عصر حاضر میں چند شرکیہ امور:
سطور ذیل میں مسلم ممالک میں پھیلے ہوئے شرک کے چند نمونے پیش خدمت قارئین ہیں ، ممکن ہے کہ کوئی راہ بھٹکا صراطِ مستقیم پر آ جائے اور ہماری اور اس کی بخشش و نجات کا سامان ہو جائے۔
(1) قبر پرستی :
فوت شدہ اولیاء کی ذات سے ضرورتوں اور حاجات کی باریابی اور مصائب کے حل کی تلاش اور مددو تعاون طلب کرنے کی غرض سے ان کی قبروں پر آنا قبر پرستی ہے۔ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ منع فرمایا:
«لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبياء هم مساجد»
[صحيح بخاري، كتاب الصلاة، رقم: 435]
”یہودیوں اور عیسائیوں پر اللہ کی لعنت ہو، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔“
نیز ارشاد فرمایا:
«ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبياء هم مساجد، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد فإني أنهاكم عن ذلك»
[صحيح مسلم، كتاب المساجد، رقم: 1188]
”خبر دار ! تم سے پہلے کے لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا تھا، اس لیے خبر دار ! تم بھی قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنا لینا۔ “
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والذين يزرون قبور الأنبياء والصالحين ويحبون إليهم ليدعوهم وليسألوهم أوليعبدوهم ويدعوهم من دون الله هم مشركون»
[الرد على الأخنائي، ص: 52]
”جو لوگ انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی قبروں کی زیارت کرنے کے لیے آتے ہیں، اور وہ اس غرض سے آتے ہیں کہ انھیں پکاریں اور ان سے سوال کریں یا ان کی عبادت کی غرض سے آتے ہیں تو وہ مشرک ہیں ۔ “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں انبیاء کی تصویروں، بزرگوں کی قبروں اور درختوں تک کی پرستش ہوتی تھی ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ:
”لات ایک صالح آدمی تھا جو حاجیوں کو ستو پلایا کرتا تھا۔ “
[صحيح بخاري كتاب التفسير، رقم: 4859]
مزید برآں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں :
”لات ایک سفید رنگ کا پتھر تھا، جس پر مکان بنا ہوا تھا، پردے لٹکے ہوئے تھے، اور وہاں مجاور رہتے تھے اور اس کے گرد حد مقرر کی ہوئی تھی ۔“
[ تفسير ابن كثير 267/4]
ابن جریر نے لکھا ہے کہ:
”عزی مکہ اور طائف کے درمیان ایک درخت تھا، جس پر عظیم الشان عمارت بنی ہوئی تھی ، اور اس میں پردے لٹکے ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے بعد ان سب قبوں اور تکیوں کو گرا دیا گیا اور ایسے درختوں کو کٹوا دیا گیا ۔ “
[تفسير طبري: 267/4]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ :
”قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا۔ “
[صحيح بخاري، كتاب التفسير رقم: 4861]
(2) غیر اللہ کے لیے نذرو نیاز :
اللہ کے علاوہ کسی کے لیے بھی نذرو نیاز کرنا شرک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
«من نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن یعصي الله فلا يعصه»
[مسند احمد: 208/6۔ شيخ شعيب نے اسے ”صحيح“ كها هے]
”جو شخص یہ نذر مانے کہ وہ کسی معاملہ میں اللہ کی اطاعت کرے گا تو اُسے اپنی یہ نذر پوری کرنی چاہیے، اور جو شخص ایسی نذر مانے جو اللہ کی نافرمانی پر منتج ہو تو اس کو پورا کر کے اللہ کا نافرمان نہ بنے۔ “
علامہ حصفکی نے الدر المختار میں لکھا ہے:
«واعلم أن الذى يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائج الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام»
[الدر المختار: 155/1]
”جان لو کہ اکثر لوگ مردہ بزرگوں کے نام پر جو نذریں، نیازیں دیتے ہیں، اور جو روپے پیسے، تیل اور چراغ وغیرہ بطورِ نذر کے مزارات اولیاء پر تقرب کی غرض سے لائے جاتے ہیں، یہ سب کچھ بالا جماع باطل اور حرام ہے۔ “
مولانا عبدالحی لکھنوی رقم طراز ہیں :
”غیر اللہ کی نذر ومنت حرام ہے اور منذور وغیرہ شیرینی ہو یا رخونی ہر امیر وفقیر پر اس کا کھانا حرام ہے ۔ “
[فتاوي عبدالحي لكهنوي]
(3) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا :
کتاب اللہ میں چار مقامات پر غیر اللہ کے لیے ذبح کو حرام کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
«انما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله»
[البقرة: 173]
” اللہ نے تم پر مردہ ، خون ، سور کا گوشت اور اس جانور کو حرام کر دیا ہے جیسے غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو۔ “
ابن جریر طبری نے بعض سلف سے وما اهل لغير الله کی تفسیر «ما ذبح لغير الله» نقل فرمائی ہے۔
[تفسير طبري: 90/2]
اسی طرح علامہ سیوطی نے مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے «وما أهل لغير الله» کی تفسیر «ما ذبح لغير الله» نقل فرمائی ہے۔
[تفسير الدر المنثور: 132/2 – طبعة مركز مجمع للبحوث والدراسات]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لعن الله من ذبح لغير الله»
[صحيح مسلم ، كتاب الأضاحي، رقم: 5125]
”اللہ تعالیٰ لعنت کرے اس شخص کو جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا۔ “
تفسیر نیشا پوری میں مرقوم ہے:
«أجمع العلماء لو أن مسلما ذبح ذبيحة وقصد بها التقرب إلى غير الله صار مرتدا وذبيحته ذبيحة مرتد»
[بحواله فتاوي عزيزي، ص: 537. فتح البيان: 240/1]
”یعنی علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ذبح کیا کسی نے کوئی ذبیحہ اور قصد کیا اسی ذبح سے تقرب غیر اللہ کا، تو وہ شخص مرتد ہو جائے گا، اور اس کا ذبیحہ مرتد کے مانند ہوگا۔ “
(4) جادو ٹونہ اور کہانت :
جادو کفر، اور سات ہلاک کرنے والے کبیرہ گناہوں میں اس کا شمار ہے، اور یہ نفع کے بجائے ہمیشہ نقصان ہی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
«ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم»
[البقره: 102]
”اور وہ لوگ ایسی چیزیں سیکھتے ہیں جو ان کے لیے فائدے کی بجائے نقصان دہ ہیں۔“
«وما كفر سليمن ولكن الشيطين كفروا يعلمون الناس السحر وما انزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمن من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر»
[البقرة : 102]
”اور سلیمان نے کفر نہیں کیا، بلکہ شیطانوں نے کفر کیا وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، اور وہ چیزیں بھی جو بابل کے دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھیں ، اور سکھانے سے پہلے وہ متنبہ کر دیتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں ، لہذا اس کو مت کرو۔ “
کہانت بھی کفریہ اور شرکیہ امور میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أتى كاهنا أو عرافا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد»
[مسنداحمد: 429/2۔ شيخ شعيب نے اسے ”حسن“ كها ہے]
”جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آیا ، اور اس کے اقوال کی تصدیق کی تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ شریعت کا انکار کیا۔ “
”سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جزیرہ عرب کو اللہ تعالیٰ نے شرک سے پاک اور صاف کر دیا ہے، تاآنکہ علوم نجوم ان کی گمراہی کا سبب بن جائے ۔ “
[مجمع الزوائد : 114/9- علامه هيشمی نے اس كی نسبت طبرانی اوسط اور ابو يعلی كی طرف كی ہے، اور كہا ہے كہ ابو يعلی کی سند ”حسن“ هے۔]
(5) حادثات اور انسانی زندگی پر ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ:
انسانی زندگی پر ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ بھی شرکیہ عقیدہ ہے۔ اہل عرب کا یہ خیال تھا کہ ستاروں کی ایک منزل کے گرنے اور دوسری کے اُبھرنے کے ساتھ بارش برستی ہے۔ چنانچہ وہ انہی منازل کی طرف بارش کی نسبت کیا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے : «مطرنا بنوء كذا» ”ہمیں فلاں ستارے یا فلاں منزل ( نچھتر ) سے بارش دی گئی ہے ۔ “
[تيسير العزيز الحميد، ص: 451]
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شرکیہ عقیدہ کی تردید میں ارشاد فرمایا:
«وتجعلون رزقكم انكم تكذبون»
[ الواقعه : 82]
”اور تم اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔“
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«وتجعلون رزقكم يقول شكركم أنكم تكذبون يقولون مطرنا بنوء كذا وكذا وبنجم كذا وكذا»
[سنن ترمذي ، كتاب التفسير، رقم: 3295۔ مسند احمد: 108/1 ، رقم: 849، 850 فتح الباري: 522/2- تفسير ابن كثير : 299/4۔ حافظ ابن كثير اور ابن حجر نے اسے ”صحيح“ اور شيخ شعيب نے ”حسن لغيره“ كها هے۔]
”تم اللہ کی نعمتوں کے مقابلہ میں اظہار شکر کا یہ طریقہ اپناتے ہو کہ تم اس نعمت کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرتے ہو ( اور کہتے ہو ) کہ ہمیں فلاں ستارے یا فلاں نچھتر سے بارش دی گئی ہے۔“
پس معلوم ہوا کہ بارش کی نسبت اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ستاروں کی طرف کرنا اسباب شرک میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: میری اُمت جاہلیت کے چار کام ترک نہیں کرے گی (ان میں سے ایک ہے) «الاستسقاء بالنجوم» ”ستاروں سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھنا۔ “
[صحيح مسلم، كتاب الجنائز، رقم: 2160]
(6) تعویذ گنڈوں کا عقیدہ:
نظر بد اور دیگر آفات و بلیات اور مصائب کے نزول سے پہلے تمیم اور گھونگے لٹکانا کہ وہ ان کو ٹال سکیں شرک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من تعلق تميمة فقد أشرك»
[ مسند احمد: 156/4، رقم: 17422 – مستدرك حاكم: 219/4۔ امام حاكم نے اسے صحيح كها هے۔]
”جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ “
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«ليست الثميمة ما تعلق به بعد البلاء إنما الثميمة ما تعلق به قبل البلاء»
[مستدرك حاكم: 217/4۔ حاكم نے اسے شيخين كي شرط پر” صحيح “ كها هے۔]
”تمیمہ وہ نہیں جو بلا کے بعد لٹکایا جائے ، تمیمہ وہ ہے جو بلا سے قبل لٹکایا جائے۔“
اہل عرب کی عادت تھی کہ بچے کے سر پر نظر بد سے بچنے کے لیے گھونگے اور موتی لٹکاتے تھے ،شریعت نے انہیں باطل قرار دے دیا۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«التمائم جمع تميمة وهى خزرات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين بزعمهم فأبطلها الشرع»
[شرح السنة: 158/12]
”تمائم ، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنہیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظر بد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے ،شریعت نے انہیں باطل قرار دیا ہے۔ “
محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اور اسی قسم سے بعض لوگوں کے گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا ، یا مکان کے اگلے حصے پر ، یا بعض ڈرائیور حضرات کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا ، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچاؤ کی وجہ سے ہے۔ “
[سلسلة الصحيحة: 650/1]
(7)غیر اللہ کی قسم کھانا :
غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے، کیونکہ یہ تعظیم کی ایک قسم ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من حلف بغير الله فقد كفر وأشرك»
[ مسند احمد: 125/2 رقم: 6072- مستدرك حاكم: 297/4 – سنن ترمذي ، رقم: 1535۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 2042۔]
”جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک یا کفر کیا۔ “
بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من حلف بالأمانة فليس منا»
[سنن ابوداؤد، كتاب الايمان والنذور، رقم: 3253- سلسلة الصحيحة رقم: 94]
” جس نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم سے نہیں ہے۔“
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک قافلے میں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم فمن كان حالفا فليحلف بالله أوليسكت»
[سنن ابوداؤد، كتاب الايمان والنذور رقم: 3249۔ صحيح بخاري كتاب الايمان والنذور، رقم : 6646۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان ، رقم: 4257]
” بے شک اللہ تمھیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جو شخص قسم کھانا چاہے، وہ اللہ کی قسم کھائے ، یا خاموش رہے۔“
(8) اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرانا :
اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال ، اور حلال کردہ اشیاء کو حرام ٹھرانا بھی شرکِ اکبر کی ایک صورت ہے، جو ہمارے معاشرہ میں عام ہے۔ نیز کسی شخص کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اُسے کسی چیز کو حلال اور حرام ٹھہرانے کا پورا پورا اختیار ہے، یہ بھی شرک کی قبیل سے ہے، چاہے وہ کسی جرگے کی صورت میں ہو یا عدالت کی صورت میں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں اس شرک کا یوں تذکرہ کیا ہے:
«اتخذوا أحبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله»
[ التوبه: 31]
” اُن لوگوں نے اپنے عالموں اور اپنے عابدوں کو اللہ کے بجائے رب بنا لیا۔ “
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب ان آیات کی تلاوت سنی ، تو متعجبانہ انداز سے کہنے لگے:
ہم لوگ ان کی عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے؟ اس پر رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«أجل ولكن تحلون لهم ما حرم الله فيستحلون، ويحرمون عليهم ما أحل الله فيحرمونه فتلك عبادتهم لهم»
[سنن الكبرى للبيهقي : 116/10، كتاب تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ ، باب ”ومن سورة التوبة “ رقم: 3095]
”ٹھیک ہے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو اُن کے لیے حلال کرتے تھے جسے وہ لوگ حلال مان لیتے تھے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کرتے تھے جسے وہ لوگ حرام مان لیتے تھے، پس یہی تو ان کی عبادت ہے۔ “
(9) بعض اشیاء میں نفع کی موجودگی کا عقیدہ رکھنا:
کچھ لوگ بعض اشیاء میں نفع کی موجودگی کا عقیدہ رکھتے ہیں ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کسی قسم کا کوئی نفع نہیں رکھا ہوتا تو ایسا کرنا شرک ہے، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کے منافی ہے۔ مثال کے طور پر بعض لوگ مختلف نگینوں والی انگوٹھیاں پہنے ہوتے ہیں، بعضوں نے معدنی کڑے، بعضوں نے مختلف قسم کے منکے اور بعضوں نے تعویذ لٹکائے ہوتے ہیں، جن میں واضح طور پر شرکیہ عبارتیں لکھی جاتی ہیں، مثلاً جنوں اور شیاطین سے استغاثہ وغیرہ۔ لہذا کسی قسم کا کوئی (شرکیہ) تعویذ گردن میں لٹکانا ، گھر میں آویزاں کرنا یا گاڑی وغیرہ میں رکھنا بہت بڑا گناہ، بلکہ شرک ہے۔ چنانچہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من علق تميمة فقد أشرك»
[مسند احمد : 156/4، رقم: 17422 – سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم: 492]
”جس کسی نے تعویذ لٹکایا تحقیق اُس نے شرک کیا۔“
(10) قومیت پرستی :
کسی بھی دور میں جب لوگ قومیت پرستی کے فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں، اور اپنا سارا سرمایۂ حیات اس کو سمجھ بیٹھتے ہیں ، تو وہ اس وقت شرک کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر ربّ رحمان کو ناراض کر بیٹھتے ہیں، جس کے سبب وہ ہمیشہ کی تنزلی کا شکار ہو کر اپنی دنیا اور عاقبت دونوں خراب کر بیٹھتے ہیں، جیسا کہ قزمان بن حارث ”غزوہ اُحد“ میں بے باکی اور بہادری سے لڑا اور کئی مشرکین کو موت کے گھاٹ بھی اتارا ، لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اہل دوزخ میں شمار کیا۔
«أما إنه من أهل النار»
”یقیناً وہ (قزمان۔۔۔) اہل جہنم میں سے ہے۔“
اس لیے کہ قزمان بن حارث کا بے باکی سے لڑنا اور مشرکین کو موت کے گھاٹ اُتارنا محض اپنی قوم کی نام وری کے لیے تھا، جیسا کہ اُس نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اس بات کا اظہار کیا۔
«والله ما قاتلنا إلا على الأحساب»
[الإصابه لابن حجر : 335/5، ترجمة رقم: 7123]
”اللہ کی قسم ! ہم نے خاندانی شرافت اور حسب کے لیے لڑائی لڑی ہے۔ “
واضح رہے کہ قومیت پرستی کو اقوامِ عالم کے جملہ مذاہب نے مختلف صورتوں اور شکلوں میں قائم رکھا ہے۔ مثال کے طور پر کسی قوم کے افراد کے دماغوں میں یہ تصور قائم کیا گیا کہ شاہانِ مملکت رحمان کا سایہ ہوتے ہیں، جن کے سامنے کسی متنفس کو چون و چراں کرنے کی کوئی مجال نہیں ہوتی ، اور انہیں ہمیشہ ظل الہی کہہ کر پکارا گیا۔
(11) عقیدہ «نور من نور الله»
امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور جلیل القدر ہستی کو «نور من نور الله» یعنی ”اللہ تعالیٰ کے نور میں سے نور کہنا“ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کا جزو ٹھہرانے کے مترادف ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے، اور نہ ہی کوئی جزو، بلکہ وہ یکتا اور اکیلا ہے۔
جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
«قل هو الله احد . الله الصمد . لم يلد ولم يولد. و لم يكن له كفوا احد.»
