خدا اور آخرت: عقلی دلائل اور فطری یقین

خدا اور آخرت کا معاملہ

خدا اور آخرت کا معاملہ بظاہر غیبی دنیا سے متعلق معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ انسان کی فطرت خدا اور آخرت کو ایک معلوم حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیتی ہے۔

خدا کی معرفت کے دو درجے

➊ ایک عقلی درجے پر، جہاں انسان عقلی دلائل کے ذریعے خدا اور آخرت کے وجود کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
➋ دوسرا فطری درجے پر، جہاں یہ ایک مکمل یقین کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

عقلی دلائل کا مقصد

عقلی دلائل کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان کو شک سے نکال کر اسے ایک ممکنہ صداقت کے طور پر خدا اور آخرت کو تسلیم کرنے کے قابل بنایا جائے۔ جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو فطرت کا دروازہ اس پر کھل جاتا ہے اور وہ خدا اور آخرت کو ایک فطری سچائی کے طور پر جان لیتا ہے۔

فطرت کی آنکھ

ہر انسان کے اندر خدا اور آخرت کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، لیکن اس پر ذہنی کنڈیشننگ کا پردہ ہوتا ہے۔ عقلی دلیل اس پردے کو ہٹا کر فطرت کی آنکھ سے حقیقت کو واضح کرتی ہے۔

مثال

جیسے ایک بچہ اپنی ماں کے وجود پر یقین رکھتا ہے، حالانکہ اس نے خود کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اسی طرح انسان بھی خدا کے وجود پر یقین کر لیتا ہے۔

منطقی دلائل کی حد

خدا اور آخرت کا معاملہ صرف اس وقت تک عقلی بحث کا موضوع رہتا ہے جب تک کہ ذہنی پردہ ہٹ نہیں جاتا۔ جب یہ پردہ ہٹ جاتا ہے تو انسان خدا کو اپنی داخلی معرفت کے ذریعے پہچان لیتا ہے اور یہ معرفت تمام معلوم چیزوں سے زیادہ واضح اور قوی ہو جاتی ہے۔

آنکھ کی مثال

اگر کسی کی آنکھ پر پٹی بندھی ہو تو سورج کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب پٹی ہٹا دی جائے تو دلیل کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ خدا کا ہے۔

پروفیسر فلپ ہٹی کا مشاہدہ

پروفیسر فلپ ہٹی نے اپنی کتاب "ہسٹری آف عربس” میں قرآن کے بارے میں کہا ہے کہ قرآن کے سب سے زیادہ مؤثر حصے وہ ہیں جو آخرت کے معاملات سے بحث کرتے ہیں (صفحہ 130)۔

غیر مسلم جب قرآن پڑھتے ہیں تو عام طور پر وہ اسی قسم کا تاثر لیتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ اکثر مسلمان قرآن کو یا تو ثواب کے لیے یا فخر کے لیے پڑھتے ہیں، اور وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو قرآن کا بنیادی موضوع ہے: آخرت۔

آخرت کی پہچان اور فلسفیوں کی ناکامی

چونکہ آخرت کا معاملہ غیب سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کی حقیقی پہچان عقل، سائنس یا فلسفے کے ذریعے ممکن نہیں۔ ماضی کے بڑے فلسفی اس حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں، جیسے برٹرینڈ رسل نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیا کہ اس نے پوری زندگی ایسے حقائق کی تلاش میں گزار دی جنہیں جاننا ممکن ہی نہیں تھا۔

رسل کا اعتراف

"میری زندگی ضائع ہو گئی، میں ایسی باتوں کو جاننے کی کوشش کرتا رہا جن کو جاننا ممکن ہی نہیں تھا” (The Autobiography of Bertrand Russell, 1950, صفحہ 395)۔

وحی کا ذریعہ

چونکہ مابعد الطبیعاتی حقائق کو عقل و فلسفہ کے ذریعے جاننا ممکن نہیں، اللہ نے اس کے لیے وحی کا ذریعہ متعارف کروایا۔ کائنات اور انسان کی مقصدیت کو وحی کے ذریعے کھول کر بیان کیا گیا، اور آج تک کوئی اس کی معقول توجیہہ کا رد پیش نہیں کر سکا۔

اسلام کی تفصیل

اسلام کی پیش کی گئی تفصیل اور وضاحت اتنی معقول ہے کہ اس کا رد ممکن نہیں ہوا، اور متبادل طریقے ناکام ہو گئے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے