اسلام مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام سورۃ العصر کی روشنی میں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔
سورة العصر بڑی عظیم اور جامع سورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام کے بنیادی قواعد بیان فرمائے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
لولا أنزل القرآن إلا هذه السورة لكفتهم
”اگر پورا قرآن مجید نازل نہ بھی ہوتا، مگر یہ سورۃ نازل کر دی جاتی تو لوگوں کے لیے کافی تھی ۔“
سورۃ العصر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالْعَصْرِ.‏ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.﴾
[العصر]
”قسم ہے زمانے کی ! یقینا انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے، اور ایک دوسرے کو (ایمان اور عمل صالح کی) نصیحت کی ، اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی ۔ “
اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر کہا ہے، بالعموم انسان خسارے اور گھاٹے میں ہے، سوائے اس شخص کے جس میں چار صفات پائی جائیں گی:
1: اللہ تعالیٰ نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، ان پر ایمان لائیں۔
2: عمل صالح کریں، یعنی بھلائی کے جتنے کام ہیں، ان کو بجالائیں، چاہے ان کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہو یا بندوں کے حقوق سے اور چاہے وہ واجب ہوں یا مسنون یا مستحب ۔
3: جس ایمان اور عمل صالح کی باتیں اوپر بیان کی گئی ہیں، ان کی وہ آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور ان پر عمل کی رغبت لائیں۔
4: اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی بجالانے اور نواہی سے اجتناب میں جو تکلیف اور زحمت اٹھانی پڑے، اس پر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں، نیز ان دیگر تکلیفوں اور مصیبتوں پر بھی ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں جو اللہ کی تقدیر کا نتیجہ ہوتی ہیں، اور جنھیں اللہ کے سوا کوئی ٹال نہیں سکتا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن من وراء كم أيام صبر، للمتميك فيهن يومئذ بما أنتم عليه أجر خمسين منكم
”بے شک تمہارے بعد صبر والے دن آئیں گے، اس وقت تمہارے منہج پر قائم رہنے والے کے لیے تم میں سے پچاس آدمیوں کے برابر اجر ہوگا۔ “
درء الارتياب عن حديث ما انا عليه والاصحاب صفحه: 15 ۔ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے۔
امام محمد بن عبد الوہاب تمیمی رحمہ اللہ اس سورۃ مبارکہ کی روشنی میں رقمطراز ہیں: اصول الدین والدعوۃ چار ہیں:
(1) القول یعنی ایمان
(2) العمل
(3) الدعوۃ الیہ، یعنی پھر اس ایمان کی طرف دعوت دینا اور
(4) اصبر على الاذی فیہ، جو اس راستہ میں مصائب و تکالیف آئیں ان پر صبر کرنا۔ (اصول الدین)
یاد رہے کہ جس آدمی میں یہ چاروں صفات پائی جائیں گی وہ خسارے اور گھاٹے سے بچا رہے گا، اور دونوں جہان میں بڑی کامیابی کا حقدار ٹھہرے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے