تذکرہ اللہ کے 29 حقیقی اولیاء کرام کا۔۔
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے اولیاء ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت بیان کی ہے۔ قرآن کی آیات مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں ۔ ذیل میں ہم ان آیات مبارک کا ذکر کرتے ہیں۔
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾
[التوبة:100]
”اور جو مہاجرین اور انصار میں سے وہ اولین لوگ جنہوں نے ہجرت کرنے ، اور ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت کی ، اور دوسرے وہ لوگ جو اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ، اللہ ان سب سے راضی ہوا، اور وہ سب اس سے راضی ہوئے ، اور اللہ نے ان کے لیے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہر میں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔“
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
[المجادلة:22]
”اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے، گووہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے ،یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے، اور ان کی تائید اپنی نصرت خاص سے کی ہے، اور انہیں جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہی لوگ ہی اللہ کی جماعت کے والے ہیں ۔ آگاہ رہو! بے شک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں ۔“
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾
[الفتح: 29]
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بڑے سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں، اللہ کے فضل اور رضامندی کی تلاش میں رہتے ہیں ، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ، ان کی یہی صفت تو رات میں ہے، اور ان کی یہ صفت انجیل میں ہے ۔ مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اسے مضبوط کیا، اور وہ موٹا ہو گیا، پھر اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا ہو گیا، اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تا کہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ، ان ایمان والوں اور شائستہ اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا، اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔“
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن عبد الله رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: خير الناس قرني ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم
صحيح البخاری، کتاب الشهادات، باب لا يشهد على شهادة جور اذا أشهد ، رقم: 2652
”بہتر لوگ میرے زمانہ کے (صحابہ رضی اللہ عنہم ) ہیں ، پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جوان کے بعد ہوں گے۔“
عن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تسبوا أصحابي ، لا تسبوا أصحابي ، فو الذى نفسي بيده لو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ، ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه
صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سب الصحابة صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 2540
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو۔ میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی ایک اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، وہ ان کے ایک مدبلکہ نصف مد کے ( درجہ کو بھی ) نہیں پاسکتا۔“

1- سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے غار ثور میں فرمایا تھا:
قال: ما ظنك باثنين الله ثالثهما
صحیح بخاری، کتاب التفسير، رقم: 4663
”ان دو کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔“
عن عائشة قالت: قال لي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، فى مرضه: أدعى لى آباك أبابكر وأخاك ، حتى أكتب كتابا ، فإني أخاف أن يتمنى متمن ويقول قائل: أنا اولى، ويأبى الله والمؤمنون إلا آبا بكر
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل ابى بكر رضی اللہ عنہ ، رقم: 2387
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ” اپنے والد ابوبکر اور بھائی کو میرے پاس بلا ؤ، تا کہ میں کوئی تحریر لکھوں، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے، اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں سب سے بہتر ہوں ۔ حالانکہ اللہ اور سب اہل ایمان، ابو بکر کے سوا سب کا انکار کریں گے ۔“
عن عبد الله بن مسعود يحدث، عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم : أنه قال: لو كنت متـخـذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ، ولكنه أخي وصاحبي، وقد اتخذ الله ، عزوجل، صاحبكم خليلا
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابه، باب من فضائل ابى بكر الصديق رضی اللہ عنہ ، رقم: 2383
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر میں نے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بتاتا لیکن وہ میرا بھائی اور رفیق سفر ہے۔ بلاشبہ تمہارا ساتھی (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ تعالیٰ کا دوست ہے ۔“
عن أنس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا بي بكر وعمر : هذان سيدا كهول أهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين
سنن الترمذي ، كتاب المناقب، رقم: 3664۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح کہا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ دونوں ( ابوبکر وعمر ) انبیاء اور رسولوں کے علاوہ باقی تمام اگلے پچھلے بوڑھے جنتیوں کے سردار ہیں ۔“
عن مـحـمـد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه قال: أتت امرأة النبى صلى الله عليه وسلم فأمرها أن ترجع إليه قالت: أرأيت إن جئت ولم اجدك؟ – كأنها تقول: الموت – قال صلى الله عليه وسلم : إن لم تجدني فأتي آبابكر
صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابه، رقم: 3659 – صحیح مسلم رقم 2386
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کسی معاملہ میں آپ سے گفتگو کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر آنے کا حکم فرمایا ، اس نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔“
عن عائشة ، أن أبا بكر دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنت عتيق الله من النار
سنن ترمذی ، کتاب المناقب ، باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہا ، رقم : 3679 – البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تجھ کو آگ سے آزاد کر دیا ہے ۔“ اس دن سے ان کا لقب عتیق ( آزاد کیا ہوا) پڑ گیا۔

2 ۔ سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ

عن محمد بن سعد بن ابي وقاص عن أبيه…. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ايها يا بن الخطاب ، والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا قط إلا سلك غير فجك .
صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحابه، باب مناقب عمر رضى الله عنہ ، رقم: 3683.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹے !قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، شیطان تم سے گلی میں چلتے ہوئے ملے گا تو تمہاری گلی چھوڑ کر دوسری گلی میں چلنے لگے گا۔“
عن ابن عمر ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اللهم أعز الإسلام بأحب هذين الرجلين إليك بأبي جهل أو بعمر بن الخطاب قال: وكان احبهما إليه عمر .
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر رضی اللہ عنہ ، رقم: 3681۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ ! ابوجہل یا عمر بن خطاب ان دونوں میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعہ اسلام کو غلبہ عطا فرما۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان دونوں میں عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے ہاں زیادہ محبوب تھے۔“
عن ابن عمر ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه ، وقال إبن عمر: ما نزل بالناس أمر قط فقالوا فيه وقال فيه عمر أو قال ابن الخطاب فيه – شك خارجة – إلا نزل فيه القرآن على نحو ما قال عمر.
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی حفص، رقم: 3682۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے” صحیح کہا ہے۔
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: لوگوں کو کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش نہیں آیا کہ انہوں نے اس میں اپنی رائے دی ہو، اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہو، مگر اس بارہ میں قرآن سیدنا عمر رضی اللہ کی عنہ رائے کے موافق نازل ہوا۔“
سیدنا عقبہ بن عامر فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو كان نبي بعدي لكان عمر بن الخطاب
سنن ترمذى ، أيضاً ، رقم: 3686 – سلسلة الصحيحة، رقم: 327.
”اگر میرے بعد کسی نے نبی ہونا ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے ۔“
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا أنا نائم شربت يعني اللبن حتى أنظر إلى الري يجري فى ظفري، أو فى أظفارك ، ثم ناولت عمر، قالوا: فما أولته يارسول الله! قال: ”العلم “
صحيح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ ، رقم: 3681.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ مجھے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا ہے ، میں نے اس سے دودھ پیا اور جو بچا تھا وہ میں نے عمر بن خطاب رضی رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم ۔ “
ان ابا هريرة رضي الله عنه قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال: بينا أنا نائم رأيتني فى الجنة ، فإذا امرأة تتوضأ إلى جانب القصر ، فقلت: لمن هذا القصر؟ فقالوا لعمر
صحيح البخاری، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص، رقم: 3680.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے جنت میں ایک محل دیکھا، میں نے پوچھا یہ کس کا ہے؟ تو جواب میں کہا گیا:عمر بن خطاب کا ہے “
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: إني لواقف فى قوم ، يدعون الله لعمر بن الخطاب ، وقد وضع على سريره، إذا رجل من خلفي قد وضع مرفقه على منكبي يقول: يرحمك الله إن كنت لارجو ان يجعلك الله مع صاحبيك ، لأني كثيرا مما كنت أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كنت وأبو بكر وعمر ، وفعلت وابوبكر وعمر ، وانطلقت وأبوبكر وعمر، فإن كنت لارجوا ان يجعلك الله معهما ، فالتفت فإذا هو على بن أبى طالب.
صحيح البخارى، كتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3677.
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے، اس وقت ان کا جنازہ چار پائی پر رکھا ہوا تھا، اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر میرے شانے پر اپنی کہنی رکھ دی ، اور (عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے)کہنے لگا: اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی اُمید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ( دفن ) کرائے گا ، میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ ”میں، ابوبکر اور عمر تھے ۔ میں نے ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا۔ میں ابو بکر اور عمر گئے ۔“ اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے ۔

3 ۔ سیدنا عثمان غنی رضى الله عنہ

فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده اليمنى : هذه يد عثمان، فضرب بها على يده فقال: هذه لعثمان.
صحيح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم : 3699 .
”سید نا عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا تھا: ” یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
الاأستحي من رجل تستحي منه الملائكة .
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابه، باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، رقم : 2401 .
”کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی دیا کرتے ہیں۔“
ان انس بن مالك رضي الله عنه حدثهم: أن النبى صلى الله عليه وسلم صعد أحد وابوبكر وعمر وعثمان فرجف بهم، فقال: أثبت أحد ، فإنما عليك نبي وصديق وشهيد ان .
صحيح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3675.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر اور عثمان رضی اللہ عنہما أحد پہاڑ پر چڑھے، تو پہاڑ ہل گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” أحد ٹھہر جا، تجھ پر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں۔

4 ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ

وقال لعلي أنت مني وأنا منك
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔“
صحيح البخاری، کتاب المغازی، باب عمرة القضاء، رقم: 4251.
عن مصعب بن سعد، عن ابيه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسٰى إلا أنه ليس نبي بعدي.
صحیح بخاری کتاب المغازی، باب غزوه تبوك، رقم: 4416 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے … سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
قال علـى: والذي فلق الحبة وبرأ النسمة ، أنه لعهد النبى الأمي صلى الله عليه وسلم إلى: أن لا يحبني إلا مؤمن ، ولا يبغضني إلا منافق .
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم: 131.
سید نا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا تھا کہ تجھ سے ایمان دار محبت، اور منافق بغض رکھے گا۔“

5 ۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ

عــن الزبير صلى الله عليه وسلم قال: كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد درعان فنهض إلى صخرة فلم يستطع فاقعد تحته طلحة فصعد النبى صلى الله عليه وسلم حتى استوى على الصخرة، فقال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول اوجب طلحة
سنن الترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3738 – البانی رحمہ للہ نے اسے ”صحیح کہا ہے۔
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو زر ہیں پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے ایک چٹان پر چڑھنے کی کوشش کی مگر اس کی طاقت نہ پائی، پھر طلحہ رضی اللہ عنہ کو نیچے بٹھا کر ان کے کندھے پر قدم رکھا، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم چٹان پر چڑھ گئے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : آپ نے فرمایا : ” طلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنے لیے جنت ) واجب کر لی ہے۔“
قال جابر بن عبد الله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سره أن ينظر إلى شهيد يمشي على وجه الأرض إلى طلحة بن عبيد الله
سنن الترمذي ، أيضاً، رقم: 3739 – البانی رحمہللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا: ” جسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کسی شہید کو زمین پر چلتا پھرتا دیکھے، تو وہ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔“
عن قيس بن ابي حازم قال: رأيت يد طلحة التى وقى بها النبى صلى الله عليه وسلم قد شلت .
صحيح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم : 3724.
قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں : ” میں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا ہے جس سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی تھی کہ وہ بالکل بیکار ہو چکا تھا۔“

6 ۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ

عنالزبير صلى الله عليه وسلم قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من يأت بني قريظة فيأتيني بخبرهم؟ فانطلقت فلما رجعت جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أبويه فقال: فداك أبى وأمي .
صحيح البخارى، كتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم : 3720
سید نا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو بنو قریظہ کی طرف جا کر ان کی( نقل وحرکت کی) اطلاع میرے پاس لا سکے۔اس پر میں وہاں گیا، اور جب میں (خبر لے کر ) واپس آیا تو آپ نے فرط مسرت میں اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کر کے فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔“
عن جابر رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : إن لكل نبي حواريا وإن حواري الزبير بن العوام .
صحيح البخاري ، ايضاً، رقم : 3719.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر نبی کے لیے مخلص گار ہوتے ہیں ، اور میر امخلص مددگار زبیر بن عوام ہے۔“

7 ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

عن سعد ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”اللهم استجب لسعد إذا دعاك
سنن الترمذي ، كتاب المناقب ، رقم: 3751 – البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح کہا ہے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : ”اے الله اسعد رضی اللہ عنہ جب بھی دعا کرے تو تو اس کی دعا قبول فرما۔“
عن سعد بن أبى وقاص قال: لقد جمع لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ابويه يوم أحد .
صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة ، باب في فضل سعد بن ابی وقاص ، رقم: 2412 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن فرمایا: ”تجھ پر میرے والدین قربان ہوں۔“

8 ۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ

عن سعيد بن عمرو بن نفيل ، أنه قال: أشهد على التسعة هم فى الجنة، ولو شهدت على العاشر لم أثم، قيل: وكيف ذاك؟ قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بحراء ، فقال اثبت حراء ، فإنه ليس عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد . قيل: ومن هم؟ قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم : واابوبكر، وعمر، وعثمان ، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد، وعبد الرحمن بن عوف . قيل: فمن العاشر؟ قال: أنا .
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3757۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح کہا ہے۔
سیدنا سعید بن زید بن عمر و بن نفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنت میں جائیں گے، اور اگر دسویں کے بارے میں گواہی دوں تو گناہگار نہیں ہوں گا۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا: ہم حرا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حراء ٹھہر جا تجھ پر نبی ،صدیق ،شہید ہیں ۔ پوچھا گیا: وہ کون تھے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان ، علی طلحہ، زبیر ، سعد عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ پوچھا گیا: دسویں کون تھے؟ فرمایا: وہ میں ہی تھا۔

9 ۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ

عن عبد الرحمن بن عوف ، ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر فى الجنة، وعمر فى الجنة، وعثمان فى الجنة، وعلي فى الجنة، وطلحة فى الجنة، والزبير فى الجنة، وعبد الرحمن بن عوف فى الجنة ، وسعد فى الجنة ، وسعيد فى الجنة ، وأبو عبيدة بن الجراح فى الجنة .
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، ، رقم: 3747. علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح” کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ابوبکر جنتی ہے ۔ عمر جنتی ہے۔ عثمان جنتی ہے ۔ علی جنتی ہے۔ طلحہ جنتی ہے۔ زبیر جنتی ہے۔ عبدالرحمن بن عوف جنتی ہے۔ سعد بن ابی وقاص جنتی ہے ۔ سعید بن زید جنتی ہے اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہے ۔ “ رضی اللہ عنہم اجمعن ۔

10 ۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ

عن انس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن لكل أمة امينا وإن اميننا أيتها الأمة ابو عبيدة بن الجراح .
صحيح البخارى، كتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، رقم: 3744.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اُمت کا ایک امین ہوتا ہے، اور اے اُمت ! ہمارے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "نعم الرجل أبو بكر، نعم الرجل عمر، نعم الرجل أبو عبيدة بن الجراح ….. الخ
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3795۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ بہت اچھے آدمی ہیں ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بہت اچھے آدمی ہیں ۔“

11 ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

فقال: يأم سلمة لا تؤذيني فى عائشة ، فإنه والله ما نزل على الوحي وأنا فى لحاف امرأة منكن غيرها
صحيح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، رقم: 3775.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُم سلمہ ! تو مجھے عائشہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں تکلیف نہ پہنچا، کیونکہ سوائے عائشہ کے (بستر) کے تمہارے کسی ایک کے بستر میں مجھ پر وحی نہیں نازل ہوئی۔ “
عن عائشة أن جبريل جاء بصورتها فى خرقة حرير خضراء إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: "هذه زوجتك فى الدنيا والآخرة
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، باب من فضل عائشه رضى الله عنها، رقم: 3880 – البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: جبرائیل امین علیہ السلام ریشم کے ایک سبز کپڑے میں میری تصویر لپیٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے ، اور فرمایا : یہ آپ کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہے۔
ان عائشة صلى الله عليه وسلم قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما: "يا عائشہ، هذا جبريل يقرتك السلام ، فقلت: عليه السلام ورحمة الله وبركاته ، ترى مالا ارى .
صحيح البخارى، أيضاً ، رقم: 3768.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے عائشہ ! یہ جبرائیل ہیں ، جو تجھ کو سلام کہتے ہیں ۔ میں نے کہا: ”علیہ السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ دیکھتے ہیں وہ ہم نہیں دیکھتے “
عمرو بن العاص : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم . فأتيته فقلت: أى الناس أحب إليك؟ قال: عائشة قلت: من الرجال؟ قال: ابوها ، قلت: ثم من؟ قال: عمر فعد رجالا .
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابه، باب من فضائل ابی بکر رضى الله عنه، رقم: 2384 .
سیّدناعمر و بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ تمام لوگوں سے زیادہ آپ کو محبوب کون ہے؟ فرمایا: ” عائشہ “ پھر پوچھا گیا: مردوں میں سے؟ فرمایا: ان کے والد ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ “ میں نے عرض کیا : پھر کون؟ فرمایا: ”عمر“۔ پھر کچھ اور صحابہ کا بھی نام لیا۔“

12 ۔ سیدہ فاطمہ رضی الله عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أمـا تـرضين أن تكوني سيدة نساء أهل الجنة أو نساء المؤمنين ؟
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الاسلام، رقم: 3624 .
”تم اس پر راضی نہیں کہ تم جنتی عورتوں کی سردار بنو گی ۔“
عن عائشة أم المؤمنين ، قالت: ما رأيت أحدا أشبه سمتا رفعت ودلا وهديا برسول الله فى قيامها وقعودها من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم . قالت: وكانت إذا دخلت على النبى صلى الله عليه وسلم قام إليها فقبلها وأجلسها فى مجلسه، وكان النبى صلى الله عليه وسلم إذا دخل عليها قامت من مجلسها فقبلته وأجلسته فى مجلسها ، فلما مرض النبى صلى الله عليه وسلم دخلت فاطمة فأكبت عليه فقبلته ثم رأسها فبكت ، ثم أكبت عليه ثم رفعت رأسها فضحكت ، فقلت: إن كنت لأظن أن هذه من أعقل نسائنا فإذا هي من النساء ، فلما توفي النبى صلى الله عليه وسلم قلت لها: أرأيت حين أكبيت على النبى صلى الله عليه وسلم فرفعت رأسك فبكيت ثم أكبيت عليه فرفعت رأسك فضحكت، ما حملك على ذلك! قالت: إني إذا لبذرة، أخبرني أنه ميت من وجعه هذا فبكيت ، ثم أخبرني أني أسرع أهله لحوقا به فذاك حين ضحكت .
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3872۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہما بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر سیرت و کردار، اُٹھنے بیٹھنے ، چال اور ڈھال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی ایک کو نہیں دیکھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: فاطمہ رضی اللہ عنہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے ، انہیں بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اس طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں ، اور آپ کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھا تیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس تشریف لائیں، اور آپ کو جھک کو بوسہ دیا، اور سر اٹھا کر رونے لگیں۔ پھر دوسری بار آپ پر جھکیں تو سر اُٹھا کر ہنسنے لگیں۔ میں نے خیال کیا کہ میں تو انہیں تمام عورتوں سے عقل مند سمجھتی ہوں مگر یہ تو عام عورتوں جیسی ہیں ( کہ اس حالت میں بھی ہنس رہی ہیں) جب نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں نے ان سے پوچھا: جب آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکی تھیں تو سر اٹھا کر رونے لگی تھیں ، اور جب دوبارہ جھکی تھیں تو پھر سر اُٹھا کر ہنسنے لگی تھیں۔ ایسے کیوں کیا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اب یہ راز ظاہر کر دیتی ہوں، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ” میں اس بیماری سے فوت ہو نے والا ہوں۔“ تو (یہ سن کر ) میں رو پڑی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی کہ ”میرے تمام اہل سے تو مجھے کو سب سے پہلے ملے گی ۔“ تو اس پر میں ہنس پڑی ۔“
عن المسور بن مخرمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فاطمة بضعة مني ، فمن أغضبها أغضبني .
صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، رقم: 3767 .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ ( رضی اللہ عنہا ) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا تو اس نے مجھے ناراض کیا۔“

13 ۔ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما

عن ابي سعيد الخدري رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الحسن والحسين سيد شباب اهل الجنة
سنن ترمذی ، کتاب المناقب ، رقم : 3768 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 796
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔“
عن انس قال: لم يكن احد أشبه بالنبي صلى الله عليه وسلم من الحسن بن على
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3752
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کوئی نہ تھا۔“
عن اسامة بن زيد….. فقال هذان ابناي وابنا ابنتي ، اللهم إني أحبهما فاحبهما وأحب من يحبهما
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3769 ۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا:) اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما، اور اس سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت کرتا ہے۔“

14 ۔ سیدنا جعفر طیار رضى الله عنہ

عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : رأيت جعفر يطير فى الجنة مع الملائكة
استن ترمذى كتاب المناقب ، ، رقم : 3763 . سلسلة الصحيحة ، رقم: 1226
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ( خواب میں ) جعفر رضی اللہ عنہ کو فرشتوں کے ساتھ جنت میں اُڑتے دیکھا ہے۔“
عن البراء بن عازب ، أنا النبى صلى الله عليه وسلم قال لجعفر بن أبى طالب اشبهت خلقي وخلقى
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3765۔ البانی رحمہ للہ نے اسے” صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے فرمایا: ” تم سیرت اور صورت میں میرے مشابہ ہو۔“

15 ۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی الله عنہ

عن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم … وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3790 ۔ البانی رحمہ للہ نے اسے”صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میری اُمت میں سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) ہیں۔“
عن انس رضي الله عنه : جمع القرآن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة كلهم من الأنصار: أبى ، ومعاذ بن جبل، وأبوزيد، وزيد بن ثابت ، قلت لانس: من أبوزيد ؟ قال أحد عمومتي
صحيح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مناقب زید بن ثابت، رقم: 3810.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن جمع کیا، وہ سب انصاری تھے ۔ سیدنا ابی بن کعب ، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید رضی اللہ عنہم تھے۔ انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، ابو زید کون ہیں۔ فرمایا کہ وہ میرے ایک چچا ہیں۔“
عن ابي هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ….. نعم الرجل معاذ بن جبل
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3795. البانی رحمہ اللہ نے اسے”صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”… معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اچھے آدمی ہیں ۔“

16 ۔ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ

عن أبى إسحاق قال: سمعت البراء رضى الله عنه يقول: أهديت للنبي صلى الله عليه وسلم حلة حرير ، فجعل أصحابه يمسونها ويعجبون من لينها ، فقال: أتعجبون من لين هذه؟ لمناديل سعد بن معاذ خير منها . أو الين
صحيح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مناقب سعد بن معاذ رضی الله عنه، رقم: 3802.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشمی کپڑا تحفہ میں دیا گیا، تو لوگ اس کی نرمی پر تعجب کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس پر تعجب کرتے ہو، (جنت میں) سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے زیادہ خوبصورت ہیں، یا ( آپ نے فرمایا ) اس سے کہیں زیادہ نرم و نازک ہیں ۔“
عن جابر رضی اللہ عنہ : سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: اهتز العرش لموت سعد بن معاذ
صحيح البخارى، كتاب المناقب، رقم: 3803.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے سنا: ( جب لوگوں کے سامنے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑا ہوا تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد کے لیے اللہ تعالیٰ کا عرش لرز گیا ہے۔“
عن أنس بن مالك، قال: لما حملت جنازة سعد بن معاذ قال المنافقون: ما أخف جنازته، وذلك لحكمه فى بني قريظة، فبلغ ذلك النبى صلى الله عليه وسلم فقال: إن الملائكة كانت تحمله
سنن الترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3849۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہنے لگے: اس کا جنازہ کتنا ہلکا ہے، یہ بنو قریظہ کے بارے میں فیصلہ کی وجہ سے کہا گیا۔ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو فرشتے اُٹھائے ہوئے ہیں۔“

17۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

عن أنس بن مالك رضی اللہ عنہ ، قال النبى صلى الله عليه وسلم : لأبي : إن الله أمرني أن أقرأ عليك ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ﴾ قال: وسماني؟ قال: نعم ، فبكى
صحيح البخاري ، كتاب التفسير، سورة لَمْ يَكُن ، رقم: 4959 .
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں تجھے سورت البینہ پڑھ کر سناؤں۔“ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا اللہ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ۔ تو اس پر ( فرط مسرت کی وجہ سے ) سیدنا ابی رضی اللہ عنہ بن کعب رو پڑے۔“
عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم واقرؤهم أبى بن كعب
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3790۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میری اُمت میں قرآن کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں ۔“

18 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

عن ابن عمر ، أنه قال لابي هريرة يا أبا هريرة: أنت كنت الزمنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم وأحفظنا لحديثه
سنن الترمذي ، كتاب المناقب، رقم: 3836 ۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح الاسناد “ کہا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اے ابو ہریرہ ! تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہتے تھے ، اور حدیث بھی ہم سے زیادہ یاد رکھتے ہو ۔ “
عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قلت: يا رسول الله ، إنى سمعت منك حديثا كثيرا فأنساه ، قال صلى الله عليه وسلم : ابسط ردائك ، فبسطت فغرف بيده فيه ، ثم قال: ضمه ، فضممته فما نسيت حديثا بعد
صحیح بخاری ، کتاب المناقب، رقم: 3648
سیدنا ابو ہریرہرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں نے آپ سے بہت سی احادیث اب تک سنی ہیں، لیکن میں انہیں بھول جاتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی چادر پھیلاؤ۔ میں نے چادر پھیلا دی۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا: ”اسے اپنے بدن پر لگا لو۔“ چنانچہ میں نے لگالیا، اور اس کے بعد کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا ۔

19 ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

عن ابن عمر، قال: رأيت فى المنام كأنما فى يدى قطعة إستبرق ولا أشير بها إلى موضع من الجنة إلا طارت بي إليه، فقصصتها على حفصة ، فقصتها حفصة على النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال: إن أخاك رجل صالح، أو إن عبد الله رجل صالح
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3825 ۔ البانی رحمہ للہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہے۔ میں جنت کے جس مقام کی طرف اشارہ کرتا ہوں وہ مجھے اس طرف لے کر اڑ جاتا ہے، میں نے یہ خواب اُم المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا۔ انہوں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: ”آپ کا بھائی نیک آدمی ہے ۔“ یا فرمایا: ”عبداللہ نیک آدمی ہے۔“
فقال النبى صلى الله عليه وسلم : نعم الرجل عبد الله لو كان يصلي من الليل . قال سالم: فكان بعد لا ينام من الليل إلا قليلا
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3739
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عبد اللہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کاش رات میں وہ تہجد کی نماز پڑھا کرتا ۔ “ سالم نے بیان کیا ،سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد رات میں بہت کم سویا کرتے تھے ۔

20 ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

عن ابن عباس، قال: دعالي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يؤتيني الله الحكمة مرتين
سنن الترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3822۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح لا سناؤ“ کہا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دو بار دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکمت عطا فرمائے۔“
عن ابن عباس ، قال: ضمني النبى صلى الله عليه وسلم إلى صدره، وقال: اللهم علمه الحكمة
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم : 3756.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ مبارک سے لگایا اور فرمایا : ”اے اللہ ! اسے حکمت سکھا دے۔“

21 ۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما

عن عبد الرحمن بن ابى عميرة وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال لمعاوية : اللهم اجعله هاديا مهديا واهدبه
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم : 3842، سلسلة الصحيحة، رقم: 1969.
سیدنا عبد الرحمن بن ابی عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کے حق میں دعا کی : ”اے اللہ ! اسے ہدایت دینے والا ، ہدایت یافتہ بنا دے اور لوگوں کو اس کے ذریعہ ہدایت نصیب فرما۔“

22 ۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

عن أسامة بن زيد ، عن أبيه، قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم هبطت وهبط الناس المدينة ، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أصمت فلم يتكلم ، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يديه على ويرفعهما فأعرف أنه يدعولى
سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب أسامه بن زيد صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3817 ۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
”سیدنا اُسامہ اپنے والد زید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی تو میں اور دوسرے لوگ مدینہ میں آئے ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ، آپ اس وقت بات نہیں کر سکتے تھے ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ مبارک مجھ پر رکھتے ، اور پھر انہیں اُٹھاتے تو میں جان گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں ۔“
عن عائشة أم المؤمنين، قالت: أراد النبى صلى الله عليه وسلم أن ينحي مخاط أسامة . قالت عائشة: دعني حتى أكون أنا الذى أفعل . قال: يا عائشة أحبيه ، فإني أحبه
سنن الترمذى ، أيضاً، رقم: 3818۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے”صحیح“ کہا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ بن زید کی ناک صاف کرنے لگے۔ ( جب وہ چھوٹے تھے ) تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے دیں میں صاف کر دیتی ہوں، تو آپ نے ارشاد فرمایا : ”اے عائشہ ! تو اسے محبت کر ، اس لیے کہ میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں ۔“

23۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ

عن أنس بن مالك، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعت أمى أم سليم صوته، فقالت بأبى وأمي يا رسول الله ، أنيس؟ قال: فدعا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث دعوات ، قد رأيت منهن اثنتين فى الدنيا، وأنا أرجو الثالثة فى الآخرة
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3827 ۔البانی رحمہ للہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہمارے پاس سے) گزرے تو میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے والدین آپ پر قربان ہوں ، یہ میرا چھوٹا سا انس ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تین دعائیں کی: ان دو کی قبولیت تو میں دنیا میں دیکھ چکا ہوں ، اور تیسری کی آخرت میں اُمید رکھتا ہوں ۔

24 ۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

عن ابي هريرة، قال ….. فقال: نعم عبد الله خالد بن الوليد ، سيف من سيوف الله
سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب خالد بن وليد رضی اللہ عنہ ، رقم : 3846ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 1237۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” خالد بن ولید اللہ کا اچھا بندہ ہے، اور اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔“

25 ۔ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ

عن خباب ، قال … وإن مصعب بن وإن مصعب بن عمير مات ولم يترك إلا ثوبا كانوا إذا غطوا به رأسه خرجت رجلاه، وإذا غطوا به رجليه خرج رأسه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : غطوا رأسه واجعلوا على رجليه الإذخر
سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ، رقم : 3853۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح“ کیا ہے۔
جب سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ فوت ( شہید ) ہوئے تو انہوں نے صرف ایک چادر چھوڑی ۔ صحابہ ( کفن دیتے وقت ) جب اس چادر کے ساتھ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے ، اور جب پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کا سر ڈھانپ دو، اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دو۔“

26 ۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

عن أبى موسى رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال له: يا أبا موسى، لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود
صحيح البخاری، کتاب فضائل القرآن باب حسن الصوت بالقراءة للقرآن ، رقم : 5048 .
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو موسیٰ ! تجھ کو آل داؤد کی خوش الحانیوں میں سے خوش الحانی دی گئی ہے ۔ “

27 ۔ سیدہ خدیجتہ الکبرى رضی اللہ عنہا

عن عائشة رضي الله عنها قالت: ما غرت على امرأة ما غرت على خديجة من كثرة ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم إياها ، قالت: وتزوجني بعدها بثلاث سنين وأمره ربه عز وجل ، أو جبريل عليه السلام أن يبشرها ببيت فى الجنة من قصب وفي رواية ببيت من قصب لا صخب فيه ولا نصب
صحيح البخارى، كتاب المناقب الانصار، رقم: 3817، 3819 ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: مجھے جتنا رشک سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہے کسی اور عورت پر نہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح ان کی وفات کے بعد کیا تھا، یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بہت زیادہ ذکر کرتے تھے، اور اللہ نے آپ کو خدیجہ کے لیے جنت کے موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دینے کا حکم دیا جس میں نہ شوروغل ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے۔

28 ۔ سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ

عن ابن عباس رضي الله عنها ….. دخلت معه على النبى صلى الله عليه وسلم فقلت له: اعرض على الإسلام فعرضه فأسلمت مكاني. فقال لي: يا أبا ذر، اكتم هذا الأمر ، وارجع إلى بلدك ، فإذا بلغك ظهورنا فأقبل . فقلت: والذي بعثك بالحق لأصرخن بها بين أظهرهم، فجاء إلى المسجد وقريش فيه فقال: يا معشر قريش ، إني أشهد أن لا إله إلا الله ، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله. فقالوا: قوموا إلى هذا الصابيء، فقاموا فضربت لأموت فأدركني العباس فأكب على ثم أقبل عليهم، فقال: ويلكم تقتلون رجلا من غفار ؟ ومتجركم وممركم على غفار ؟ فأقلعوا عني ، فلما أن أصبحت الغد رجعت فقلت مثل ما قلت بالأمس فقالوا: قوموا إلى هذا الصابيء ، فصنع بي مثل ما صنع بالأمس وأدركنى العباس فأكب على وقال مثل مقالته بالأمس، قال: فكان هذا أول إسلام أبى ذر رحمه الله
صحیح بخاری ، کتاب المناقب، باب قصة اسلام ابی ذر الغفاري رضی اللہ عنہ ، رقم : 3522
”سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں ، اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ، اور انہیں میرا حال بتاؤ یہاں تک کہ جب ہمارے غلبے کا تمہیں علم ہو جائے ۔ “ ( تو پھر ہمارے پاس آ جانا ) ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجد حرام میں آئے ، اور بلند آواز سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ٹوٹ پڑا، اور اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا۔ اتنے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آ گئے ، اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے آپ کو ڈال کر قریش سے کہا: افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے؟ اور شام جانے والے تمام تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے؟ اس طرح انہیں ان سے بچایا۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے ، اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بُری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی ۔اس دن بھی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ان پر اوندھے پڑ گئے ، اور جیسا انہوں نے قریشیوں سے کل کہا تھا ویسا ہی آج بھی کہا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتداء اس طرح سے ہوئی۔ “

29 ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

عــن عبـد الـلـه بـن عـمرو: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: استقرئوا القرآن من أربعة: من عبد الله بن مسعود، وسالم مولى أبى حذيفة ، وأبي بن كعب ومعاذ بن جبل
صحيح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، رقم : 3760
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” قرآن چار بندوں سے سیکھو : 1:عبداللہ بن مسعود ۔ 2: سالم مولٰی ابی حذیفہ ۔ : ابی بن کعب ۔ 4: معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہم)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