[الاخلاص]
”(اے پیغمبر! اُن لوگوں سے جو اللہ کا حال پوچھتے ہیں یوں) کہہ دیجیے وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اُس نے کسی کو جنا ( نہ کوئی اُس کی اولاد) ہے نہ اس کو کسی نے جنا (نہ وہ کسی کی اولاد) ہے، اور اُس کے برابر والا (جوڑ کا ہم سر) کوئی نہیں ہے۔ “
یہ عقیدہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نور من نور الله» کہنا قرآنی آیات اور احادیثِ صحیحہ
کے صریح مخالف ہے۔
چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
«قل إثما أنا بشر مثلكم يوحى إلى أنما الهكم إله واحد»
[الكهف: 110]
”آپ کہہ دیجیے کہ میں تو تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں، مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے۔ “
(12) بدشگونی لینا:
نبی مکرم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تو دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق تھی اور طرح طرح کے شیطانی وسوسوں اور شرکیہ توہمات میں پھنسی ہوئی تھی۔ جاہلیت کے شرکیہ عقائد میں جہاں بتوں کو معبود بنانا، انبیاء علیہم السلام کو مشکل کشا ماننا، جنات کی پناہ مانگتا تھا، وہاں بدشگونی لینے کا عقیدہ بھی قائم تھا۔
بدشگونی کے لیے لغت عرب میں لفظ «الطيرة» استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی ”کسی چیز کو باعث نحوست و بدشگونی قرار دینے“ کے ہیں ۔ جیسا کہ ارشادِ الہی ہے:
«فإذا جاءتهم الحسنة قالوا لنا هذه ۚ وإن تصبهم سيئة یطيروا بموسى و من معه ، ألا إنما طئرهم عند الله ولكن أكثرهم لا يعلمون»
[الاعراف: 31]
”پس جب اُنھیں کوئی اچھی چیز ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہیں ہی اس کے حقدار، اور اگر اُن کو کوئی بد حالی پیش آتی ، تو موسیٰ اور اُن کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے ، حالانکہ اُن کی نحوست تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، لیکن اُن کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “
بہر حال بدشگونی کا عقیدہ قطعی حرام ہے، اور توحید کے یکسر منافی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کی تردید میں فرمایا:
«الطيرة شرك»
[سنن ابي داؤد، كتاب الطب، باب فى الطيرة، رقم: 3910۔ سنن الترمذي، باب ماجاء فى الطيرة، رقم: 1614 – صحيح الجامع الصغير رقم: 3960۔ سلسلة الصحيحة رقم: 429]
” بدشگونی شرک ہے۔“
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
بعض لوگ کم علمی کی بنیاد پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ امت محمد علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں مطلق طور پر شرک آجانے کا اندیشہ نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ولكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها»
[صحيح بخاري، كتاب الجنائز، رقم: 1344]
”اللہ کی قسم! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے، بلکہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ “
ازاله:
اوّلا :
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر شرک کا ارتکاب نہیں کرے گی ۔ البتہ بعض افراد قبائل شرک کریں گے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قوله: ”ما أخاف عليكم أن تشركوا“ أى على مجموعكم لأن ذلك قد وقع من البعض أعاذنا الله تعالى»
[فتح الباري: 211/3]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ : ”مجھے تمہارے متعلق شرک کا اندیشہ نہیں“ سے مراد یہ ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک نہیں ہوگے۔ کیونکہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد و قبائل کی طرف سے شرک کا وقوع ہوا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ “
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من أمتي الأوثان»
[صحيح سنن ابوداؤد: 9/2-10، رقم: 4252۔ مسند أحمد: 278/5، 284۔ مسند أبوداود طيالسي، رقم: 991- مستدرك حاكم: 448/4۔ حاكم اور محدث الباني نے اسے ”صحيح“ كها هے۔]
”اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک میری اُمت میں سے کچھ قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں گے، اور یہاں تک کہ میری اُمت کے کچھ قبائل بتوں کی پرستش کریں گے۔ “
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تقوم الساعة حتى تضطرب أليات نساء دوس على ذي الخلصة وذو الخلصة: طاغية دوس التى كانوا يعبدونها فى الجاهلية»
[صحيح بخاري، كتاب الفتن، رقم: 7116۔ صحيح مسلم كتاب الفتن، رقم: 2906۔ مسند أحمد: 271/2]
” اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کے سرین ذی الخلصہ پر حرکت نہیں کریں گے۔ اور ذو الخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جس کو وہ زمانہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے ۔ “
معلوم ہوا کہ قبل از قیامت امت مسلمہ میں بت پرستی داخل ہو جائے گی، اور ایسے لوگ مشرک کہلانے کے حق دار ہیں۔
اُمت مسلمہ میں شرکیہ عقائد و نظریات کی ایک جھلک :
جتنے شرکیہ امور کا بیان ہوا ہے، وہ اور اُن کے علاوہ بھی صریحانہ عقائد و نظریات امت مسلمہ میں بدرجہ اتمہ پائے جاتے ہیں۔ ہم سطور ذیل میں ان عقائد کی ایک جھلک پیش کریں گے، اور تبصرہ قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔
(1) ایک شاعر اپنے پیر غلام مرتضیٰ قلعہ شریف ضلع شیخو پورہ والے کی مدح میں کہتا ہے کہ یہ خدا کا نور ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے، بلکہ ربّ اور پیر ایک ہی ہیں، اس لیے ہمیں کعبتہ اللہ جا کر طواف کی ضرورت نہیں، کیونکہ آستانہ پیر ہی کعبہ ہے۔ لہذا ہم یہیں طواف
کریں گے۔ العیاذ باللہ !
” دِ دوستی ربّ دی لوڑ نائیں قلعے والے دا پلڑا چھوڑ ناہیں
قلعے والے دے گرد طواف کر لے مکے جاونے دی کوئی لوڑ ناہیں
ایہہ قصورِ نگاہ دا نادانوں رب ہور نائیں پیر ہور نائیں
فضل رب دا جے مطلوب ہووے قلعے والے ولوں مکھ موڑ ناہیں “
[ سه حرفي رموز معرفت، ص: 3]
(2) خواجہ غلام فرید چشتی چاچڑاں شریف والے کے دیوان، صفحہ: 207 میں مرقوم ہے:
”چاچڑ وانگ مدینہ جا تم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
رنگ بنا بے رنگی آیا کیتم روپ تجلّٰی
ظاہر دے وچ مرشد بادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ “
[حج فقير بر آستانه پير، ص: 45]
(3) ایک شخص نے اپنی کتاب ”باغ فردوس معروف بہ گلزار رضوی“ کے صفحہ 56،25 میں شیخ عبد القادر جیلانی کے متعلق لکھا ہے:
”میرے سرکار کی مٹھی میں ہیں عالم کے قلوب
دم میں روتوں کو ہنسا دیتے ہیں غوث الاغواث
جس نے یاغوث مصیبت میں پکارا دل سے
کام سب اس کے بنا دیتے ہیں غوث الاغواث
لوحِ محفوظ میں تثبیت کا حق ہے حاصل
مرد عورت سے بنا دیتے ہیں غوث الاغواث “
لیجیے یہ اشعار پڑھیے اور قرآن وسنت کی روشنی میں خود فیصلہ کیجیے کہ یہ نام کے مسلمان مشرکوں الاولون کے نقش پاپر چل رہے ہیں کہ نہیں؟
سچ فرمایا اللہ عز وجل نے کہ:
«وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون»
[يوسف: 106]
”اور ان میں سے اکثر وہ ہیں کہ اللہ پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے۔ “ (ترجمہ احمد رضا)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اس اُمت میں شرک رات کی تاریکی میں سیاہ چٹان پر سیاہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی طور پر پایا جائے گا۔ “
[صحيح الجامع الصغير : 233/3]
ثانياً :
پھر اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں گے، کہ آپ کے بعد وہ شرک نہیں کریں گے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأن أصحابه لا يشركون بعده فكان كذلك
[فتح الباري: 614/6]
”یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے بعد شرک نہیں کریں گے، پس اسی طرح ہوا کہ کسی بھی صحابی سے شرک و بدعت سرزد نہیں ہوئے۔ “
ثالثاً:
اس حدیث پاک کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ یہ اُمت شرک نہیں کر سکتی، بلکہ اس اُمت کے اکثر لوگ مشرک ہیں، جیسا کہ مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