کلمہ شہادت کے تقاضے اور باطل افکار کا رد
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

اسلام کا پہلا رکن، کلمہ شہادت لا إله إلا الله محمد رسول الله کا اقرار و اعتراف ہے۔
کلمہ توحید لا إله إلا الله کی شہادت کا معنی یہ ہے کہ اللہ اکیلے کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔
چنانچہ اس کلمہ کے اول جزء لا إله سے ان تمام معبودانِ باطلہ کی نفی اور تردید ہو جاتی ہے جن کی اللہ کے علاوہ پرستش کی جاتی ہے، اور دوسرے جزء الا الله سے اللہ عز وجل کے لئے ہر قسم کی عبادت کا اثبات ہو جاتا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، اس کے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
[آل عمران: 18]
”اللہ گواہی دیتا ہے کہ اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور فرشتے اور اہل علم گواہی دیتے ہیں، وہ (اپنے احکام میں) عدل پر قائم ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، جو عزت والا اور حکمت والا ہے۔ “

کلمہ توحید کے تقاضے:

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
اعمال سے پہلے عقیدہ توحید کا علم حاصل کرنا ضروری ہے، ورنہ عقیدہ توحید کے بغیر سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے روح کے بغیر جسم ختم ہو جاتا ہے۔
کلمہ توحید لا إله إلا الله کی شہادت کا تقاضا درج ذیل تین باتوں کا اقرار کرتا ہے۔
(1) توحید الوہیت ۔ (2) توحید ربوبیت ۔ (3) توحید اسماء وصفات۔

اوّل: توحید الوہیت:

یعنی جملہ عبادات میں اللہ تعالیٰ کو اکیلا مانا جائے ، اور کسی طرح کی عبادت غیر اللہ کے لیے نہ کی جائے۔
یاد رہے کہ یہی وہ توحید ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾
[الذاريات: 56]
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“
اور اس توحید الوہیت کی دعوت کو عام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام بھیجے، صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾
[النحل: 36]
”اور ہم نے ہر گروہ کے پاس ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ لوگو! اللہ کی عبادت کرو، اور شیطان اور بتوں کی عبادت سے بچتے رہو۔ “
”شرک“ ”توحید“ کی ضد ہے، جب ”توحید“ کا یہ معنی ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی عبادت میں اکیلا اور منفرد مانا جائے تو اس کے برعکس ”شرک“ کی تعریف یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور (غیر) کی بھی کسی طرح کی پرستش کی جائے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
المشرك الذى عبد مع الله إلها آخر
صحیح بخاری، کتاب التفسير سورة الرعد
”مشرک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی غیر کی بھی کسی طرح کی عبادت کرے۔“
چنانچہ جو شخص اپنی خوشی اور مرضی سے کسی بھی طرح کی عبادت کسی غیر اللہ کے لئے بجا لائے، چاہے وہ عبادت نماز ہو یا روزہ ، دعا ہو یا نذر، قربانی ہو یا کسی صاحب قبر وغیرہ سے فریادرسی تو اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا۔
اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾
[لقمان: 13]
”بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔“
جس کی وجہ سے سارے اعمال صالحہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ (18) انبیاء کرام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
﴿وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
[الأنعام: 88]
”اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک کی ہیبت ناکی اور اس کی خطرناکی کو بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
[الزمر: 65]
”کہ آپ کو اور آپ سے پہلے تمام انبیاء ورسل کو بذریعہ وحی بتا دیا گیا ہے کہ آپ نے شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہو جا ئیں گے ۔“
تفسیر ابن کثیر: 57/3، 56، تحقیق عبدالرزاق المهدی
قارئین کرام! اگر وہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور عظیم ہونے کے باوجود شرک کا ارتکاب کر بیٹھتے تو ان کے سارے اعمال ضائع ہو جاتے، تو اگر دوسرے لوگ شرک کا ارتکاب کریں گے تو ان کا کیا حال ہوگا؟
اور شرک کے مرتکب کے جان و مال بھی غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قال: لا إله إلا الله عصم منى ماله ونفسه
صحیح مسلم، کتاب الایمان ، رقم: 125 ۔ صحیح بخاری، کتاب الجهاد والسير، رقم: 2946
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا إله إلا الله کا اقرار کر لیں ۔ پس جس شخص نے بھی لا إله إلا الله کہہ دیا اُس نے اپنا مال اور جان محفوظ کر لیا ۔“

دوم: توحید ربوبیت:

یعنی اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق، زندہ کرنے والا ، موت دینے والا ہے، اور وہی سارے جہان کا کارساز ہے جس کی آسمانوں اور زمین میں حکومت ہے۔ اور اس قسم کی توحید کا اقرار و اعتراف اس فطرت کا تقاضا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا فرمایا ہے، حتی کہ مشرکین جن کے درمیان رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے وہ بھی اس کا اقرار کرتے تھے اور اس کے منکر نہ تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
﴿قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾
[يونس: 31]
”یعنی آپ پوچھئے کہ تمہیں آسمان اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے، یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے، اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، اور کون تمام امور کی دیکھ بھال کرتا ہے، وہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ تو آپ کہئے کہ پھر تم لوگ شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو“
اس قسم کی توحید کا انکار کم ہی لوگوں نے کیا ہے، اور وہ بھی تکبر و عناد کی وجہ سے ظاہری طور پر کیا ہے، ورنہ دل سے وہ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہی کے متعلق ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ﴾
[النمل: 14]
”اور ان نشانیوں کا انہوں نے ظلم وسرکشی کی وجہ سے انکار کر دیا ، حالانکہ ان کا باطن ان کی صداقت کا یقین کر چکا تھا۔ پس آپ دیکھیں کہ فسادیوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ “

سوم: توحید اسماء و صفات:

آیا ہے وقت نازک غفلت میں ہے زمانہ
کوئی نہیں سناتا توحید کا ترانہ
یعنی اللہ تعالیٰ نے ، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں، ان پر ایمان لایا جائے اور انہیں بلاتکییف و تمثیل اور بلاتحریف و تعطیل مان لیا جائے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾
[الأعراف: 180]
”اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام ہیں، پس تم لوگ اسے انہی ناموں کے ذریعہ پکارو۔ “
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ﴾
[الإسراء: 110]
”آپ کہہ دیجئے ! کہ تم لوگ اللہ کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کے نام سے پکارو، جس نام سے چاہو اسے پکارو، تمام بہترین نام اسی کے لئے ہیں۔ “
نیز ارشاد فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾
[الشورى: 11]
”کوئی چیز اُس کے مانند نہیں اور وہ خوب سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔ “
کلمہ توحید لا اله الا الله کی شہادت اور گواہی مذکورہ بالا تینوں قسموں کی توحید کا اقرار و اعلان ہے۔ چنانچہ جو شخص اس کے معانی و مفہوم کو سمجھ کر اس کا اقرار کر لے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے، یعنی شرک سے بچتا رہے اور اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو جائے تو وہ سچا اور حقیقی مسلمان ہے۔ اور اس کے برعکس جو زبان سے اقرار کرلے اور دل سے تصدیق کئے بغیر ظاہراً اس کے تقاضے پورے کرے تو وہ منافق ہے۔ اور جس نے اپنی زبان سے اقرار کیا لیکن اس کے تقاضوں کے خلاف عمل کیا تو وہ کفر کرتا ہے اگرچہ وہ بار بار اس کلمہ کو پڑھتا رہے۔

شہادت رسالت:

محمد رسول الله کا معنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کا اقرار کرنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کرنا ہے، یعنی آپ کے احکامات کی بجا آوری، اور منہیات و ممنوعات سے اجتناب کرنا اور ساری عبادات کو آپ کی لائی شریعت کے مطابق ادا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
[التوبة: 128]
”مسلمانو! تمہارے لئے تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں، جن پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے، تمہاری ہدایت کے بڑے خواہش مند ہیں، مومنوں کے لئے نہایت شفیق ومہربان ہیں۔ “
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾
[النساء: 80]
”جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے اللہ (ہی) کی اطاعت کی۔“
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾
[آل عمران: 132]
”اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ “

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے:

کلمہ توحید کے دوسرے جزء محمد رسول الله کے کچھ تقاضے ہیں، جنھیں پورا کیے بغیر بندہ مؤمن اور مسلمان نہیں بن سکتا۔

پہلا تقاضا:

کلمہ توحید کے دوسرے جزء محمد رسول الله کا تقاضا ہے کہ بندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾
[الحجرات: 15]
”یاد رکھو! مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
والذي نفس محمد بيده لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا كان من أصحاب النار
صحیح مسلم کتاب الایمان، رقم: 386
”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اس زمانے (یعنی میرے اور میرے بعد قیامت تک) کا کوئی یہودی یا نصرانی (یا کوئی اور دین والا) میرا حال سے پورا ایمان نہ لائے اس پر جس کو میں دے کر بھیجا گیا ہوں تو وہ جہنم میں جائے گا۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ مریم کے بیٹے (سیدنا عیسی علیہ السلام) تم لوگوں میں عادل حکمران بن کر اتریں گے تو وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو ختم کر دیں گے، جزیہ کو موقوف کردیں گے اور مال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی آدمی قبول نہیں کرے گا، ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا، پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور اگر تم چاہو تو (سورہ نساء) کی یہ آیت پڑھو (جو اس حدیث کی تائید کرتی ہے) کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا، جو عیسی کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن عیسیٰ اس پر گواہی نہ دیں۔ “
صحیح بخاری ، کتاب احادیث الانبیام 49، رقم: 3448۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 389
مزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم علیہ السلام کے بیٹے (سیدنا عیسی علیہ السلام) تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا۔ “
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، رقم: 3449
جب بندہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے تو ساتھ یہ عقیدہ رکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾
[الأحزاب: 40]
”محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، البتہ آپ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أنا خاتم النبيين لا نبي بعدي
صحیح بخاری، رقم: 3535۔ صحیح مسلم حدیث: رقم 2286 ۔ سنن ابی داؤد، رقم: 4252
”میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “
عبد اللہ بن ابی اوفی سے کہا گیا کہ آپ نے ابراہیم بن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا؟ آپ نے جواب میں کہا کہ بچپن ہی میں ان کا انتقال ہو گیا لیکن اگر اللہ ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی بنانا چاہتا تو وہ زندہ رہتے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
صحیح بخاری: 37/10
امام احمد کی روایت ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رحمة الله على إبراهيم لوعاش لكان صديقا نبيا
مسند احمد: 133/3
”اللہ کی رحمت ہو ابراہیم پر اگر زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے۔ “
حافظ ابن حجر فتح الباری میں ابن مندہ کی روایت بیان کی ہے کہ:
ولكن لم يكن لأن نبيكم آخر الأنبياء
فتح الباری: 47/10
”ان کو اللہ نے اس وجہ سے زندہ نہیں رکھا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔“
فائدہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے حکم میں ہے کیونکہ صحابہ کرام غیبی باتوں کو اپنی ذاتی رائے سے نہیں کہہ سکتے ۔ لازمی طور پر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کیا ہوگا، اگرچہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔
ان آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں پتا چلا کہ قادیانیوں کا دعویٰ کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھا، قرآن وسنت کا انکار ہے اور کفریہ عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ کے حامل لوگ مسلمان نہیں ہیں اور بلکہ ان کا جھوٹا نبی مرزا غلام احمد قادیانی بھی مسلمان نہیں تھا۔

ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے جھوٹے مرزا غلام احمد قادیانی کے گستاخانہ اورکفریہ عقائد ونظریات:

1: مرزا غلام احمد نے قرآن حکیم کی توہین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے (یعنی مرزے کے )منہ کی باتیں ہیں۔ “
2: احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یوں لکھتا ہے:
”جو حدیث میری بات سے معارض ہو اس حدیث کو ہم ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ “
مزید کہا:
”ہم وہ حدیثیں تائیدی طور پر پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف اور میری بات کے خلاف نہ ہوں“
اعجاز احمدی ، ص: 30 ۔ روحانی خزائن: 9/140، از مرزا غلام احمد
3: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھتا ہے:
”لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو حسن وحسین سے افضل کہا تو میں جواباً کہتا ہوں ہاں میں ان سے افضل ہوں عنقریب اللہ میری یہ فضیلت ظاہر کر دے گا۔ “
اعجاز احمدی، ص: 58 ، از مرزا غلام احمد قادیانی
4: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھتا ہے:
”ابو ہریرہ بے وقوف تھے اور ان کی روایات ٹھیک نہیں تھیں ۔“
اعجاز احمدی ص: 18، از غلام احمد
5: مزید کہا:
”بعض صحابہ احمق تھے ۔ “
ضمیمہ نصر و الحق ص: 140
6: ”ابوبکر و عمر کیا تھے وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے جوتیوں کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہ تھے ۔ “
ماہنامہ المہدی بابت جنوری 1915 صفحہ 158، احمد یہ انجمن اشاعت لاہور ، اور کتاب المہدی، صفحہ: 58
7: انبیاء اور رسل کی توہین کرتے ہوئے کہنے لگا:
”میرے باپ نے کہا تھا وہ آدم، نوح اور عیسی سے افضل ہے کیونکہ شیطان نے آدم کو جنت سے نکالا جبکہ میں بنی آدم کو جنت لے جاؤں گا، یہودیوں نے حضرت عیسی کو سولی چڑھا دیا جبکہ میں صلیب توڑ دوں گا، نوح کا بیٹا گمراہ تھا جبکہ میرا بیٹا راہ ہدایت پر ہے۔ “
ماہنامہ الفضل 18 جولائی 1931
8: مزید کہتا ہے:
”وہ کمالات جو تمام انبیاء میں پائے جاتے تھے ان کو حضرت محمد کی ذات میں اکٹھا کیا گیا اور پھر انھیں بڑھا کر میری طرف منتقل کر دیا گیا اسی لیے میرا نام آدم، ابراہیم ، موسیٰ ، نوح، داؤد، یوسف، سلیمان، یحیی اور عیسی رکھا گیا ۔ “
ملفوظات احمد یہ 2 / 142
9: خالق کائنات کی شان میں بھی گستاخی کی ہے، کہتا ہے:
”میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور پھر یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔ “
کتاب البریۃ ص: 75 مندرجہ روحانی خزائن: 3/ 103، از مرزا قادیانی
غور فرمائیں کہ ایسا شخص جو کتاب وسنت کا منکر ہو، انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی گستاخی کرتا ہو، اور خالق کائنات کو برا بھلا کہتا ہو، وہ نبی تو کیا، عام مسلمان بھی نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا انسان کافر ہے۔ اُس کافر کے مزید کفریہ عقائد پڑھ لیجیے گا۔
10: وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے، وہ فرماتا ہے کہ: میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔
تجلیات الہیہ، ص: 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 396
11: خدا تعالیٰ نے آج سے 26 برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز مجھے قرار دیا ہے۔
حقیقیة الوحی، تتمہ ، ص: 67 ، مندرجہ روحانی خزائن ، جلد 22، صفحہ 502
12: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے۔ حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔
مرزا قادیانی کا مکتوب، اخبار الفضل قادیان، 22 فروری 1924ء
13: میں اس بات کا خود قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس نے کبھی اجتہاد میں غلطی نہیں کی۔
تمتہ حقیقۃ الوحی ص: 135، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 21، صفحہ 99
14: پس اس اُمت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیل یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا، مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا ۔
براہین احمدیہ، حصہ پنجم، صفحہ 99 ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 ، صفحہ 99
15: نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔
حاشیہ انجام آتھم ص: 6 مندرجہ روحانی خزائن، جلد 11 صفحہ 290
16: یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔
کشتی نوح حاشیہ جس: 73 ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 ، صفحہ 71
17: ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لیے افیون مفید ہوتی ہے۔ پس علاج کی غرض سے مذائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لیے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔
نسیم دعوت ، صفحہ 69 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 434
18: دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
نجم الھدی صفحہ 3 ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، صفحہ 53
19: ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسی کو نہیں مانتا یا عیسی کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے ہر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
کلمة الفصل ص: 110 از مرزا بشیر احمد M.A ابن مرزا قادیانی
20: اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اُس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔
انوار الاسلام ص: 30 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9، صفحه 31، از مرزا قادیانی
21: اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد کوئی دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے۔
تذکرہ مجموعہ الہامات ص: 168 طبع دوم از مرزا غلام احمد قادیانی
22: سچا خدا ہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔
دافع البلاء، ص 11 ، بمندرجہ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 23 از مرزا غلام احمد قادیانی
23: یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے، اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے، حتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے۔
حضرت خلیفہ المسیح مرزا بشیر الدین محمود کی ڈائری – اخبار الفضل قادیان نمبر 5 ، جلد 110- 12 جولائی 1922
24: مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر ۔
اربعین نمبر 4، صفحہ 19، مندرجہ روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 25 از مرزا قادیانی
25: عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ اُسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔
حاشیہ انجام آتھم ص: 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد از صفحہ 290 از مرزا قادیانی
26: خدا نے اس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس سے پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔
دافع البلاء، ص: 13 ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233 از مرزا قادیانی
27: جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غبی اور درایت اچھی نہیں رکھتا ہے۔
اعجاز احمدی، ص: 18، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، ح 127 از مرزا قادیانی
28: جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے، اس کو چاہیے کہ ابو ہریرہ کے قول کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دے۔
ضمیمہ براھین احمدیہ، حصہ پنجم ص: 410، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 ، صفحہ 410 از مرزا قادیانی
29: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں ۔
ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ) صفحہ 1 از مرزا غلام احمد قادیانی

دوسرا تقاضا:

محمد رسول الله کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مطاع سمجھیں، آپ کی اطاعت اور اتباع کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾
[الحشر: 7]
”اور رسول تمھیں جو کچھ دے اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کر دیں اس سے رک جاؤ۔ “
کیونکہ آپ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے تھے، بلکہ وہ سب اللہ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ.مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ.وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى.﴾
[النجم: 1، 2، 3]
”ستارے کی قسم جب وہ گرتا ہے، تمھارے ساتھی (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم) نہ گمراہ ہوئے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے ہیں۔ “
اور سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
﴿وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾
[النساء: 113]
”اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت دونوں نازل کیا ہے۔“
صاحب ”فتح البیان“ رقمطراز ہیں: ”یہ آیت دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحی ہوتی تھی جو آپ کے دل میں ڈال دی جاتی تھی ۔“
قرآنِ حکیم اور سنت رسول دونوں منزل من اللہ ہیں۔ قرآن حکیم کی تفسیر اول سنت رسول ہے، قرآن مجید کے معانی و مفاہیم کو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھنا ہوگا۔ بلکہ قرآن حکیم کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾
[النحل: 44]
”اس ذکر (قرآن ) کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی توضیح کر دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہے تاکہ لوگ غور و فکر کریں۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ واياكم ومحدثات الأمور فإن كل بدعة ضلالة
مسند أحمد: 127، 126/4۔ سنن ابوداؤد، کتاب السنة، رقم: 4607۔ سنن ترمذی، رقم: 2687 سنن ابن ماجه، رقم: 42۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اس کو اپنی ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوط کر کے پکڑ لو، اور بدعات سے بچو، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ “

تیسرا تقاضا:

رسالت کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اپنے اختلافی مسائل میں فیصل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا جائے۔ اور جو فیصلہ آپ فرما دیں اس کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
[النساء: 65]
”پس قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں، اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ “
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
[النساء: 59]
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تمہارے اوپر اختیار والے ہیں، اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں تنازع ہو جائے تو اس کا حل صرف یہ ہے کہ اسے اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی تمہارے لیے بہتر اور عاقبت و انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے۔ “
امام احمد نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا۔ دستہ کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہو گئے تو انھوں نے آگ جلوائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے حکم دیا، دستہ کے ایک نوجوان نے لوگوں سے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اس لیے لائے ہیں تاکہ آگ سے بچیں، اسی لیے ہم لوگ جلدی نہ کریں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں ۔ جب انھوں نے واپس آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اُس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے ، امیر یا قائد کی اطاعت بھلائی کے کام میں ہوتی ہے۔
صحیح بخاری کتاب أخبار الاحاد، رقم: 7257۔ مسند أحمد: 82/1
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ”اولی الامر“ سے مراد اہل فقہ و دین ہیں اور مجاہد ، عطا اور حسن بصری وغیرہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں ۔ لیکن بظاہر حق یہ ہے کہ تمام اہل حل وعقد امراء اور علماء مراد ہیں۔
تفسير ابن كثير: 706/1، طبع مکتبه قدوسيہ لاھور
مجاہد اور دوسرے سلف اہل علم نے کہا ہے کہ ”اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو“ سے مقصود قرآن وسنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن و سنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن وسنت کی طرف رجوع میں ہی ہر خیر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے۔

اختلاف کے وقت اہل علم کی آراء کی حیثیت:

مشہور ثقہ امام عامر بن شراحيل الشعبی التابعی (المتوفی 104ھ) فرماتے ہیں:
ما حدثوك هؤلاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فخذ به وما قالوه برأيهم فألقه فى الحش
سنن الدارمي المقدمة، رقم: 206
”یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بیان کریں اسے (مضبوطی سے) پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے کہیں اسے بیت الخلا میں پھینک دو۔ “
تابعی صغیر مشہور ثقہ وثبت امام الحکم بن عتبتہ (المتوفی 115ھ) فرماتے ہیں:
ليس أحد من خلق الله الا يؤخذ من قوله ويترك إلا النبى صلى الله عليه وسلم
جامع بيان العلم وفضله: 91/2- الأحكام لابن حزم: 293/6
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کی بات لی اور چھوڑی نہ جاسکتی ہو۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایسی بابرکت اور پاکیزہ شخصیت ہیں جن کی ہر بات کی جائے گی۔ “
اہل رائے کے مشہور امام جناب ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن اپنے شاگرد خاص قاضی ابو یوسف سے فرمایا:
ويحك يا يعقوب ! لا تكتب كل ما تسمع مني فإني قد أرى الر أى اليوم وأتركه غدا وأرى الر أى غدا و أتركه بعد غد
تاريخ يحيى بن معين: 607/2 ، ت: 2461- تاریخ بغداد: 424/13
”اے یعقوب ! (ابو یوسف) تیرا ستیاناس ہو! میری ہر بات نہ لکھا کر ، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے، کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔ “
شاہ صاحب تفہیمات 2/ 240 میں لکھتے ہیں:
در فرع پيروي علماء محدثين كه جامع باشند ميان فقه و حديث كردن ودائما تفريعات فقهيه رابر كتاب و سنت عرض نمودن و آنچه موافق باشد در حيز قول آوردن والا كالائے بديرش خاوند دادن. امت راهيچ وقت از عرض مجتهدات بر كتاب و سنت استغناء حاصل نيست و سخن متقشفه فقهاء كه تقليد عالمي را دستاويز ساخته تتبع سنت را ترك كرده اند نه شنيدن و بديشان التفات نه كردن و قربت خدا جستن بدوري اينان
”فروع میں علماء محدثین جن کی فقہ حدیث دونوں پر نظر ہو۔ کی پیروی کرنا۔ فقہ کے فروعی مسائل کو ہمیشہ کتاب وسنت پر پیش کرنا، جو ان کے موافق ہو اسے قبول کرنا اور جو مخالف ہو اسے رد کر دینا چاہیے۔ امت کو اپنے اجتہادی مسائل کتاب وسنت پر پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں متقشف فقہاء کی بات قطعاً نہ سنے۔ جن لوگوں نے اہل علم کی تقلید کر کے کتاب وسنت کو ترک کر دیا ہے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھے۔ ان سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔“
امام مالک رحمہ اللہ فرما یا کرتے تھے کہ:
كل الناس يؤخذ منه ويؤخذ عليه إلا صاحب هذا القبر، وأشار إلى قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: ”ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور ردّ بھی کی جا سکتی ہے سوائے اس روضہ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) والے کی بات کے۔ اور اشارہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیا کرتے تھے۔ “
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فتوی دے کر فرمایا کرتے تھے ہم اس مسئلہ میں اسی حد تک سمجھ سکے ہیں اگر کوئی دوسرا (عالم) ہم سے زیادہ واضح طور پر مسئلہ کو سمجھا دے تو اس کی بات مانی جائے۔
فرقہ پرستی اور اسلام از محمد سلطان المعصومی المکی ص: 43
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ان چار مذاہب میں سے ہے جو مشہور ہیں اور ان کی پیروی کی جاتی ہے، لیکن یہ بات جان لینی چاہیے کہ حق انھیں چار مذاہب میں منحصر نہیں، بلکہ حق کسی اور مذہب میں بھی ہوسکتا ہے اور انہی چاروں ائمہ کا کسی مسئلہ میں اتفاق پوری امت کا اجماع قرار نہیں پا سکتا اور خود ان ائمہ کو اپنا مقام و مرتبہ معلوم تھا اور انھیں اس بات پر یقین تھا کہ ان کی اطاعت اسی مسئلے میں ہو سکتی ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو، اسی لیے وہ اپنی تقلید سے منع کرتے تھے، الا یہ کہ ان کا مذہب سنت کے موافق ہو۔ “
”اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابوحنیفہ، امام احمد ، امام الشافعی ، امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کا مذہب غلط بھی ہوسکتا ہے اور درست بھی اور ہر ایک کے قول کو لیا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، کہ ان کا ہر فرمان واجب الاتباع ہے، لہذا اس مدرس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے شاگردوں کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ پڑھائے ، لیکن شرط یہ ہے کہ جب اسے اس کے خلاف دلیل مل جائے تو وہ اسی کی پیروی کرے اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو چھوڑ دے اور اپنے طالب علموں کو بتائے کہ دلیل ہی حق ہے اور ان کے لیے بھی یہی لازم ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں صرف دلیل پر عمل کریں اور جب دونوں کا آپس میں ٹکراؤ ہو تو امام حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک چھوڑ دیں۔ “
مجموع فتاوى و رسائل الشيخ ابن عثيمين: 28/1
ثقہ محدث امام عبدالعزیز بن رفیع (المتوفی 130ھ) فرماتے ہیں:
امام عطاء ابن ابی رباح رحمہ اللہ (المتوفی 114 علی المشہور) سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: لا ادري (مجھے اس کے متعلق علم نہیں) امام عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ امام عطاء ابن ابی رباح سے کہا گیا: ألا تقول فيها برأيك؟ ”آپ نے اپنی رائے سے جواب کیوں نہیں دیا؟ “ اس کے جواب میں امام عطاء ابن ابی رباح نے فرمایا: إني أستحي من الله أن يدان فى الأرض برائي ”میں اللہ سے اس بات میں حیا کرتا ہوں کہ زمین میں میری رائے کو دین بنایا جائے ۔ “
سنن الدارمی: 471: 108 تاریخ دمشق: 27، 26/23
امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس مسلمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح اور ثابت ہو جائے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی کے قول و عمل کی وجہ سے اس سنت اور حدیث کو چھوڑ دے اور بلاشبہ حق پر بہت ہی لوگ ہیں ۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان و عمل کی اقتدا کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور طریقہ پر عمل کرتے ہیں اور اگر کسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو مختلف طریقوں سے عمل ثابت ہو تو وہ کبھی ایک طریقہ پر عمل کر لیتے ہیں اور کبھی دوسرے طریقہ پر اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ آپ کے خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کی قدر کرتے ہیں ۔
