شیطان اور اس کی علامات
شیطان ایک جن ہے لیکن جن انسانوں کے کام اور کرتوتیں شیطان کی طرح ہوں وہ بھی شیطان یا شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا۔ شیطان سوچ سمجھ کر دھوکہ اور فریب کی پلاننگ کرتا ہے۔ شیطان لوگوں کا ایسا دشمن ہے کہ ہر وقت ساتھ لگا رہتا ہے۔ اس کو جنت سے اس کے تکبر اور غرور کی وجہ سے نکالا گیا ہے، پھر اس نے سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایا۔ شیطان برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور وعدے کر کے بے وفائی کر جاتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ ابلیس انتہائی مکار، چال باز اور فتنوں میں ڈالنے والا ہے۔ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے ۔ اس کے اپنے لشکر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ہر ایک کام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ یہ لوگوں کی شکل وصورت اختیار کر لیتا ہے۔ سب سے پہلے خود شبہ میں پڑا اور حجت بازی کی ، اب لوگوں سے کرواتا ہے۔ ابلیس کے نزدیک ریا کاری، خود پسندی ، لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، بت پرستی ، قبر پرستی، جہالت والے سب کام ٹھیک ہیں۔ یہ انسان کو اس قدر گمراہ کر دیتا ہے کہ اس کو گناہ اور ثواب، حق اور باطل، عابد اور معبود میں تمیز ختم کرا کے جہالت و گمراہی کے اندھیرے گڑھوں میں گرا دیتا ہے۔ پھر لوگوں سے ڈرتا ہے اور کہتا ہے: دنیا کو بھی تو رکھنا ہے، لوگ کیا کہیں گے، بس اب تھوڑی دیر ہے۔ اپنے نفس کو بھول کر لوگوں کے عیب نکالنا۔ زاہدوں کو گوشہ نشینی ، عابدوں کو عبادت کے چکر میں ، علوم میں کامل لوگوں پر نام ونمود کی راہ سے علم وعمل میں کامل علما کو تکبر کی راہ سے، باپ دادوں ، علماء اور فقہا کی تقلید کے راستے لوگوں کو گمراہ اور سیدھے راستے سے دور کرتا ہے۔ شیطان کے زور اور غلبے سے بچنے کے لیے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نافرمان نے سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ شیطان مردود پر اللہ کی لعنت قیامت تک برستی رہے گی۔
مہلت مل جانے کے باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوگا۔ شیطان بڑا سرکش اور دغا باز ہے اور اس کے ساتھی بے ایمان اور شریر قسم کے جن وانس ہی ہو سکتے ہیں۔ شیطان بُرا رفیق و ساتھی ہے اور اس کی پیروی سے لوگ راہ ہدایت سے دور ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا انتباہ
﴿يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٧﴾ وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٢٨﴾ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ﴿٢٩﴾ فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٠﴾ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١﴾
(7-الأعراف: 27تا31)
”اے آدم کی اولاد! کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا۔ ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تا کہ وہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ اور وہ لوگ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس پر پایا اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ کہہ دے: بے شک اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ کے ذمہ وہ بات لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ کہہ دے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ تم ہر سجدے کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھو۔ اور اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارو، جس طرح اس نے تمہاری ابتداء کی اسی طرح تم دوبارہ جی اٹھو گے۔ ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور ایک گروہ پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ بے شک ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پانے والے ہیں۔ اے آدم کی اولاد !تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا خوبصورت اور اچھا لباس پہن لیا کرو۔ اور خوب کھاؤ اور پیواور حد سے مت نکلو۔ بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“
شیطان اور اس کے حواریوں کی بات ماننے والا مشرک ہے
﴿وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴿121﴾
(6-الأنعام: 121)
”اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اور یقینا یہ تو سراسر نا فرمانی ہے، اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ اور اگر تم نے ان لوگوں کا کہنا مان لیا تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔“
قرآن کو چھوڑ کر شیطان کی بات ماننے والا پچھتائے گا
﴿وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا ﴿٢٥﴾ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا ﴿٢٦﴾ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴿٢٨﴾ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾ وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾
(25-الفرقان: 25تا 30)
”اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے، اس دن حقیقی بادشاہی رحمن کی ہوگی اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا۔ اور جس دن ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، اور کہے گا ، اے کاش! میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس! کاش کہ میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔ اور رسول کہے گا: اے میرے پروردگار ! بے شک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔“
شیطان ہر موڑ پر بندے کو راہ راست سے بھٹکاتا ہے اور گمراہ کرتا ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿٦٠﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا ﴿٦١﴾
(4-النساء: 60تا61)
”کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں گمراہ کر دے بہت دور کا گمراہ کرنا۔ ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول کی طرف آؤ، تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے صاف منہ پھیر لیتے ہیں۔“
اللہ کا سوال اور شیطان کا جواب
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣٢﴾ قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿٣٣﴾
(15-الحجر: 32تا 33)
” (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟ وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔“
شیطان کا قیاس
﴿قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿١٢﴾
(7-الأعراف: 12)
”اللہ نے کہا: تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا جب میں نے تجھے حکم دیا؟ اس (شیطان) نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے خاک (مٹی) سے پیدا کیا ہے۔ “
«عن على بن حسين عن صفية بنت حيى قالت قال: إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس وجنوده، رقم: 3281۔
”علی بن حسین، صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ شیطان انسان کی رگ وپے میں سرایت کیے رہتا ہے۔“
«عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن إبليس يضع عرشه على الماء ، ثم يبعث سراياه ، فادناهم منه منزلة أعظمهم فتنة ، يجيء احدهم فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، قال ثم يجيء احدهم فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته ، قال: فيدنيه منه ويقول: نعم أنت»
صحیح مسلم، کتاب المنافقين، باب تحريش الشيطان وبعثه سراياه لفتنة الناس، رقم: 2813 .
”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک شیطان کا تخت پانی پر ہے، اور وہ اپنے لشکر کو دنیا میں فساد پھیلانے کے لیے بھیجتا ہے، جو آدمیوں کو گمراہ کرتے ہیں، اور شیطان کے نزدیک مرتبہ میں سب سے بڑا وہ ہوتا ہے جو جتنا بڑا فساد ڈالنے والا ہو ۔ ان میں سے کوئی آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیے تو شیطان کہتا ہے: تو نے کچھ نہیں کیا اور جب کوئی آکر بتلاتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے ساتھ اس وقت تک لگا رہا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ کرادی، تو شیطان اسے اپنے نزدیک کر لیتا ہے، اور کہتا ہے: ہاں ! تو نے بڑا کام کیا ہے۔ “
«عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ ابن آدم السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكي يقول يا ويله وفي رواية أبى كريب يا ويلتى أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة وأمرت بالسجود فأبيت فلي النار»
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بيان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلوة رقم: 81.
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی آدمی سجدہ والی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے دور ہٹ جاتا ہے، اور کہتا ہے کہ میرا ستیاناس ! آدمی کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کر لیا ، اس کے لیے جنت ہے۔ اور مجھے بھی سجدے کا حکم ملا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا، اور میرے لیے جہنم ہے۔ “
1 : ابلیس ایک جن ہے
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿50﴾
(18-الكهف: 50)
”اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کر لیا، یہ جنوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ۔ پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا بہت برا بدلہ ہے۔ “
2: ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿١٢﴾
(7-الأعراف: 12)
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہ کرے جب کہ میں نے تجھے حکم دیا؟ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے ۔ “
3: شیطان سوچ سمجھ کر دھو کہ دیتا ہے
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾
(15-الحجر: 39، 40)
” (شیطان نے ) کہا: اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لیے (نا فرمانی و گناہ ) کو مزین خوبصورت کروں گا، اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب (چن لیے گئے ہیں ) کر لیے گئے ہیں۔ “
4: شیطان لوگوں کے ساتھ رہتا ہے
ارشادِ خداوندی ہے:
﴿فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٣٦﴾
(2-البقرة: 36)
”لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوادیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔“
5: شیطان رسولوں اور تمام بنی آدم کا دشمن ہے
شیطان رسولوں اور لوگوں کا کا کھلا دشمن ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴿112﴾
(6-الأنعام: 112)
”اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کیے تھے، کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعضوں کی چکنی چیڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر سکتے تھے ۔ پس انہیں چھوڑ اور اسے بھی جو جھوٹ گھڑتے ہیں۔ “
6: شیطان بری باتوں کی ترغیب دلاتا ہے
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿١٦٩﴾
(2-البقرة: 168تا169)
”لوگو ! ز مین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔ “
دوسری جگہ فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢١﴾
(24-النور: 21)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاک کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
7: شیطان بدترین ساتھی ہے
﴿وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا ﴿٣٨﴾
(4-النساء: 38)
”اور جو اپنا مال لوگوں کو دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ، اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو وہ اس کا بدترین ساتھی ہے۔ “
8: شیطان ہرطرف سے وار کرتا ہے
﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿١٦﴾ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴿١٧﴾
(7-الأعراف: 16، 17)
”اس نے کہا: بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی، اور ان کے پیچھے سے بھی، اور ان کی داہنی جانب سے بھی، اور ان کی بائیں جانب سے بھی، اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔“
اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر اس کی دشمنی کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴿٥﴾ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿٦﴾
(35-فاطر: 5، 6)
”لوگو اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے۔ اور نہ دھو کے باز شیطان تمہیں غفلت میں ڈالے۔ یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے۔ تم اسے دشمن جانو ۔ وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لیے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں سے ہو جائیں ۔ “
ایک مقام پر اس کے تکبر کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ ﴿٧٥﴾ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿٧٦﴾
(38-ص: 75تا76)
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابلیس ! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ یا پھر کیا تو بڑا بن گیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا۔ “
اللہ تعالیٰ شیطان کی پیروی کرنے سے منع کرتا ہے۔ ارشاد گرامی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٠٨﴾
(2-البقرة: 208)
”ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“
9: شیطان مردود کو تکبر نے جنت سے نکلوا دیا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ﴿١٣﴾
(7-الأعراف: 13)
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو آسمان سے اتر ، تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے۔ سونکل جاء بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ “
10: شیطان نے سیدنا آدم علیہ السلام کو کس طرح دھوکہ دیا؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾
(7-الأعراف: 20)
”پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تا کہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، دونوں کو ظاہر کر دے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے بن جاؤیا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔ “
● انسانوں ! اپنے ماں باپ کے دشمن سے ہوشیار رہو
﴿يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٧﴾
(7-الأعراف: 27)
”اے اولاد آدم ! شیطان تم کو کسی فتنے میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں، باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ، ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تا کہ وہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ۔ ہم نے شیطان کو ان ہی لوگوں کا رفیق بنایا جو ایمان نہیں لاتے ۔“
● آدم علیہ السلام کی دعاء اور زمین کی طرف سفر
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣﴾ قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٢٤﴾
(7-الأعراف: 23، 24)
”دونوں نے کہا: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہمارا بڑا نقصان ہو جائے گا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے اُتر جاؤ ایسی حالت میں تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے واسطے زمین میں ایک وقت تک رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ۔ “
● زمین پر رہنے کے قاعدے کلیے ورنہ
﴿قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦﴾
(20-طه: 123تا126)
”فرمایا: تم دونوں اکٹھے یہاں سے اتر جاؤ، تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ گمراہ ہوگا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ ہاں جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی۔ اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ الہی ! مجھے تو نے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔ وہ (اللہ ) فرمائے گا: اسی طرح میری آیات آئیں تو تو انہیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلا یا جائے گا۔ “
11: اللہ تعالی کے مخلص دوستوں پر شیطان کا وار نہیں چلتا
اللہ تعالیٰ کے جو مخلص بندے ہوتے ہیں ان پر شیطان کا وار نہیں چلتا۔ اس ضمن میں ہم چند آیات مبارکہ ذکر کرتے ہیں۔
﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
(17-الإسراء: 65)
”میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں ۔ ان کا وکیل کارساز و مددگار ہونے کے لحاظ تیرا رب کافی ہے۔ “
﴿ وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢٠﴾ وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ﴿٢١﴾
(34-سبأ: 20، 21)
”شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا، یہ لوگ سب کے سب اس کے تابعدار بن گئے سوائے مومنوں کی جماعت کے۔ شیطان کا ان پر کوئی زور اور دباؤ نہ تھا مگر تا ہم ان لوگوں کو جان لیں جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اور کون شک میں ہیں۔ اور تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے۔“
﴿قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾ قَالَ هَٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ ﴿٤١﴾
(15-الحجر: 39تا41)
” (شیطان نے ) کہا: اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لیے (گناہ) کو مزین کروں گا، اور ان سب کو بھی گمراہ کروں گا۔ سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کر لیے گئے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ ہاں! یہی مجھ تک پہنچنے والی سیدھی راہ ہے۔ “
12: شیطان کا وعدہ دھو کے پر مبنی ہے
ارشاد ربانی ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾ إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿١١٨﴾ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا ﴿١٢١﴾
(4-النساء: 116تا121)
”بے شک اللہ تعالیٰ قطعا نہ بخشے گا اس بات کو کہ اس کے ساتھ شریک بنایا جائے ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے، اور اللہ کے ساتھ شریک بنانے والا بہت دور کی گمراہی میں بھٹک گیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور صرف سرکش شیطان کو پوجتے ہیں۔ جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے بیڑا اٹھایا ہے کہ میں تیرے بندوں میں سے مقر رشدہ حصہ لے کر رہوں گا۔ اور انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں ضرور آرزوئیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیردیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ کی بنائی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے گا۔ وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہے گا، اور سبز باغ دکھاتا رہے گا ، (مگر یادرکھو!) شیطان کے جو وعدے ہیں وہ دھو کے کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے ۔“
● قیامت کے دن شیطان مکر جائے گا
﴿ وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٢٢﴾
(14-إبراهيم: 22)
”جب اور کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کی خلاف ورزی کی ، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں۔ ہاں میں نے تو تمہیں صرف بلایا اور تم نے میری مان لی۔ اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچتا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے ہو۔ یقینا ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔“
یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک دوزخ میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا: اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے کیے تھے (کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے ) وہ حق تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکہ اور فریب کے علاوہ کچھ بھی نہ تھے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾
(4-النساء: 120)
”شیطان ان سے وعدے کرتا اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکہ ہیں۔“
13 : شیطان صبر وتحمل کے ساتھ گمراہ کرتا ہے
﴿قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ﴿٦٣﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ﴿٦٥﴾
(17-الإسراء: 63تا65)
”ارشاد ہوا کہ جا، اُن میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے۔ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا کر لے آ، اور ان کے مال اور اولاد میں ان کا حصہ دار بن اور ان سے وعدے کر ۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں، سب کے سب دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں ۔ تیرا رب وکیل ہونے کے لحاظ سے کافی ہے۔“
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢١﴾
(24-النور: 21)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو!شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ۔ جو شخص شیطان کے قدموں کی پیروی کرے تو وہ (شیطان) تو بے حیائی اور برے کاموں کا حکم دیتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے کر دیتا ہے۔ اور اللہ سب کچھ سنے والا اور جاننے والا ہے۔ “
14: شیطان برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے میں ماہر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَد تَّبَيَّنَ لَكُم مِّن مَّسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ ﴿٣٨﴾
(29-العنكبوت: 38)
”اور ہم نے عادیوں اور ثمود یوں کو بھی غرق کیا، جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں، اور شیطان نے انہیں ان کے برے اعمال خوبصورت کر کے دکھائے اور انہیں اصل راہ سے روک دیا ، حالانکہ وہ سمجھ دار تھے۔“
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ ﴿٤٢﴾ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾
(6-الأنعام: 42تا44)
”ہم نے تجھ سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے ، پھر ہم نے ان کو تنگ دستی اور بیماری میں پکڑا تا کہ وہ عاجزی اختیار کریں۔ سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی وہ کیوں نہ گڑ گڑائے ، بلکہ ان کے قلوب (دل ) سخت ہو گئے اور شیطان نے جو کچھ وہ کر رہے تھے ان کے لیے خوش نما بنادیا۔ ۔ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول کر دیے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا ، پھر تو وہ بالکل مایوس ہو گئے۔“
﴿وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾
(27-النمل: 24)
”میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے مزین کر ديے ہيں. پس انہيں اصل راستے سے روک ديا ہے پس وه سيدہا راستہ نہيں پاتے .“
﴿تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾
(16-النحل: 63)
”واللہ ! ہم نے تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی اپنے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں مزین و خوش نما کر دیے، وہ شیطان آج بھی ان کا رفیق وساتھی بنا ہوا ہے ۔ اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“
﴿إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ ﴿٢٥﴾
(47-محمد: 25)
”یقیناً جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل اُلٹے پھر گئے اس کے بعد کہ ان کے لیے سیدھا راستہ واضح ہو چکا، شیطان نے ان کے لیے (ان کا عمل ) مزین کر دیا اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔“
15: شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے
شیطان لوگوں کے دلوں میں وساوس ڈالتا ہے، اور اس طرح انہیں متذبذب کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴿١٢١﴾
(6-الأنعام: 121)
”اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں تا کہ یہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔“
16: شیطان برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿١٦٩﴾
(2-البقرة: 168، 169)
”اے لوگو ! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ پیو۔ اور (ہوشیار رہنا ) شیطان کی پیروی نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا۔ اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔ “
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان کے مکر و فریب سے بچائے ۔ آمین