔”
(بخاری، العمل فی الصلاۃ، باب ما ینھی من الکلام فی الصلاۃ، 1200، مسلم، حدیث 539)
◈مسئلہ کی لاعلمی کی صورت میں:
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے نماز میں کہہ دیا ’یرحمک اللہ‘۔ لوگوں نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے کہا: ’ہائے میری ماں مجھے گم پائے، تم مجھے (غصے سے) کیوں دیکھ رہے ہو؟‘ اس پر انہوں نے اپنی رانوں کو اپنے ہاتھوں سے مارا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں۔ میں خاموش ہو گیا۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا:
"بلا شبہ نماز میں گفتگو جائز نہیں۔ نماز میں صرف اللہ کی تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہونی چاہیے۔”
راوی کہتے ہیں:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے آپ جیسا معلم نہ آپ سے پہلے دیکھا، نہ بعد میں، جو تعلیم دینے میں آپ سے بہتر ہو۔ اللہ کی قسم! نہ آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا، نہ سختی کی۔”
(مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ، 537)
اگر لاعلمی کی بنا پر بات کرنے سے نماز باطل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابی کو نماز دہرانے کا حکم دیتے، لیکن ایسا نہیں فرمایا۔