فرقہ پرستی اور اسلام ص: 145 محمد سلطان المصومی المکی
کیا کسی نے خوب کہا ہے:
زلة العالم زلة العالم
”ایک عالم کی لغزش سارے جہان کی لغزش کی موجب ہے۔ “
شیخ ابن باز رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
كل قول يخالف الأذلة الشرعية يجب أن تطرح ولا يعول عليه لقول الله عزوجل ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ وقوله ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْئٍ فَحُكْمُهُ إِلى اللهِ﴾
فتاوى مهمة تتعلق بالصلاة ص: 58
”ہر ایسا قول جو شرعی دلائل سے ٹکراتا ہو، اسے ٹھکرا دینا واجب ہے، کیونکہ فرمانِ الہی ہے: پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ، اگر تمھیں اللہ اور آخرت کے دن پر یقین ہے۔ یہ بہت بہتر اور انجام کے اعتبار سے بہت اچھا ہے، اور فرمایا: اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔ “
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے وجوب العمل بسنة الرسول صلى الله عليه وسلم وكفر من أنكرها کے
عنوان سے ایک مقالہ لکھا ہے، جس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
”اور جب حج تمتع کے مسئلے میں کچھ لوگوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ دلیل دی کہ سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما حج افراد کے قائل ہیں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عین ممکن ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسنا شروع ہو جائیں، میں کہتا ہوں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے، اور تم کہتے ہو کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نے یوں فرمایا ہے۔ “
اس کے بعد شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإذا كان من خالف السنة لقول أبى بكر وعمر تخشى عليه العقوبة فكيف بحال من خالفها لقول من دونهما، أولمجرد رأيه واجتهاده
مجموع فتاوى ومقالات متنوعة، ص: 99
”پس اگر کوئی شخص قول ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی وجہ سے سنت کو چھوڑ دے تو اس پر عذاب نازل ہونے کا ڈر ہے، تو اگر کوئی ان دونوں کے قول کے علاوہ کسی امام کے قول، یا اپنی رائے اور اجتہاد کی وجہ سے سنت کو چھوڑ دے تو اس کے متعلق کیا وعید ہو سکتی ہے؟“
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث مل جائے تو اس کے مقابلے میں کسی کا قول لینا جائز نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور فرمان کو اختیار کرنا اور اس پر عمل کرنا ہی ہر مسلمان کے لیے واجب اور فرض ہے اور کسی فقہی مذہب یا کسی امام کے قول کو قرآن وحدیث سے متقدم قرار دینا جائز نہیں ہے ۔
فرقہ پرستی اور اسلام ص: 47 از محمد سلطان المعصومی
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ويل للآتباع من عثرات العالم، قيل: كيف ذاك؟ قال: يقول العالم شيئا برأيه ثم يجد من هو أعلم منه برسول الله صلى الله عليه وسلم فيترك قوله ثم يمضى الاتباع
منہج سلف صالحین، ص 176
”عالم کی ہر اچھی بری بات کی اتباع کرنے والے ہلاکت میں ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو آپ نے فرمایا: ایک عالم اپنی رائے سے کوئی بات کہتا ہے پھر اس کی اتباع میں کوئی شخص جو اس عالم سے زیادہ علم رکھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول و عمل پاتا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول چھوڑ کر اس عالم کی اتباع کرتا ہے۔ “
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ما من أحد إلا وهو ما خوذ من كلامه ومردود عليه إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا میں کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا، جس کی ہر بات صحیح تسلیم کر لی جائے ۔ “
حضرت شاہ صاحب کا یہ استدلال قرآن حکیم کی اس آیت سے ماخوذ ہے:
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ.﴾
[النجم: 3، 4]
”وہ (رسول) اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتا، بلکہ وہ وحی الہی ہوتی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔ “
حجتہ اللہ البالغہ، ص: 149
امام علائی سے منقول ہے کہ جب کسی مقلد کو دوسرے امام کا قول حدیث کے مطابق نظر آئے اور اپنے امام کا قول حدیث کے خلاف ہو تو اس مقلد کو چاہیے کہ اپنے امام کے قول کو چھوڑ کر دوسرے امام کا قول جو کہ حدیث کے مطابق ہے اس کو اپنا لے۔
معيار الحق ص: 90- الظفر المبين، ص: 50
شیخ محمد جمیل زینو فر ماتے ہیں کہ:
ونحن لم نؤمر إلا باتباع القرآن المنزل من عند الله، وقد شرحه لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بأحاديثه الصحيحة، لقوله تعالى ﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ فلا يجوز لمسلم سمع حديثا صحيحا أن يرده لأنه مخالف لمذهبه، فقد أجمع الأيقة على الأخذ بالحديث الصحيح، وترك كل قول يخالفه
مجموع رسائل التوجيهات الاسلامية: 135/1
”ہمیں صرف قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہے اور اس کی تفسیر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صحیح احادیث کے ذریعے فرما دی ہے، فرمان الہی ہے: تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ اتارا گیا ہے، اسی کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اولیاء کی پیروی نہ کرو تو کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ صحیح حدیث کو سن لے، پھر اسے اس لیے رد کر دے کہ وہ اس کے مذہب کے خلاف ہے، کیونکہ خود ائمہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کیا جائے اور اس سے ٹکرانے والا ہر قول و مذہب چھوڑ دیا جائے ۔ “
امیر المومنین خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا رأى لأحد مع سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم
سنن دارمی ، مقدمه باب ما يتقى من تفسير حديث النبي، وقول غيره عند قوله، رقم: 432، 433۔ اعلام الموقعين: 78/1
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عليك بأثار من سلف، وإن رفضك الناس، وإياك وآراء الرجال وإن زخرفوا لك القول
اعلام الموقعين: 1/ 80
”تم آثار سلف کو لازم پکڑو، چاہے لوگ تم سے جدا ہو جائیں، اور تم لوگوں کی آراء سے بچو اگرچہ لوگ تمھارے لیے بات کو مزین کر کے پیش کریں۔ “

چوتھا تقاضا:

چوتھا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت کی مخالفت نہ کی جائے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ الصلوۃ واسلام کی مخالفت کرنے والے کو فتنہ اور عذاب الیم سے ڈرایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[النور: 63]
”پس جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے ۔“
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ“ کہنے لگا: میں اس سے نہیں کھا سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تو اس کے ساتھ نہ ہی کھا سکے۔ “ چنانچہ ایسے ہی ہوا اور واقعتاً اس کا دایاں ہاتھ مفلوج ہو گیا۔
صحیح مسلم، كتاب الاشربة، رقم: 2021

پانچواں تقاضا:

صرف چند مسلموں کی نہیں ہے یہ صدا
حرمت رسول پر پوری اُمت ہے فدا
محمد رسول الله کا پانچواں تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے اتنی زیادہ محبت کی جائے کہ وہ محبت تمام کائنات اور تمام موجودات کی محبت پر غالب آجائے۔ ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾
[التوبة: 24]
”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے کنبے قبیلے اور تمھارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنھیں تم پسند کرتے ہو، اگر یہ تمھیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
لا يؤمن عبد حتى أكون أحب إليه من أهله وماله و الناس أجمعين
صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 168
”کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اس کو میری محبت، گھر والوں اور مال اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبان سے محبت اور دشمنان سے دشمنی رکھی جائے۔
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! بے شک آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں اور آپ مجھے میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں اور بے شک جب میں گھر میں ہوتے ہوئے آپ کو یاد کرتا ہوں تو اس وقت تک میں صبر نہیں کرتا جب تک میں آپ کے پاس آکر دیدار نہ کرلوں، اور جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے یقین ہے کہ آپ تو اس وقت انبیاء کے ساتھ بلند و بالا مقام پر ہوں گے، جب آپ جنت میں داخل ہوں گے، اور بے شک میں جنت میں داخل ہوں گا تو مجھے ڈر ہے کہ میں اس وقت آپ کو نہ دیکھ سکوں گا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا جواب اس وقت نہیں دیا ، حتی کہ جبریل علیہ السلام یہ آیت لے کر اترے:
﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ﴾
[النساء: 69]
”اور جو شخص اللہ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق“ الی آخر الایۃ
معجم أوسط للطبرانی، رقم: 480
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے کہ ایسے محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے اور ان کے ناموں کے ساتھ دعائیہ کلمہ ”رضی اللہ عنہم“ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ‎﴾
[الأحزاب: 23]
”ایمان لانے والوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں کچھ لوگ اپنا وعدہ پورا کر کے چل بسے اور کچھ لوگ وقت آنے کے منتظر ہیں، انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے مراد یا تو وہ انصار مدینہ ہیں جنھوں نے بیعتہ العقبہ میں ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، یا وہ صحابہ کرام ہیں جنھوں نے نذر مانی تھی کہ اگر انھیں رسول اللہ کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا موقع ملا تو ثابت قدم رہیں گے اور راہ فرار نہیں اختیار کریں گے۔ چنانچہ ان میں سے بعض تو جنگ اُحد میں کام آگئے جیسے حمزہ ، مصعب بن عمیر اور انس بن النضر رضی اللہ عنہم اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی، اور جو بچ گئے جیسے عثمان بن عفان، طلحہ اور زبیر وغیرہم رضی اللہ عنہم وہ اللہ کی فتح ونصرت اور اس کی راہ میں شہادت کا انتظار کرتے رہے، اور انھوں نے اپنے رب سے جو عہد و پیمان کیا تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی اور نہ ہی منافقوں کی طرح نقض عہد کیا ، جس کی طرف اسی سورت کی آیت (15) میں اشارہ کیا گیا ہے، کہ ان منافقوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ میدانِ کارزار میں دشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھلائیں گے۔
تفسیر ابن کثیر تحت الاية، بتعديل يسير
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے مقتدا ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجد وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل بدعة ضلالة
مسند أحمد: 126/4۔ 127۔ سنن ابوداؤد، کتاب السنة، رقم: 4607۔ سنن ترمذی، رقم: 2687 سنن ابن ماجه رقم: 42۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اس کو اپنی ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوط کر کے پکڑ لو، اور بدعات سے بچو، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ “
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾
[النساء: 115]
”اور جو شخص راہ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا، اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی دوسری راہ کی اتباع کرے گا، تو وہ جدھر جانا چاہے گا ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے، اور وہ بُرا ٹھکانہ ہوگا۔ “
معلوم ہوا کہ جو کوئی حق واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا، اور مسلمانی کی راہ یعنی دین اسلام کے علاوہ کسی دوسری راہ کو اپنائے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے اُسی مخالفت رسول اور عدم اتباع اسلام کی راہ پر چھوڑ دے گا، بلکہ اُس کی نگاہوں میں اس کی اس روش کو خوبصورت اور عمدہ بنا دے گا یہاں تک کہ جہنم میں جا گرے گا۔
یہ آیت دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت آدمی کو کفر تک پہنچا دیتی ہے، اور اس پر بھی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت بھی کبیرہ گناہ ہے، اور یہ کہ اجماع بھی دلیل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إن الله لا يجمع أمتي على الضلالة، ويد الله على الجماعة
سنن ترمذی، کتاب الفتن، رقم: 2167ـ السنة لابن ابی عاصم، رقم: 81
”اللہ میری اُمت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہے۔ “

شیعیت اپنی کتب کے آئینے میں:

حق تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی جائے، انھیں اپنا مطاع اور مقتدا سمجھا جائے، مگر اس کے برعکس شیعہ اثنا عشریہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس حد تک نفرت کرتے ہیں کہ اُنھیں اسلام سے ہی خارج قرار دیتے ہیں۔ یقینی طور پر شیعہ اثنا عشریہ کے مسائل، توحید سے لے کر احکام شرعیہ تک اسلام سے متصادم ہیں۔ ذیل میں چند عقائد کا بیان کیا جاتا ہے:
1: تحریف اور تغیر و تبدل کے واقع ہونے میں قرآن، تورات و انجیل ہی کی طرح ہے اور منافقین امت پر مسلط ہو کر حاکم بن گئے وہ قرآن میں تحریف کرنے کے بارے میں اسی طریقہ پر چلے جو طریقہ بنی اسرائیل نے اختیار کیا۔
فصل الخطاب، ص: 70 بحواله بينات، ص: 62
2: موجودہ قرآن میں خلاف فصاحت اور قابل نفرت الفاظ موجود ہیں ۔
احتجاج طبرسی، ص: 25 بحواله ايضا، ص: 81
3: حضرت علی کا نام قرآن میں کئی مقامات سے نکال دیا گیا۔
دیباچه تفسیر صافی بحواله ایضا، ص: 75
4: امامت کا مرتبہ نبوت کے مرتبہ سے بالا تر ہے۔
حياة القلوب از باقر مجلسی: 3/3 بحواله أيضا، ص: 79
5: حق بات یہ ہے کہ کمالات و شرائط اور صفات میں پیغمبر اور امام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ۔
حياة القلوب از باقر مجلسی: 3/3 بحواله ايضا، ص: 110
6: ائمہ اطہار سوائے جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر تمام انبیاء اولو العزم وغیرھم سے افضل واشرف ہیں۔
احسن الفوائد فی شرح العقائد شیخ صدوق از محمد حسین مجتهد، ص: 406 ايضاً
7: علی علیہ السلام کی ولایت کا مسئلہ انبیاء علیہم السلام کے تمام صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور اللہ نے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور علی علیہ سلام کے وصی ہونے پر ایمان لانے کا حکم نہ لایا ہو اور اس نے اس کی تبلیغ نہ کی ہو۔
أصول کافی، ص: 276 بحواله ایرانی انقلاب، ص: 38
8: امام کی دس خاص نشانیاں ہیں۔ وہ بالکل پاک وصاف پیدا ہوتا ہے، ختنہ شدہ پیدا ہوتا ہے۔ پیدا ہو کر زمین پر آتا ہے تو اس طرح آتا ہے کہ دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے ہوتا ہے اور بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے، اس کو کبھی جنابت نہیں ہوتی ، سونے کی حالت میں صرف اس کی آنکھ سوتی ہے اور دل بیدار ہوتا ہے۔ اس کو کبھی جمائی نہیں آتی ، نہ وہ کبھی انگڑائی لیتا ہے، وہ جس طرح آگے کی جانب دیکھتا ہے اسی طرح پیچھے کی جانب سے بھی دیکھتا ہے، اس کے پاخانہ میں مشک کی سی خوشبو آتی ہے اور زمین کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ اس کو چھپا لے اور نگل لے اور جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرہ پہنتا ہے تو وہ اسے بالکل فٹ آتی ہے اور جب کوئی دوسرا وہی زرہ پہنتا ہے چاہے وہ لمبا ہوٹھینگا ہو زرہ اس کو ایک بالشت بڑی رہتی ہے۔
اصول کافی، ص: 246، بحواله ايضاً، ص: 128
9: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد سوائے چار افراد علی ابن ابی طالب ، مقداد، سلمان اور ابوذر کے سوا سب مرتد ہو گئے۔
حياة القلوب از باقر مجلسی، ص: 267 بحواله بينات ص: 106
10: ابوبکر و عمر اور ان کے رفقاء دل سے ایمان نہیں لائے تھے، انھوں نے (در طمع ریاست خود رابدین پیغمبر جسیانده بودند) خود کو حکمرانی کی لالچ میں پیغمبر علیہ السلام کے دین کے ساتھ چپکا رکھا تھا۔
كشف الاسرار از خمینی، ص: 112 بحواله بينات ص: 500
11: ابو بکر و عمر یہ دونوں قطعی کافر ہیں ان دونوں پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت۔
الجامع الكافي، كتاب الروضة ، ص: 62 بحواله بينات، ص: 43
12: جس طرح نوح اور لوط کی بیویاں طیبات میں داخل نہیں اسی طرح جناب عائشہ اور حفصہ بھی طیبات میں داخل نہیں۔
سهم مسموم از غلام حسین نجفی، ص: 20
13: ہم ایسے خدا کو پوجتے اور جانتے ہیں کہ جس کے کام عقل کے مطابق ہوں نہ کہ اس خدا کو جو یزید، معاویہ اور عثمان جیسے ظالموں، بدقماشوں کو حکومت دے دے۔
کشف الاسرار از خمینی، ص: 107 بحواله ایرانی انقلاب، ص: 61
14: ﴿إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى﴾
[محمد: 25]
”جب ہدایت واضح ہو کر ان کے سامنے آگئی تو وہ لوگ کفر کی حالت میں پلٹ کر مرتد ہو گئے ۔ “
اس آیت میں ابو بکر، عمر اور عثمان مراد ہیں جو امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت ترک کر دینے کی وجہ سے مرتد ہو گئے ۔
اصول کافی ص: 265، بحواله أيضاً، ص: 158
15: ان تسعة أعشار الدين فى التقية ”دین %90 فیصد جھوٹ میں ہے۔ “
الاصول الكافي: 2، تاليف أبي جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق الکلینی، طبع ایران
16: مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار (29/94) مطبوعہ دار الاحیاء التراث العربی، بیروت میں لکھا ہے: جب بھی تجھے کوئی اللہ عزوجل سے ضرورت پیش آئے ، تو اللہ پر توکل کرتے ہوئے تو اپنی حاجت کو ایک کاغذ پر تحریر کر کے ائمہ کی قبور میں سے کسی قبر پر ڈال دے، یا اُسے مہر لگا کر لپیٹ لے اور پھر صاف پاک گوندھی ہوئی مٹی میں اسے رکھ کر کسی بہتی نہر میں یا کسی گہرے کنویں میں یا پانی کی کسی جھیل میں ڈال دے۔ تیری یہ طلب امام علیہ السلام تک پہنچ جائے گی ، اور امام علیہ السلام بذات خود تیری ضرورت کو پورا کر دے گا۔
17: امام کلینی نے اصول الکافی (1/ 444) اور مجلسی نے بحار الانور (240/20) میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد علی اور فاطمہ کو تخلیق فرمایا۔ ان کی تخلیق کے ہزار ہا سال بعد اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کو اپنی مخلوقات کی آفرینش کا گواہ بنایا اور ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کو ان پر لازم کر دیا اور ان کے تمام امور کی دیکھ بھال کو ان کے سپرد کر دیا، لہذاوہ چاہیں تو کسی شے کو حلال کر دیں۔ اور چاہیں تو کسی چیز کو حرام قرار دے دیں۔
18: خمینی نے اپنی کتاب تحریر الوسیلہ (164/2) میں لکھا ہے کہ: شفاء کی خاطر مٹی کھانے کی ممانعت سے سیدنا حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی کی تخصیص و استثناء حاصل ہے۔ تاہم اس کا کھانا بھی صرف شفاء کی طلب کے لیے جائز ہے۔ اور وہ بھی صرف درمیانے سائز کے چنے کے برابر ۔ آپ کی قبر کی مٹی کی ہم سری کوئی بھی مٹی حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آئمہ علیہ السلام کی قبور کی مٹی بھی نہیں کر سکتی۔
19: امام کلینی نے فروع الکافی (ص: 59) میں لکھا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت بیسں حجوں کے مساوی بلکہ بیسں حج اور عمروں سے بھی زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

چھٹا تقاضا:

محمد رسول الله کا چھٹا تقاضا یہ ہے کہ لوگ آپ کے لائے ہوئے دین میں کمی یا زیادتی نہ کریں اور یہ بات طے ہے کہ دین مصطفی علیہ السلام مکمل ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
[المائدة: 3]
”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔“
امام مالک رحمہ اللہ ارشاد فرمایا کرتے تھے:
جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور اس کو وہ نیکی خیال کرتا ہے، تو تحقیق اس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ ”آج کے دن میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت کو مکمل کر دیا اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا ہے ۔ “
كتاب الاعتصام للشاطبي: 49/1
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس بارے میں ارشاد گرامی ہے:
إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه
مسند احمد: 11/5- سلسلة الصحيحة، رقم: 3260
”جب میں تم کو کوئی حدیث بیان کروں تو اس پر زیادہ نہ کرو۔“
زیادہ کردہ کام مردود بدعت ہوگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورة
صحیح بخاری، رقم: 2297
”جس نے کوئی بھی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں، پس وہ کام مردود ہے۔“
کام بظاہر کتنا ہی اچھا ہو، چونکہ اس کی بنیاد یا اس کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، لہذا وہ بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
كل بدعة ضلالة، وإن رأها الناس حسنة
ذم الكلام للهروى، رقم: 276
”ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔ “
علامہ شاطبی اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں: كل بدعة ضلالة حدیث علماء کے نزدیک عموم پر مبنی ہے، اس عموم سے قطعاً کوئی چیز مستثنی نہیں اور نہ کسی حالت میں کوئی بدعت ، بدعت حسنہ ہوگی ۔
فتاوى الشاطبي، ص: 180

تصوف کی بدعت:

ان بدعات میں سے جو فی زمانہ مروج ہیں۔ بدعت تصوف بھی ہے، جس میں بدعات و خرافات اور خود ساختہ اور اد وظائف کی بھرمار ہے، یہ بات بھی یاد رہے کہ لفظ ”تصوف“ کا وجود قرونِ ثلاثہ میں نہ تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”علماء حق نے واضح طور پر اس کی تصریح کی ہے کہ تصوف کا لفظ قرونِ ثلاثہ میں مشہور ہی نہ تھا بعد میں اس کی شہرت ہوئی ۔ “
مجموع فتاوی ابن تیمیة: 16/11
لفظ تصوف ، صوف سے مشتق ہے کیونکہ عام طور پر متصوف اچھے کپڑوں کو چھوڑ کر صوف یعنی اونی کپڑے پہننے لگے تھے۔
مقدمة ابن خلدون
الرماح کے مؤلف نے شیخ احمد تیجانی سے نقل کیا ہے کہ میرے دونوں پاؤں آدم علیہ السلام سے لے کر نفخ صور تک ہر ولی کی گردن پر ہیں ۔
بحواله الهدية الهادية الى الطائفة التيجانية، ص: 55
سلیمان الدارانی سے منقول ہے:
إذا طلب الرجل الحديث أو الزواج أو سافر فى طلب المعاش فقد أكن إلى الدنيا
احياء العلوم: 6/1
”اگر آدمی حدیث سیکھے یا شادی کرنا چاہے یا روزی کی تلاش میں سفر کرے تو وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا۔ “
ابوبکر شبلی سے منقول ہے، کہ ان کو کوئی اونی کپڑا یا ٹوپی یا عمامہ پسند آجاتا تو فوراً اس کو جلا دیتے اور کہتے:
كل شيء مالت إليه النفس دون الله وجب إتلافه فقيل له: لم لا تتصدقبه فقال …الخ
طبقات شعرانی: 89/1
”یعنی اللہ کے علاوہ جس چیز کی طرف نفس مائل ہوا اسے منعدم کر دینا واجب ہے۔ ان سے کہا گیا کہ اس کا صدقہ کر دیتے یعنی کسی مسکین و فقیر کو دے دیتے ، تو جواب دیا جب وہ چیز باقی رہے گی اگرچہ دوسرے کے جسم پر ہو اسے دیکھ کر نفس اس کے پیچھے پڑا رہے گا اس لیے اللہ کی طرف توجہ کی خاطر جلا کر ضائع کر دینا ہی اچھا ہے۔“
امام غزالی نے حمشادالدینوری سے نقل کیا ہے: ”وہ کہتے ہیں کہ تیس سال سے جنت مجھے پیش کی جا رہی ہے لیکن میں نے اسے ایک نظر بھی نہ دیکھا۔“
احیاء العلوم: 360/4
بعض گمراہ صوفیاء نے جہالت کو علم اور بدعت کو سنت کے بجائے اختیار کیا ہے۔ فتوحات ابن عربی (365/1) میں ہے:
”تم اپنا علم مردوں سے لیتے ہو اور ہم نے اپنا علم حی لا یموت سے لیا ہے۔“
ان کے ہاں علم حدیث سیکھنا عیب کی بات ہے۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ میں صوفیہ کے رباط میں اقامت پذیر تھا ان سے چھپ کر حدیث پڑھا لکھا کرتا تھا، ایک دن میری آستین پر روشنائی پڑ گئی تو بعض صوفیا نے کہا اپنی شرمگاہ کو چھپا لو۔
تیجانی فرقے کے شیخ احمد تیجانی سے صاحب الرماح نے (177/2) میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ خلوت کی شروط یہ ہیں: جس طرح مسجد میں داخل ہوتا ہے اسی طرح خلوت میں داخل ہو کر اپنے شیخ کے واسطے سے تمام مشائخ کی ارواح سے تعاون اور مدد طلب کرتے ہوئے داخل ہو، اور شیخ کے تصور کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو۔ کیونکہ وہ اس کا رفیق راہ ہے اور شیخ اپنے معنی اور روحانیت کے ساتھ مرید کے ساتھ رہتا ہے۔
✿ ابن عربی نے ”فتوحات مکیہ“ میں وحدت الوجود کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
”پاک ہے وہ ذات جس نے اشیاء کو پیدا کیا اور خود عین اشیاء رہا۔ “
بحوالہ اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات ، ص: 192
✿ مزید کہا کہ: ”یہ کتے اور سور ہی تو ہمارے الہٰ ہیں۔ اللہ تو گرجے میں پادری بنا بیٹھا ہے ۔ “
تصوف تحقیق و تجزیہ حکیم نبی احمد خان نعمانی رام پوری، بحوالہ نوائے اسلام دہلی ص: 10 جولائی 1999ء
✿ با یزید بسطامی انبیاء ورسل کی تحقیر کرتے ہوئے کہتا ہے:
”ہم (معرفت کے) سمندر میں گھس گئے مگر انبیاء ورسل ساحل پر ہی کھڑے رہ گئے۔“
فضائل صوفیه ی: 44-45
✿ مولانا روم کے ملفوظات ”فیہ مافیہ“ میں مرقوم ہے:
”ایمان و کفر کا تفرقہ بھی راستوں تک ہے، منزل پر نہیں ۔ سب بحثیں، جھگڑے، یہ راستہ غلط ، وہ راستہ صحیح ، یہ حق پر ، وہ باطل پر، جب منزل پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ سب اختلاف راستے کے تھے اور بس ، منزل مقصود سب کی ایک تھی۔ “
بحوالہ افکار رومی، مولانا عبد السلام رام پوری ص: 193
✿ ایک صوفی حسن رضوان متوفی 1310 ھ اپنے دیوان ”روض القلوب“ میں لکھتا ہے:
فليس فى الوجود شيئ يشهد
سواه فالأشياء به توحد

”موجودات میں کوئی شے نہیں ہے جس کا مشاہدہ کیا جا سکے، مگر وہی ذات الہی ساری اشیاء کے اندر وہی مضمر ہے۔ (یعنی حلول کیسے ہوئے ہے۔ )“
تصوف کو پہچانیے، از تقی احمد ندوی ، ص: 68
یہ وہ عقائد و افکار ہیں جو کتاب وسنت کے مخالف کفریہ اور شرکیہ عقائد ہیں، اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔

ساتواں تقاضا:

ساتواں تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اس شریعت مطہرہ ، شریعت بیضاء کو لے کر آئے ، ان کی ذات اقدس پر بکثرت درود و سلام بھیجا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
[الأحزاب: 56]
”یقینا اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من صل على واحدة صلى الله عليه عشرا
صحیح مسلم، رقم: 912
”جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔“
بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں درود شریف بھیجنا آپ کی قربت کا باعث ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن أولى الناس بي يوم القيامة أكثركم على صلاة
سنن ترمذی، کتاب الوتر، رقم: 484۔ صحیح ابن حبان، رقم: 9080 ۔ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھے گا ۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے