سجدوں میں رفع الیدین نہ کرنا:
رفع الیدین جہاں نماز میں حسن کا باعث ہے وہاں اس میں انتہا درجہ کی عاجزی پائی جاتی ہے۔ انسان اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ عزوجل کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ تکبیر تحریمہ ، رکوع جاتے، رکوع سے اٹھتے اور دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے ہوئے ہاتھ اٹھانا سنت ہے، اور صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہی مقامات رفع الیدین مذکور ہیں۔ جیسا کہ بے شمار کتب حدیث میں سجدوں کو جاتے، سجدوں سے سر اُٹھاتے اور سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا كبر للصلوة رفع يديه حذو منكبيه وإذا ركع فعل مثل ذلك ولا يفعل ذلك بين السجدتين . ))
[معرفة الصحابة، لأبي نعيم الأصبهاني، ص: 21 .]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تو اسی طرح کیا کرتے تھے اور آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرتے تھے۔“
یہ روایت صحیح بخاری، صحیح مسلم ، سنن ترمذی ، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان ، مسند ابی عوانہ اور سنن دار قطنی اور دوسری کئی کتب احادیث میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح رکوع والی رفع الیدین کے خلاف کوئی صحیح صریح ایک بھی روایت نہیں ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ، خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے” الله أكبر“ کہتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے۔ اور جب اپنی قراءت پوری کر لیتے اور رکوع کرنا چاہتے تو اسی طرح ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اٹھتے تو اسی طرح کرتے۔ اور نماز میں بیٹھے ہوئے ہونے کی حالت میں آپ رفع الیدین نہ کرتے تھے اور جب دورکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے اور” الله أكبر“ کہتے۔
[سنن أبو داؤد، كتاب الصلاة، رقم: 744۔ سنن ترمذي، رقم: 3423۔ سنن ابن ماجه، رقم: 864۔ صحيح ابن خزيمه، رقم: 584۔ مسند احمد، رقم: 717۔ امام ترمذي اور علامه الباني نے اسے حسن صحيح اور ابن خزيمه اور احمد شاكر نے صحيح كها هے۔]
اس حدیث شریف کی روشنی میں امام احمد بن حنبل، سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے بھی سجدوں کے رفع الیدین کی نفی ثابت ہے۔
لہذا سجدوں میں رفع الیدین کا کہہ کر لوگوں کو الجھانے اور دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہی ثابت ہوگا کہ رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے ساتھ ساتھ سجدوں میں بھی رفع الیدین کیا جائے ، اس سے رکوع جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے اور دورکعتوں سے بعد والی رفع الیدین منسوخ ثابت نہیں ہوتی۔ لہذا سجدوں میں رفع الیدین والی روایات یا تو ضعیف ہیں، جیسا کہ علماء نے بیان کیا ہے اور اگر صحیح بھی ہوں تو نا قابل عمل اور مرجوح ہیں۔ جیسا کہ محدثین کا اتفاقی قاعدہ ہے اور ملاعلی قاری حنفی نے بھی اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ صحیح بخاری ومسلم کی روایات کو دوسری روایات صحیحہ وحسنہ پر ترجیح حاصل ہوگی۔
[شرح نخبة الفكر لملّا على القاري.]
واللہ اعلم !
ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں: ” صحیح بخاری کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب ہے۔ “
[مرقاة: 59/1.]
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان کی تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں جو ان کی عظمت (عزت) نہ کرے وہ بدعتی ہے، جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف ہے۔
[حجة الله البالغة، ص: 242.]
فتاوی رضویہ (46/4) پر مرقوم ہے: ” مجتہدین زمانہ کے مسلک کے بالکل خلاف ہے کہ حدیث بخاری کے رد کے لیے ادھر اُدھر کی روایات پر عمل حلال جانے۔“
بریلویوں کے امام احمد رضا نے دوسری جگہ لکھا ہے کہ: ”شدت تعصب نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث جلیلہ کو شاید دیکھنے نہ دیا۔ یا ان پر بھی طبقہ رابعہ کا حکم ہو گیا۔ کیا علی قاری و شیخ محقق نے ان سے استفادہ نہ کیا؟ یا آپ نے ان کاموں کا جواب دے دیا۔ شرم شرم شرم۔ “
[حياة الموات، بيان فى سماع الأمرات، يعني روحوں كي دنيا ، ح: 225]
حبیب الرحمن کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں کہ: ”بخاری وہ کتاب ہے کہ اسناد کی عمدگی اور مضبوطی کے پہلو سے تمام امت اسے قرآن کے بعد سب سے صحیح اور مستند کتاب مانتی ہے، اس میں جو روایت آئے اُس کے خلاف روایات کے ہزار دفتر بھی نامعقول ہیں۔ “
[مذهبي داستانيں: 157/2.]
عبد السمیع رام پوری حنفی لکھتے ہیں: ”محدثین میں قاعدہ ٹھہر چکا ہے کہ صحیحین کی احادیث نسائی وغیرہ کل محدثوں کی احادیث پر مقدم ہیں، کیونکہ اور کی حدیث اگر صحیح بھی ہو گی تو صحیحین اس سے صحیح اور قوی تر ہوگی۔ “
[أنوار ساطعه، ص: 41 .]
ایک تبصرہ
بہت خوب