کیا شرک سے متعلق آیات پتھر کے بتوں اور مورتیوں سے متعلق ہیں؟
تحریر: ابو الاسجد محمد صدیق رضا

ایک شیطانی وسوسہ

شیطان لعین نے بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال رکھا ہے کہ شرک کی مذمت میں نازل ہونے والی تمام آیات تو پتھر کے بتوں اور مختلف مورتیوں سے متعلق ہیں نہ کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین رحمہم اللہ سے متعلق ، وہ تو قیامت کے دن ہر طرح سے ہماری مدد اور شفاعت کریں گے۔

وسوسے کا ازالہ

یہ شیطان لعین کی انتہائی خطرناک چال ہے یہ وسوسہ ڈال کر وہ بے شمار انسانوں کو گمراہی کا شکار کر چکا ہے، بلاشبہ انبیائے کرام علہیم السلام اللہ کے اذن سے شفاعت کریں گے لیکن صرف اور صرف موحدین کی جو عقیدہ توحید کے حامل ہوں گے ، شرک سے کوسوں دور ہوں گے اور جو لوگ شرک میں مبتلا ہیں اُن سے بیزاری کا اعلان کریں گے، جیسا کہ سورۃ مائدہ میں سیدنا عیسی علیہ السلام سے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ اب جہاں تک مسئلہ پتھر کے بتوں اور مورتیوں کا ہے تو سیدنا عیسی علیہ السلام اور اُن کی والدہ محترمہ سیدہ مریم (معاذ اللہ ثم معاذ الله ) محض پتھر کے بت تو نہیں بلکہ اللہ کے پیارے محبوب بندے ہیں، لیکن قرآن مجید کی رُو سے وہ بھی بیزاری کا اعلان کریں گے۔
پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ ابتدائے شرک سے لے کر آج تک بتوں کی پرستش کرنے والے محض خیالی طور پر بنائے گئے بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ ان بتوں کے پیچھے کئی ایک سچی یا جھوٹی تاریخی داستانیں ہوتی ہیں جن میں ان کی نیکی یا کارناموں کا ذکر ہوتا ہے اور ان میں سے بعض تو واقعی نیک لوگ بھی ہوئے ہیں جیسا کہ سورہ نوح میں ہے:
﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾
”اور انھوں نے کہا کہ ہرگز اپنے الہوں (معبودوں ) کو نہ چھوڑنا اور نہ ود، سُواع ، یغوث ، یعوق اور نسر کو چھوڑنا۔ “ [نوح: 23]
مفسر قرآن حبر الامہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں ان پانچوں بتوں سے متعلق فرماتے ہیں:
«أسماء رجال صالحين من قوم نوح ، فلما هلكوا أوحى الشيطان إلى قومهم: أن انصبوا إلى مجالسهم التى كانوا يجلسون أنصابا وسموها بأسمائهم، ففعلوا، فلم تعبد، حتى إذا هلك أولئك وتنسخ العلم عبدت»
یہ (پانچوں) نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک صالح افراد کے نام ہیں، جب یہ فوت ہوئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں ڈالا کہ مجلسوں میں جہاں یہ بیٹھتے تھے بت نصب کر لیں اور ان بتوں پر ان (صالحین ) کے نام رکھ دیں، پس قوم کے لوگوں نے ایسا ہی کیا پس جب یہ لوگ مر گئے (جنھوں نے ایسا کیا تھا ) لوگوں کو اصل حقیقت کا علم نہ رہا تھا تو ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔ (صحیح البخاری: 4920)
اور پھر جب نوح علیہ السلام نے انھیں توحید کی دعوت دی تو وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے بلکہ مقابلے پر آ ڈٹے۔
اسی طرح آج بھی بتوں کی پوجا کرنے والے جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کی طویل داستانیں سناتے ہیں بدھا، کرشن کنھیا، سیتا، کالی الغرض کہ ہر بت سے متعلق من گھڑت کرشمہ جات کی ایک طویل داستان ہے اور (کہتے ہیں کہ ) یہ بھی جیتے جاگتے انسان تھے۔

شرک کی قباحت مسلمہ ہے

اسلام کا کوئی مدعی شرک کی قباحت و شناعت سے انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ اسلام میں شرک جیسے قبیح ترین فعل کے لئے جواز یا گنجائش موجود ہے۔ الحمد للہ ! اسلام کا مدعی ہر فرد یہ جانتا اور مانتا ہے کہ اسلام میں شرک جیسے انتہائی مکروہ عمل کی رتی برابر گنجائش نہیں، شرک سے اللہ سخت نفرت کرتا ہے، شرک کر نے والا اگر بغیر توبہ کے مر جائے تو اُس کی مغفرت بھی نہیں ہوگی، اُس پر جنت حرام ہے اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے