إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
صبر وشکر کی فضیلت :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾
(2-البقرة:1)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور بلاشبہ وہ یقیناً بہت بڑی ہے مگر ان عاجزی کرنے والوں پر ۔“
حدیث 1 :
«عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : عجبا لأمر المؤمن ، إن أمره كله خير وليس ذاك لاحد إلا للمؤمن ، إن أصابته سراء شكر فكان خيرا له ، وإن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم : 7500.
”سید نا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن آدمی کا معاملہ نہایت عجیب ہے۔ بلاشبہ اس کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات سوائے مومن آدمی کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو بھی اسے اجر وثواب ملتا ہے اور اگر اس کو نقصان، کوئی دکھ، تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو بھی اس کو اجر و ثواب ملتا ہے۔ “
محسن کا شکر یہ ادا کرنے کی اہمیت :
حدیث 2 :
«وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كثيرا ما يقول لي : يا عائشة ، ما فعلت أبياتك ؟ فأقول : و أى أبياتي
تريد يا رسول الله ، فإنها كثيرة ؟ فيقول : فى الشكر فأقول : نعم بأبى وأمى ، قال الشاعر : ادفع ضعيفك لا يحربك ضعفه يوما فتدركه العواقب قد نما يجزيك أو يثني عليك وإن من أثنى عليك بما فعلت كمن جزى إن الكريم إذا أردت وصاله لم تلف رنا حبله واهي القوى قالت : فيقول : يا عائشة ، إذا حشر الله الخلائق يوم القيامة قال لعبد من عباده اصطنع إليه عبد من عباده معروفا: هل شكرته ؟ فيقول : أى رب ، علمت أن ذلك منك فشكرتك عليه ، فيقول : لم تشكرني إذا لم تشكر من أجريت ذلك على يديه»
سنن ترمذی ، کتاب البر والصلة، رقم : 1954 ، مجمع الزوائد : 180/8 ، صغیر للطبرانی، رقم : 690۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مجھ سے ارشاد فرماتے: عائشہ! تیرے وہ شعر کون سے ہیں۔ میں کہتی آپ کون سے اشعار پوچھنا چاہتے ہیں؟ شعر تو بہت ہیں آپ فرماتے : شکر کے متعلق ہیں۔ تو میں کہتی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں وہ یہ ہیں۔ شاعر کہتا ہے:
① اپنے کمزور کو اس طرح واپس کریں کہ اس کی کمزوری تجھے کسی دن بھی پریشان نہ کرے تو اچھے انجام اس کے بڑھ جائیں گے۔ وہ کمز ور تمہیں اس کی جزا اور بدلہ دے گا، تیری تعریف کرے گا، تیرے کام پر اس کی تعریف کرنا بھی بدلہ دینے کی طرح ہے۔ اچھے آدمی سے جب تو حسن سلوک کرے گا تو اس کی بھی ڈول کی رسی کمزور نہیں ہوگی ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: عائشہ جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مخلوقات کو جمع کرے گا تو اپنے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو فرمائے گا جس کے ساتھ کسی نے نیکی کی ہوگی کہ کیا تو نے اپنے محسن کا شکر یہ ادا کیا ہے؟ وہ کہے گا ؟ اے میرے رب ! میں نے یہ سمجھ کر کہ یہ تیری طرف سے ہے میں نے تیرا شکر ادا کر دیا تھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے میرا شکریہ ادا نہیں کیا جب کہ تو نے اس شخص کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا جس کے ہاتھوں پر میں نے تجھ پر اپنا احسان جاری کیا۔“
بڑے صبر کا بڑا اجر :
حدیث 3 :
«وعن أنس بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه: قال عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله إذا أحب قوما ابتلاهم فمن رضي ، فله الرضا ومن سخط ، فله السخط»
سنن ابن ماجه ، کتاب الفتن، رقم : 4031 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 146.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزما تا ہے، پھر جو راضی رہے اس کے لیے (اللہ کی) رضامندی ہے اور جو ناراض ہو جائے اس کے لیے (اللہ کی) ناراضگی ہے۔ “
اولاد فوت ہونے پر صبر کرنے کی فضیلت :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴾
(27-النمل:19)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” چنانچہ سلیمان اس ( چیونٹی) کی بات پر مسکرا کر ہنس دیا اور کہا: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام کی ہے، اور اس بات کی بھی کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تو پسند کرے، اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔“
حدیث 4 :
«وعن أبى موسى الأشعري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا مات ولد العبد، قال الله لملائكته: قبضتم ولد عبدي فيقولون: نعم فيقول: قبضتم ثمرة فؤاده! فيقولون نعم فيقول: ماذا قال عبدي؟ فيقولون: حمدك واسترجع . فيقول الله: ابنوا لعبدى بيتا فى الجنة، وسموه بيت الحمد»
سنن ترمذی، رقم : 1021 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1408 .
”اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی بندے کی اولاد فوت ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے، تم نے میرے بندے کی اولاد ( کی روح) کو قبض کیا ہے! تو وہ کہتے ہیں، ہاں۔ پس اللہ فرماتا ہے ، تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا ہے! وہ کہتے ہیں ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پس میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں، اس نے تیری حمد بیان کی اور ”إِنا لله وإنا إليه راجعون“ پڑھا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، تم میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام ”بيت الحمد“ رکھو۔“
اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر ادا کرنے کا ثواب :
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾
(14-إبراهيم:7)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب تمھارے رب نے آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمھیں مزید دوں گا اور اگر تم کفر کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب بہت شدید ہے۔ “
حدیث 5 :
«وعن معاذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أكل طعاما فقال الحمد لله الذى أطعمنى هذا، ورزقنيه من غير حول منى ولا قوة غفر له ما تقدم من ذنبه»
سنن ترمذی، کتاب الدعوات، رقم : 3458، سنن ابن ماجه رقم : 3385۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کھانا کھائے اور پھر یہ کلمات کہے: (ترجمہ) تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے کھانا دیا اور مجھے بغیر میری طاقت وقوت سے بڑھ کر رزق دیا۔ تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ “
سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ﴾
(39-الزمر:66)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” بلکہ اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا۔ “
حدیث 6 :
«وعن أبى بكرة عن النبى صلى الله عليه وسلم : أنه كان إذا جانه أمر سرور أو شر به خر ساجدا ، شاكرا لله»
داؤد، باب في سجود الشكر، رقم :2774۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے نامدار، ختم الرسل، امام الانبیاء نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا: جب آپ کے پاس کوئی خوشخبری آتی تو آپ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ ریز ہو جایا کرتے تھے۔ “
اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی ترغیب :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَّا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا﴾
(4-النساء:147)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمھیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ اور اللہ بڑا قدردان، خوب جاننے والا ہے۔“
حدیث 7 :
«وعن المغيرة يقول: قام النبى صلى الله عليه وسلم حتى تورمت قدماه فقيل له: غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر، قال: أفلا أكون عبدا شكورا؟»
صحیح بخاری، رقم : 4836.
”اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج جاتے۔ آپ سے عرض کی گئی: اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں (تو پھر اس قدر مشقت کیوں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“
مصائب و مشکلات میں صبر کا اچھا اجر :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧ ﴾
(2-البقرة:155تا 157)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ہم تمھیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کر کے ضرور آزمائیں گے۔اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کی طرف بخشش اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔“
حدیث 8 :
«وعن أنس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لقد أوذيت فى الله وما يؤذى أحد، ولقد أخفت فى الله وما يخاف أحد ، ولقد أتت على ثالثة ، وما لي ولبلال طعام يأكله ذوكبد ، إلا ما وارى إبط بلال»
سنن ابن ماجه، رقم : 151۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” مجھے اللہ کی راہ میں اس قدر اذیت دی گئی ہے کہ کسی اور کو اتنی اذیت نہیں دی گئی اور مجھے اللہ کے راستہ میں اتنا ڈرایا گیا کہ اتنا کسی اور کو خوف زدہ نہیں کیا گیا۔ مجھ پر تین دن اور راتیں ایسی گزریں کہ کہ میرے اور بلال کے پاس اتنا کھانا بھی نہ تھا کہ جسے کوئی جگر والا کھائے۔ (وہ اتنا کم ہوتا تھا) کہ جسے بلال رضی اللہ عنہ بغل میں چھپالیتے تھے۔“
عورت کے صبر کا پھل :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾
(39-الزمر:10)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے رب سے ڈرو، ان لوگوں کے لیے جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی ، بڑی بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع ہے، صرف کامل صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔“
حدیث 9 :
«وعن عطاء بن أبى رباح قال: قال لي ابن عباس: ألا أريك امرأة من أهل الجنة؟ قلت: بلى، قال: هذه المرأة السوداء أنت النبى صلى الله عليه وسلم ، فقالت: إنى أصرع وإني أتكشف ، فادع الله ، لى قال: إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت دعوت الله أن يعافيك ، فقالت: أصبر ، فقالت: إني أتكشف فادع الله لي أن لا أتكشف فدعا لها»
صحیح بخاری، کتاب المرض رقم : 5652 ، صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، 22 رقم : 2576.
” اور سیدنا عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تجھے جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میں مرگی کی مریضہ ہوں اور (مرگی کے دوران) میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا فرمائیں (اللہ مجھے صحت عطا فرمائے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو صبر کرے تو تیرے لیے جنت ہوگی اور اگر چاہے تو اللہ سے تیرے لیے دعا کرتا ہوں وہ تجھے صحت عطا فرما دے گا۔ (اس صورت میں جنت کا وعدہ نہیں کرتا ) اس عورت نے عرض کیا: میں صبر کروں گی، لیکن ساتھ یہ بھی عرض کیا (مرگی کے دوران) میرا ستر کھل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ میرا ستر نہ کھلے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی ۔“
ثواب کی نیت سے صبر کرنے کا بیان :
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
(3-آل عمران:200)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر سے کام لو، اور ثابت قدم رہو اور مورچوں پر ڈٹے رہو، اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔“
حدیث 10 :
«وعن أبى هريرة أن رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: يقول الله تعالى: ما لعبدى المؤمن عندى جزاء إذا قبضت صفيه من أهل الدنيا ، ثم احتسبه إلا الجنة»
صحيح البخارى، كتاب الرقاق، رقم : 6424.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، مومن بندے کے لیے میرے پاس، جب میں اس کی دنیا کی پسندیدہ چیز چھین لوں، پھر وہ اس پر ثواب کی نیت رکھے (اور صبر کرے ) جنت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔ “
صبر روشنی ہے :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾
(42-الشورى:43)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور بلاشبہ جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ یقیناً بڑی ہمت کے کاموں سے ہے۔“
حدیث 11 :
«وعن أبى مالك الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الطهور شطر الإيمان، والحمد لله تملك الميزان ، وسبحان الله والحمد لله تملان أو تمد ما بين السماء والأرض، والصلوة نور، والصدقة برهان، والصبر ضياء، والقرآن حجة لك أو عليك . كل الناس يغدو ، فبايع نفسه فمعتقها ، أو موبقها»
صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم : 534.
”اور حضرت ابو مالک، حارث بن عاصم اشعری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پاکیزگی، نصف ایمان ہے (یعنی اجر وثواب میں آدھے ایمان کے برابر ہے ) اور الحمد لله کہنا میزان کو بھر دیتا ہے (یعنی بہت وزنی عمل ہے جس کے اجر وثواب سے میزان اعمال بھاری ہو جائے گی ) اور سبحان الله اور الحمد لله کہنا، یہ آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھر دیتا ہے اور نماز روشنی ہے (جس سے اسے دنیا میں حق کی طرف رہنمائی ملتی ہے اور آخرت میں پل صراط سے گزرتے وقت بھی یہ روشنی مومن کے کام آئے گی ) اور صدقہ دلیل ہے (اس بات پر کہ اس کا ادا کرنے والا مومن ہے ) صبر روشنی ہے، قرآن تیرے لیے حجت (دلیل) ہے (اگر اس پر عمل کیا جائے بصورت دیگر ) تیرے خلاف دلیل ہے ہر ایک صبح اپنے کاموں میں نکلنے والا ہے اور وہ اپنے نفس کا سودا کرتا ہے، پس اسے (عذاب سے ) آزاد کرنے والا ہے اور یا اس کو اللہ (اللہ کی رحمت سے محروم کر کے ) ہلاک کرنے والا ہے۔ “
صبر کی توفیق :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ﴾
(47-محمد:31)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ہم ضرور ہی تمھیں آزمائیں گے، یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمھارے حالات جانچ لیں۔ “
حدیث 12 :
«وعن أبى سعيد الخدري رضی اللہ عنہ : أن ناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاهم ، ثم سألوه فأعطاهم ، حتى نفد ما عنده ، فقال لهم حين أنفق كل شيء بيده: ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره ، ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء خيرا وأوسع من الصبر»
صحیح بخاری، کتاب الزكوة، رقم : 1469 ، صحيح مسلم، كتاب الزكوة، رقم: 2414۔
”اور حضرت ابو سعید سعد بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ طلب کیا، آپ نے انہیں کچھ دیا، انہوں نے پھر سوال کیا، آپ نے انہیں پھر دیا، حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا، ختم ہو گیا، آپ نے ، جس وقت ہر چیز جو آپ کے ہاتھ میں تھی ، خرچ کر دی، تو ان سے ارشاد فرمایا: میرے پاس جو کچھ بھی آتا، میں وہ تم سے بچا کر نہیں رکھتا اور جو شخص سوال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ اسے بچا لیتا ہے، جو بے نیازی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے (لوگوں) سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو صبر کا دامن پکڑتا ہے، اللہ اسے صبر کی توفیق دے دیتا ہے اور کسی شخص کو ایسا عطیہ نہیں دیا گیا، جو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر ہو۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا صبر :
حدیث 13 :
«وعن أنس قال: لما ثقل النبى صلى الله عليه وسلم جعل يتغشاه فقالت فاطمة رضي الله عنها : واكرب ابتاء . فقال: لها ليس على أبيك كرب بعد اليوم فلما مات قالت: يا أبتاه أجاب ربا دعاه، يا أبتاه من جنة الفردوس مأواه ، يا أبتاه إلى جبريل ننعاه ، فلما دفن قالت فاطمة رضي الله عنها : أطابت أنفسكم أن تحثوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب؟»
صحیح بخاری، کتاب المغازي، رقم : 4462.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے اور اضطراب اور بے چینی آپ پر چھا گئی تو (آپ کی صاحبزادی) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے منہ سے نکلا، ہائے ابا جان کی تکلیف! آپ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: تمہارے باپ پر آج کے بعد بے چینی نہیں ہو گی۔ جب وفات پا گئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، ہائے ابا جان، رب نے انہیں بلایا تو انہوں نے رب کی پکار پر لبیک کہا، ہائے ابا جان ! جنت الفردوس ان کا ٹھکانہ ہے، ہائے ابا جان! جبریل کو ہم آپ کی موت کی خبر دیں گے۔ جب آپ کو دفنایا گیا ، تو صاحبزادی نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) پوچھا، کیا تمہارے نفسوں نے یہ گوارا کر لیا کہ تم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسد اطہر ) پر مٹی ڈلوانا ۔ “
صبر کر کے اللہ سے ثواب کی امید رکھنے کا بیان :
حدیث 14 :
«وعن أسامة بن زيد بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم واحبة وابن حبة رضي الله عنها ، أرسلت ابنة النبى صلى الله عليه وسلم ، إن ابني قد احتضر صلى الله عليه وسلم فاشهدنا ، فأرسل يقرئ السلام ويقول: إن لله ما أخذ ، وله ما أعطى ، وكل عنده بأجل مسمى ، فلتصبر ولتحتسب ، فأرسلت إليه تقسم عليه ليأتينها . فقام ومعه سعد بن عبادة، ومعاذ بن جبل ، وأبي بن كعب، وزيد بن ثابت ، ورجال رضي الله عقنهم ، فرفع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبي ، فأقعده فى حجر ، ونفسه تتقعقع ، ففاضت عيناه، فقال سعد: يا رسول الله ما هذا؟ فقال: هذه رحمة جعلها الله فى قلوب عباده ، وفي رواية فى قلوب من شاء من عباده وإنما يرحم الله من عباده الرحماء»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : 1284 ، صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : 2135۔
”اور حضرت ابو زید، اسامہ بن زید بن حارثہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام، آپ کے محبوب اور محبوب کے بیٹے رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ میرے بیٹے کا آخری وقت (دم واپسیں) ہے، آپ تشریف لا ئیں ۔ آپ نے پیغام بھیجا کہ وہ سلام کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے ، وہ بھی اسی کا ہے اور جو دے، وہ بھی اسی کا ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، اس لیے انہیں چاہیے کہ صبر کریں اور اللہ سے ثواب کی امید رکھیں ۔ صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا اور قسم دیتے ہوئے کہا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور کچھ اور آدمیوں کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے، بچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، آپ نے اسے اپنے گود میں بٹھا لیا جب کہ اس کی جان بے چین اور مضطرب تھی، (اس کی یہ حالت دیکھ کر ) آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ جس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ جذبہ شفقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دلوں میں رکھا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: جن بندوں کے دلوں میں چاہا، اور اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں پر رحم فرماتا ہے جو رحیم (شفقت مہربانی کرنے والے) ہوتے ہیں۔ “
فوت ہونے والے بچے کے والدین کو صبر کی تلقین کرنے کا بیان :
حدیث 15 :
«وعن صهيب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كان ملك فيمن كان قبلكم ، وكان له ساحر ، فلما كبر قال للملك: إني قد كبرت فابعث إلى غلاما أعلمه السحر فبعث إليه غلاما يعلمه ، وكان فى طريقه إذا سلك راهب فقعد إليه وسمع كلامه فأعجبه ، فكان إذا أتى الساحر مر بالراهب وقعد إليه ، فإذا آتى الساحر ضربه ، فشكا ذلك إلى الراهب فقال: إذا خشيت الساحر فقل: حبسني أهلي، وإذا خشيت أهلك فقل: حبسني الساحر . فبينما هو كذلك إذ أتى على دابة عظيمة قد حبست الناس فقال: اليوم أعلم الساحر أفضل أم الراهب أفضل؟ فاخذ حجرا فقال: اللهم إن كان أمر الراهب أحب إليك من أمر الساحر فاقتل هذه الدابة حتى يمضي الناس ، فرماها فقتلها والناس ، فاتى الراهب فأخبره. فقال له الراهب: أى بني أنت اليوم أفضل مني ، قد بلغ من أمرك ما أرى ، وإنك ستبتلى ، فإن ابتليت فلا تدل على ، وكان الغلام يبرء الأكمه والابرص، ويداوي الناس من سائر الادواء. فسمع جليس للملك كان قد عمي ، فأتاه بهدايا كثيرة فقال: ما هاهنا لك أجمع إن أنت شفيتني ، فقال: إني لا أشفي أحدا ، إنما يشفي الله ، فإن أنت آمنت بالله دعوت الله فشفاك ، فآمن بالله فشفاه الله ، فأتى الملك فجلس إليه كما كان يجلس فقال له الملك: من رد عليك بصرك؟ قال: ربي ، قال: ولك رب غيري؟ قال: ربي وربك الله ، فأخذه فلم يزل يعذبه حتى دل على الغلام ، فجيء بالغلام فقال له الملك: أى بني قد بلغ من سحرك ما تبرء الأكمه والأبرص وتفعل وتفعل فقال: إني لا أشفي أحدا ، إنما يشفي الله ، فأخذه فلم يزل يعذبه حتى دل على الراهب ، فجيء بالراهب فقيل له : ارجع عن دينك ، فشقه فأبي ، فدعا بالمثشار فوضع المثشار فى مفرق رأسه ، حتى وقع شقاه، ثم جيء بجليس الملك فقيل له: ارجع عن دينك فأبي ، فوضع المنشار فى مفرق رأسه ، فشقه به حتى وقع شقاه ، ثم جيء بالغلام فقيل له: ارجع عن دينك فابي، فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال: اذهبوا به إلى جبل كذا وكذا فاصعدوا به الجبل ، فإذا بلغتم ذروته فإن رجع عن دينه وإلا ،فاطرحوه ، فذهبوا به فصعدوا به الجبل فقال: اللهم اكفنيهم بما شئت، فرجف بهم الجبل فسقطوا ، وجاء يمشي إلى الملك ، فقال له الملك : ما فعل أصحابك؟ فقال: كفانيهم الله ، فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال: اذهبوا به فاحملوه فى قرقور فتوسطوا به البحر ، فإن رجع عن دينه وإلا فاقذفوه، فذهبوا به فقال: اللهم اكفنيهم بما شئت ، فانكفات السفينة فغرقوا وجاء يمشي إلى الملك . فقال له الملك : ما فعل أصحابك؟ فقال: كفانيهم الله فقال للملك: إنك لست بقاتلى حتى تفعل ما آمرك به. قال: وما هو؟ قال: تجمع الناس فى صعيد واحد ، وتصلبنى على جذع ، ثم خذ سهما من كنانتي ، ثم ضع السهم فى كبد القوس ثم قل: بسم الله رب الغلام، ثم ارمني، فإنك إذا فعلت ذلك قتلتني. فجمع الناس فى صعيد واحد، وصلبه على جذع ، ثم أخذ سهما من كنانته، ثم وضع السهم فى كبد القوس ، ثم قال: بسم الله رب الغلام ، ثم رماه فوقع السهم فى صدغه ، فوضع يده فى صدغه فمات . فقال الناس : آمنا برب الغلام ، آمنا برب الغلام آمنا برب الغلام ، فأتي الملك فقيل له: أرأيت ما كنت تحذر قد والله نزل بك حذرك . قد آمن الناس . فأمر بالأخدود فى أفوام السكك فخدت وأضرم النيران وقال: من لم يرجع عن دينه فاحموه فيها ، أو قيل له: اقتحم، ففعلوا حتى جانت امرأة ومعها صبي لها ، فتقاعست أن تقع فيها ، فقال لها الغلام : يا أمه اصبرى فإنك على الحق»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم : 7511 .
”اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا (مشیر ) ایک جادوگر تھا، جب جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا، میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں، ایک لڑکا میرے سپرد کرو، تاکہ میں اسے یہ جادو کا علم سکھا دوں، چنانچہ بادشاہ نے ایک لڑکا اس کی طرف بھیجنا شروع کر دیا جس کو وہ جادو سکھاتا۔ راستے میں ایک پادری کا بھی ٹھکانا تھا، وہ لڑکا جب بھی جادوگر کے پاس جاتا، تو پادری کے پاس بھی ( تھوڑی دیر کے لیے ) بیٹھ جاتا، اسے اس کی باتیں اچھی لگیں، پس وہ جب بھی جادوگر کے پاس جاتا تو گزرتے ہوئے راہب (پادری) کے پاس بھی بیٹھ جاتا۔ جب وہ جادوگر کے پاس آتا ( تو دیر سے آنے کی وجہ سے) جادوگر اسے مارتا، اس نے راہب کو بتلایا۔ راہب نے اس سے کہا کہ جب تمہیں جادوگر سے (مار) کا ڈر ہو تو یہ کہہ دیا کرو کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والوں سے ڈر ہو تو کہہ دیا کرو کہ جادوگر نے مجھے روک لیا تھا۔
چنانچہ اسی طرح دن گزرتے رہے کہ ایک دن لڑکے نے اپنے راستے میں ایک بہت بڑا جانور دیکھا، جس نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا۔ لڑکے نے (دل میں ) کہا، آج پتہ چل جائے گا کہ جادو گر افضل ہے یا راہب؟ اس نے ایک پتھر پکڑ کر کہا، اے اللہ ! اگر راہب کا معاملہ تیرے نزدیک، جادوگر کے معاملے سے زیادہ پسندیدہ ہے تو اس جانور کو (اس پتھر کے ذریعے سے ) مار دے، تاکہ (راستہ کھل جائے اور ) لوگ گزر جائیں۔ یہ دعا کر کے اس نے پتھر اس جانور کو مارا، جس سے وہ ہلاک ہو گیا اور لوگ گزر گئے۔ وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے یہ واقعہ بتلایا، راہب نے اسے کہا: بیٹے ! آج تم مجھ سے افضل ہو، تمہارے (علم و تقویٰ) کا معاملہ جہاں تک پہنچ گیا ہے، میں وہ دیکھ رہا ہوں اور عنقریب تم آزمائش میں ڈالے جاؤ گے، پس جب آزمائش کا یہ مرحلہ آئے تو تم ( میرا بھانڈا مت پھوڑنا ) اور میری بابت لوگوں کو مت بتلانا اور یہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو (اللہ کے حکم سے ) درست کر دیتا تھا اور دیگر تمام بیماریوں کا علاج کرتا۔بادشاہ کا ایک درباری (ہم نشین) اندھا ہو گیا، اس نے جب سنا تو وہ بہت سے ہدیے لے کر لڑکے کے پاس آیا اور اس سے کہا، اگر تم مجھے ٹھیک کر دو، تو یہ سارے ہدیے، جو یہاں میں ساتھ لایا ہوں، تمہارے ہیں ۔
لڑکے نے کہا: میں کسی کو شفاء نہیں دیتا، شفا صرف اللہ دیتا ہے۔ اگر تم اللہ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ سے دعا کروں گا، پس وہ تمہیں شفاء عطا فرما دے گا۔ چنانچہ وہ اللہ پر ایمان لے آیا اور اللہ نے اسے شفاء عطا فرما دی۔ وہ (ٹھیک ہونے کے بعد) بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس اس طرح بیٹھ گیا، جیسے وہ بیٹھا کرتا تھا، بادشاہ نے اسے دیکھا تو پوچھا، تیری بینائی کس نے بحال کر دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا، کیا میرے علاوہ تیرا کوئی اور رب ہے؟ اس نے کہا، میرا اور تیرا رب (صرف ایک) اللہ ہے۔ بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کو سزا دیتا رہا حتی کہ اس نے لڑکے کا پتہ بتا دیا، چنانچہ لڑکے کو (بادشاہ کی خدمت میں ) لایا گیا، بادشاہ نے اس سے کہا، تیرے جادو کا کمال اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو درست کر دیتا ہے اور بھی فلاں فلاں کام کر لیتا ہے! لڑکے نے کہا، میں کسی کو شفاء نہیں دیتا، شفا دینے والا اللہ ہے۔ بادشاہ نے اسے بھی گرفتار کر لیا اور اسے سزا دیتا رہا حتی کہ اس نے راہب کا پتہ بتلا دیا۔ پس راہب کو پیش کیا گیا، راہب سے کہا گیا کہ تم اپنے دین سے پھر جاؤ! اس نے انکار کر دیا، بادشاہ نے آرہ منگوایا اور اس آرے کو اس کے سر کے عین درمیان (مانگ والے مقام) پر رکھ دیا گیا اور اس کے سر کو چیر دیا، یہاں تک کہ اس کے سر کے دو حصے ہو گئے ۔ پھر بادشاہ کے ہم نشیں ( درباری ) کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا! اس نے بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ آرہ اس کے سر کے مانگ والے مقام پر رکھ دیا گیا اور اس کے سر کو چیر دیا، جس سے اس کے سر کے بھی دو ٹکڑے ہو گئے ۔
پھر لڑکے کو پکڑ کر لایا گیا، اس سے کہا گیا، اپنے دین سے پھر جا، اس نے انکار کر دیا، بادشاہ نے اسے اپنے چند خاص آدمیوں کے سپرد کر دیا اور کہا کہ اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جاؤ، اس پر اسے چڑھاؤ، جب تم اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ (تو اس سے اس کے دین کی بابت پوچھو ) اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے وہاں سے نیچے پھینک دو! چنانچہ وہ اسے لے گئے اور اسے پہاڑ پر لے کر چڑھے، تو لڑکے نے دعا کی، اے اللہ ! تو ان کے مقابلے میں، جیسے تو چاہے، مجھے کافی ہو جا! چنانچہ پہاڑ لرزا، جس سے سب نیچے گر گئے۔ لڑکا بادشاہ کے پاس آ گیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا، تیرے ساتھیوں نے کیا کیا؟ (یعنی کیا انہوں نے تجھے پہاڑ کی چوٹی سے نہیں گرایا؟) لڑکے نے کہا، ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ مجھے کافی ہو گیا۔ بادشاہ نے اسے پھر اپنے چند خاص آدمیوں کے سپرد کیا اور ان سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور کشتی میں سوار کراو اور سمندر کے درمیان لے جا کر (اس سے پوچھو ) اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے سمندر میں پھینک دو!
چنانچہ وہ اسے لے گئے ، اس نے کشتی میں بیٹھ کر دعا کی، اے اللہ! ان کے مقابلے میں، جیسے تو چاہے، مجھے کافی ہو جا! چنانچہ کشتی الٹ گئی اور سب پانی میں ڈوب گئے۔ یہ لڑکا پھر بادشاہ کے پاس آ گیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا: تیرے ساتھیوں نے کیا کیا؟ (یعنی انہوں نے تجھے سمندر میں نہیں پھینکا؟) لڑکے نے کہا، اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں مجھے کافی ہو گیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا، تو مجھے اس وقت تک قتل نہیں کر سکتا ، جب تک تو وہ طریقہ اختیار نہ کرے جو میں تجھے بتلاؤں؟ بادشاہ نے کہا، وہ کیا ہے؟ اس نے کہا، تو ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کر اور مجھے سولی دینے کے لیے ایک تنے پر چڑھا، پھر میرے ترکش سے ایک تیرلے کر اسے کمان کے چلے پر رکھ کر کہو، اللہ کے نام سے، جو اس نوجوان کا رب ہے، پھر مجھ پر تیر چلا دو، سو جب تم یہ کام کر لو گے، تو مجھے مارسکو گے، بادشاہ نے تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور غلام کو ایک تنے پر لٹکا دیا، پھر اس کے ترکش سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے چلہ پر رکھا، پھر کہا، اللہ کے نام سے، جو اس نوجوان کا رب ہے، پھر اسے تیر مارا اور تیر اس کی کنپٹی پر لگا، تو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر تیر لگنے کی جگہ پر رکھ لیا اور مر گیا، لوگ کہنے لگے، ہم نوجوان کے رب پر ایمان لائے ، ہم نوجوان کے رب پر ایمان لائے، ہم نے نوجوان کے رب کو مان لیا، بادشاہ کو آ کر اطلاع دی گئی کہ دیکھئے ، جس بات کا آپ کو خطرہ یا دھڑ کا تھا، اللہ کی قسم! اس اندیشہ نے حقیقت کا روپ دھار لیا، لوگ ایمان لا چکے ہیں، تو اس نے گلیوں کے دہانوں پر کھائیاں (خندقیں ) کھودنے کا حکم دیا، ان کو کھودا گیا اور آگیں روشن کی گئیں اور کہا ، جو اپنے دین سے واپس نہ آئے تو انہیں ان میں جلا دو، یا اسے کہا جائے، کودو، چھلانگ لگاؤ، بادشاہ کے کارندوں نے ایسا کیا، حتی کہ ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کا بچہ تھا، اس نے اس میں گرنے سے پس و پیش کی (جھجکی ) تو بچے نے اسے کہا، اے میری ماں ! صبر کر ، ثابت قدم رہ، کیونکہ تو حق پر ہے۔“
صبر اختیار کرنے کی اہمیت :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿٥٨﴾ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٥٩﴾
(29-العنكبوت:58، 59)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ہم انھیں جنت کے بالا خانوں میں ضرور جگہ دیں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، (نیک) عمل کرنے والا کا اجر بہت اچھا ہے۔ جن لوگوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں۔ “
حدیث 16 :
«وعن أنس بن مالك رضی اللہ عنہ قال: مر النبى صلى الله عليه وسلم بامرأة تبكي عند قبر فقال: اتقى الله واصبري، فقالت: إليك عني ، فإنك لم تصب بمصيبتي ولم تعرفه ، فقيل لها: إنه النبى صلی اللہ علیہ وسلم ، فأتت باب النبى صلی اللہ علیہ وسلم ، فلم تجد عنده بوابين ، فقالت: لم أعرفك ، فقال: إنما الصبر عند الصدمة الأولى»
صحیح بخاری ، کتاب الجنائز، رقم : 1283 ، صحيح مسلم، کتاب الجنائز .
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رو رہی تھی، آپ نے اس سے ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر۔ اس نے کہا، مجھ سے دور ہو جا! تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی ۔ جو مجھے پہنچی ہے۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا (اس لیے فرط غم میں اس نے نازیبا انداز اختیار کیا ) بعد میں اس کو بتلایا گیا کہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ چنانچہ (یہ سن کر ) وہ آپ کے دروازے پر آئی، وہاں دربانوں کو نہیں پایا، آ کر اس نے کہا کہ میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ آپ نے اسے (پھر وعظ کرتے ہوئے) فرمایا: صبر تو یہی ہے کہ صدمے کے آغاز میں کیا جائے (بعد میں تو صبر آہی جاتا ہے) مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قبر اس کے بچے کی تھی جس پر وہ رو رہی تھی ۔“
غصے کی مذمت کا بیان :
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾
(3-آل عمران:134)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ لوگ جو خوشی اور سختی کے موقع پر (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں۔ اور اللہ نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔“
حدیث 17 :
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه ، أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم : أوصني، قال: لا تغضب فردد مرارا ، قال : لا تغضب»
صحیح بخاری ، كتاب الأدب، رقم : 6116 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے وصیت فرمائیے! آپ نے ارشاد فرمایا: غضب ناک نہ ہوا کرو۔ اس نے کئی مرتبہ اپنی درخواست دہرائی، آپ نے (ہر مرتبہ ) اسے یہی وصیت کی۔ غصہ مت کیا کرو! “
حدیث 18 :
«وعن معاذ بن أنس الجهني، عن أبيه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من كظم غيظا وهو يستطيع أن ينفذه دعاه الله يوم القيامة على رءوس الخلائق حتى يخيره فى أى الحور شاء»
سنن ابی داؤد، كتاب الأدب، رقم : 4777 ۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
” اور حضرت معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غصہ ضبط کر لے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کر لے۔ “
طاعون کی بیماری میں صبر کرنے کا بیان :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ﴾
(12-يوسف:18)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہ اس کی قمیض پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے، اس (یعقوب) نے کہا: (حقیقت یہ نہیں) بلکہ تمھارے نفسوں نے تمھارے لیے ایک (بری) بات آراستہ کر دی ہے، لہذا صبر ہی بہتر ہے، اور اس پر اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ “
حدیث 19 :
«وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها أخبرتنا أنها سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون ، فأخبرها أنه كان عذابا يبعثه الله على من يشاء، فجعله الله رحمة للمؤمنين ، فليس من عبد يقع الطاعون فيمكث فى بلده صابرا يعلم أنه لن يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد»
صحیح بخاری ، کتاب الطب، رقم : 5734.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا، آپ نے انہیں بتلایا کہ یہ عذاب تھا، جس پر اللہ تعالیٰ چاہتا، اسے نازل فرماتا، اب اللہ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت ( کا ذریعہ ) بنا دیا ہے۔ اب جو بندہ بھی اس طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو جائے اور وہ اپنے (طاعون زدہ) شہر میں ہی صبر کرتا ہوا، ثواب آخرت کی نیت سے ٹھہرا رہے، اسے یقین ہو کہ اسے وہی کچھ پہنچے گا، جو اللہ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، تو ایسے شخص کے لیے شہید کی مثل اجر ہے۔ “
غم اور تکلیف میں صبر کرنے پر گناہوں کی معافی :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا﴾
(25-الفرقان:75)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” انھی لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے میں (جنت کے ) بالا خانے جزا میں دیے جائیں گے، اور وہاں دعا اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال ہوگا۔“
حدیث 20 :
«وعن أبى سعيد الخدري، وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما يصيب المسلم من نصب ولا وصب ولا هم ولا حزن ولا أذى ولا غم، حتى الشوكة يشاكها إلا كفر الله بها من خطاياه»
صحیح بخاری ، کتاب المرضى، رقم : 5641، 5642، صحیح مسلم، کتاب البر۔
”اور حضرت ابوسعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو بھی تھکان، بیماری، فکر، غم اور تکلیف پہنچتی ہے، حتی کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ “
لوگوں کے ظلم و ستم پر صبر کرنا :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٧﴾
(16-النحل:96، 97)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ فنا ہو جائے گا، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ( ہمیشہ ) باقی رہنے والا ہے۔ اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ضرور انھیں ان کا اجر و ثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کرتے تھے۔ جس نے نیک عمل کیے، مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور ہم انھیں ضرور ان کا اجر وثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کرتے تھے۔“
حدیث 21 :
«وعبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: كأني أنظر إلى النبى صلى الله عليه وسلم يحكي نبيا من الأنبياء ، ضربه قومه فأدموه وهو يمسح الدم عن وجهه، ويقول: اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون»
صحیح بخاری، کتاب الجهاد، رقم : 3477.
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء علیہ السلام میں سے کسی نبی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جس کو اس کی قوم نے مار کر لہولہان کر دیا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتا ہوا کہہ رہا ہے، یا اللہ میری قوم کو معاف فرما دے، اس لیے کہ وہ بے علم ہے۔ “
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے صبر کا بیان :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ﴾
(11-هود:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”مگر جن لوگوں نے صبر کیا اور نیک عمل کیے، انھی کے لیے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔“
حدیث 22 :
«وعن عبد الله مسعود رضى الله عنه قال: لما كان يوم حنين آثر رسول الله صلى الله عليه وسلم أناسا فى القسمة: فأعطى الأقرع بن حابس مائة من الإبل ، وأعطى عيينة بن حصن مثل ذلك ، وأعطى أناسا من أشراف العرب فآثرهم يومئذ فى القسمة . فقال رجل: والله إن هذه القسمة ما عدل فيها ، وما أريد بها وجه الله ، فقلت: والله لأخبرن النبى صلى الله عليه وسلم فأتيته فأخبرته بما قال: فتغير وجهه حتى كان كالصرف . ثم قالظ : فمن يعدل إذ لم يعدل الله ورسوله؟ قال ثم قال: يرحم الله موسى قد أوذي بأكثر من هذا فصبر . فقلت: لا جرم لا أرفع إليه بعدها حديثا»
صحیح مسلم، كتاب الزكوة رقم : 2447 .
”اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حنین کا دن ہوا ( یعنی جنگ حنین کا واقعہ ہے کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کی تقسیم میں کچھ لوگوں کو ( تالیف قلب کے طور پر) ترجیح دی (یعنی انہیں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اچھا مال عطا کیا) پس آپ نے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیئے اور عیینہ بن حصن کو بھی اس کے مثل دیئے اور بعض اشراف عرب کو آپ نے عطیے دیئے اور انہیں بھی اس روز تقسیم میں ترجیح دی۔ ایک شخص نے ( یہ دیکھ کر ) کہا ، اللہ کی قسم! اس تقسیم میں عدل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور اللہ کی رضامندی اس میں پیش نظر نہیں رکھی گئی (حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے یہ الفاظ سنے ) اور کہا کہ اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور ان سے آگاہ کروں گا، چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس شخص نے جو کچھ کہا تھا، عرض کیا ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا حتی کہ وہ ایسے ہو گیا جسے سرخ رنگ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: پھر کون انصاف کرے گا جب اللہ اور اس کا رسول انصاف نہیں کرے گا؟ پھر مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ ایذائیں پہنچائی گئیں ، لیکن انہوں نے صبر کیا، پس میں نے (اپنے دل میں) کہا، یقینا میں آئندہ آپ تک کوئی بات نہیں پہنچاؤں گا۔“
صبر و رضا کا مظاہرہ کرنے والے کے لیے اللہ کی رضا کا بیان :
حدیث 23 :
«وعن أنس رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا أراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة فى الدنيا، وإذا أراد الله بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يوافي به يوم القيامة»
سنن ترمذی، ابواب الزهد، رقم : 2142۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو (اس کے گناہوں کی سزا) جلد ہی دنیا میں دے دیتا ہے (یعنی تکلیفوں اور آزمائشوں کے ذریعے سے اس کے گناہوں کی معافی کا سامان پیدا کر دیتا ہے ) اور جب اپنے بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے اس کے گناہ کی سزا ( دنیا میں ) روک لیتا ہے، یہاں تک کہ قیامت والے دن اس کو پوری سزا دے گا۔ “
غصے کے وقت اپنے نفس پر قابور رکھنے کا بیان :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ﴾
(42-الشورى:37)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب بھی غصے ہوتے ہیں وہ معاف کر دیتے ہیں۔ “
حدیث 24 :
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس الشديد بالصرعة، إنما الشديد الذى يملك نفسه عند الغضب»
صحیح بخاری ، کتاب الأدب، رقم : 6114 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طاقتور وہ نہیں ہے جو پچھاڑ دے، اصل طاقت ور ( پہلوان ) وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابورکھے ۔ “
حدیث 25 :
«وعن سليمان بن صرد قال استب رجلان عند النبى صلى الله عليه وسلم ونحن عنده جلوس وأحدهما يسب صاحبه مغضبا قد احمر وجهه فقال النبى صلى الله عليه وسلم إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه ما يجد لو قال أعوذ بالله من الشيطان الرحيم فقالوا للرجل ألا تسمع ما يقول النبى صلى الله عليه وسلم قال إنى لست بمجنون»
صحیح بخاری ، كتاب الأدب، رقم : 6115 .
”اور حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جھگڑا کیا، ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص دوسرے کو غصہ کی حالت میں گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے ۔ اگر یہ ”اعوذ بالله من الشيطن الرجيم“ کہہ لے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے کہا کہ سنتے نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ کیا میں دیوانہ ہوں؟ “
کسی کے ناروا سلوک پر صبر کرنا :
حدیث 26 :
«وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ستكون أثرة وأمور تنكرونها قالوا: يا رسول الله فما تأمرنا؟ قال تؤدون الحق الذى عليكم، وتسألون الله الذى لكم»
صحیح بخاری، کتاب الانبياء ، رقم : 3603 ، صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم : 4775۔
” اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد (ناروا) ترجیح دینے کا عمل ہوگا اور ایسے کام ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا ، یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ( ان حالات میں ) آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ ( یعنی ہم کیا کریں؟) آپ نے فرمایا کہ ”تم وہ حق ادا کرو، جو تمہارے ذمے ہوں اور جو تمہارے حق (دوسروں کے ذمے ہوں) ان کا سوال اللہ سے کرو۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو صبر کرنے کی وصیت :
حدیث 27 :
«وعن أسيدبن حضير رضى الله عنه أن رجلا من الأنصار قال: يا رسول الله ألا تستعملني كما استعملت فلانا قال: إنكم ستلقون بعدي أثرة، فاصبروا حتى تلقوني على الحوض»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم : 3792.
”اور حضرت ابو یحیی اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے عامل کیوں نہیں بناتے (کسی سرکاری کام پر مقرر نہیں فرماتے ) جس طرح فلاں شخص کو آپ نے عامل بنایا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: تم میرے بعد اس صورت حال سے دوچار ہو گے کہ دوسروں کو ترجیح دی جائے گی، پس تم صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھے (قیامت والے دن) حوض پر ملو۔ “
شکر گزار مال دار کی فضیلت :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ﴾
(3-آل عمران:92)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” تم ہرگز بھلائی نہ پاسکو گے جب تک ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جنھیں تم پسند کرتے ہو، اور تم جو بھی چیز خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔ “
حدیث 28 :
«عبد الله بن مسعود قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : لا حسد إلا فى اثنتين رجل آتاه الله مالا، فسلط على هلكته فى الحق، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها»
صحیح بخاری ، کتاب العلم، رقم : 73 ، صحیح مسلم، رقم : 544/1.
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صرف دو خصلتوں پر رشک کرنا جائز ہے۔ ایک اس آدمی کی خصلت جسے اللہ نے مال سے نوازا، پھر اسے حق کی راہ میں خرچ کرنے کی ہمت بھی دی اور دوسرے اس آدمی کی خصلت پر جسے اللہ نے حکمت و دانائی عطا فرمائی اور وہ اس کے ساتھ فیصلہ کرتا اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔ “
مل جل کر رہنے کی ایذا رسانی پر صبر کرنے کا بیان :
حدیث 29 :
«وعن ابن عمر ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: المسلم إذا كان مخالدا الناس ، ويصبر على أذاهم، خير من المسلم الذى لا يخالط الناس ، ولا يصبر على أذاهم»
سنن الترمذى، كتاب القيامة، رقم : 2507 ، سنن ابن ماجه ، رقم : 4032، سلسلة الصحيحة، رقم : 939.
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذا پر صبر نہیں کرتا۔“
اللہ عزوجل کا صبر و تحمل :
حدیث 30 :
«وعن أبى موسى رضى الله عنه ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس أحد أو ليس شيء أصبر على أذى سمعه من الله ، إنهم ليدعون له ولدا، وإنه ليعافيهم ويرزقهم»
صحیح بخاری ، کتاب الأدب، رقم : 6099.
” اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص تکلیف دہ بات سن کر اللہ عزوجل سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ (لوگ) اس کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور وہ اس کے باوجود انہیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔“
لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کا بیان :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا﴾
(17-الإسراء:3)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔“
حدیث 31 :
«وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من لا يشكر الناس لا يشكر الله»
الأدب المفرد : 12 (4811)، مسند احمد : : 2/295 ، 303 ، 461۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو لوگوں کا شکریہ ادا نہ کرے، وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا۔“
اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق مانگنے کا بیان :
حدیث 32 :
«وعن عطاء بن أبى رباح قال: قال لي ابن عباس: ألا أريك امرأة من أهل الجنة فقلت: بلى قال: هذه المرأة السوداء أنت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت: إنى أصرع وإني أتكشف فادع الله لى قال: إن شئت صبرت ولك الجنة وإن شئت دعوت الله أن يعافيك فقالت: أصبر فقالت إنى أتكشف فادع الله لي أن لا أتكشف فدعا لها»
48 صحیح بخاری، المرضى، رقم : 5652 ۔
” اور حضرت عطاء بن ابی رباح کا بیان ہے کہ مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں تجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا ضرور دکھا ئیں۔ انہوں نے کہا یہ وہ سیاہ رنگ عورت ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر کہا تھا کہ میں بے ہوش ہو کر برہنہ ہو جاتی ہوں، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اگر چاہتی ہو تو صبر کرو تمہیں جنت ملے گی اور اگر چاہتی ہو تو میں اللہ سے دعا کر دیتا ہوں کہ تمہیں عافیت دے دے۔ اس نے عرض کیا میں برہنہ ہو جاتی ہوں آپ میرے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ میں بر ہنہ نہ ہوں ۔ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی ۔“
حدیث 33 :
«وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مثل المؤمن كمثل الزرع لا تزال الرياح تفيته ولا يزال المؤمن يصيبه بلا ومثل المنافق كمثل شجرة الأرز لا تهتز حتى تحصد»
مسند احمد : 234/2.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کی مانند ہے ہوائیں اسے لہراتی رہتی ہیں اور مومن کو نمی پہنچتی رہتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی مانند ہے جو حرکت نہیں کرتا حتی کہ اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ “
حدیث 34 :
«وعن أبى الدرداء رضى الله عنه قال: سمعت أبا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: صلى الله عليه وسلم إن الله قال: يا عيسى إنى باعت من بعدك أمة إن أصابهم ما يحبون حمدوا وإن أصابهم ما يكرهون احتسبوا وصبروا ولا حلم ولا علم قال: يا رب كيف يكون هذا ولا حلم ولا علم قال: أعطيهم من حلمي وعلمي»
مستدرك حاكم : 348/1 ۔ ذہبی نے حاکم کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔
” اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسی ( علیہ السلام ) ! میں تیرے بعد ایک ایسی امت پیدا کرنے والا ہوں کہ اگر انہیں خوشی نصیب ہوگی تو (شکر کے طور پر) الحمد لله کہیں گے اور اگر انہیں تکلیف پہنچے گی تو وہ ثواب کی نیت سے صبر کریں گے۔ نہ حلم ہوگا نہ علم ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں انہیں اپنا حلم وعلم عطا کروں گا۔“
حدیث 35 :
«وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من يرد الله به خيرا يصب منه»
صحیح بخاری، کتاب المرضى، رقم : 5645.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کرنا چاہے اسے تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔“
حدیث 36 :
«وعن سعد بن أبى وقاص رضى الله عنه قال: قلت: يا رسول الله أى الناس أشد بلاء قال: الأنبياء ثم الأمثل فالأمثل يبتلى العبد على حسب دينه فإن كان فى دينه صلبا اشتد بلاؤه وإن كان فى دينه رقة ابتلي على حسب دينه فما يبرح البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الأرض وما عليه من خطيئة»
سنن ابن ماجه ، كتاب الفتن، رقم : 4013.
”اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سے زیادہ تکلیف کسے پہنچائی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء کو۔ پھر انہیں جو زیادہ فرمانبردار ہوں۔ پھر انہیں جو فرمانبرداری میں ان کے بعد ہوں۔ آدمی کو اس کی دین (سے محبت ) کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو اس کی آزمائش سخت ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دین کے مطابق آزماتا ہے (اللہ کے نیک) بندے پر آزمائش جاری رہتی ہے حتی کہ وہ زمین پر بے گناہ ہو کر چلتا ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ شکر ادا کرنے کا بیان :
حدیث 37 :
«وعن الاشعث بن قيس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أشكر الناس لله أشكرهم للناس»
مسند احمد : 212/5۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔
”اور حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کا شکر کرنے والا وہ شخص ہے جو لوگوں کا سب سے زیادہ شکر گزار ہو۔ “
ثواب کی نیت سے صبر کرنے کا بیان :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ﴾
(3-آل عمران:146)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور کتنے ہی نبی گزرے جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا، انھیں اللہ کی راہ میں جو تکلیفیں پہنچیں انھوں نے ہمت نہ ہاری اور نہ کمزوری دکھائی اور نہ وہ ( کافروں سے ) دبے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
حدیث 38 :
«وعن أبى هريرة رفعه إلى النبى صلى الله عليه وسلم قال: يقول الله عز وجل: من أذهبت حبيبتيه فصبر واحتسب لم أرض له ثوابا دون الجنة»
سنن ترمذی، کتاب الزهد، رقم : 2401۔ علامہ البانی اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں جس کی دونوں آنکھیں لے لوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرلے تو میں اس کے لیے جنت سے کم ثواب پر راضی نہیں ہوں گا۔“
کھانے پینے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنے کا بیان :
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾
(39-الزمر:7)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اگر تم ناشکری کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسند کرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان ) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ، پھر تمھارا لوٹنا تمھارے رب ہی کی طرف ہے تو وہ تمھیں بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ یقیناً وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے ۔ “
حدیث 39 :
«وعن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله ليرضى عن العبد ان يأكل الأكلة فيحمده عليها ، أو يشرب الشربة فيحمده عليها»
صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، رقم : 2734/89.
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس بات سے راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر اس کا شکر ادا کرے یا پانی پی کر اس کا شکر ادا کرے۔ “
صحیح معنوں میں شکریہ ادا کرنے کا بیان :
حدیث 40 :
«وعن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أعطى عطاء فوجد فليجز به ، فإن لم يجد فليثن به ، فمن أثنى به فقد شكر ، ومن كتمه فقد كفره»
سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، رقم : 4813، سنن ترمذی، رقم : 2120۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے کوئی عطیہ دیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے اور اگر استطاعت نہ ہو تو اس کی تعریف کرے (یعنی اس کے لیے دعا کرے) جس نے اس کی تعریف کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری کی۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين