سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ سے رفع الیدین نہ کرنے کا ثبوت اور اس کا تجزیہ:
دلیل:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی وہ شروع نماز میں یعنی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
[اخبار الفقهاء، ص: 214 .]
الجواب:
① اس روایت کو دار قطنی ، بہتی اور علامہ ہیثمی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (بیہقی: 80/2 اور دار قطنی: 1/ 295) میں لکھا ہے:
(( تفرد محمد بن جابر وكان ضعيفا)) .
”اس روایت کے بیان کرنے میں محمد بن جابر منفرد ہے اور یہ ضعیف راوی ہے۔ “
اور (مجمع الزوائد:101/2) میں لکھا ہے:
((رواه أبو يعلى وفيه: محمد بن جابر الحنفي اليمامي وقد اختلط عليه حديثه وكان يلقن فيتلقن )).
”اسے ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں محمد بن جابرحنفی یمامی ہے جس پر اس کی حدیث خلط ملط ہوگئی تھی اور یہ تلقین قبول کر لیتا تھا۔“
دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس نے یہ روایت از حماد از ابراهیم از علقمه از ابن مسعود نے بیان کی ہے اور حماد کے علاوہ راوی اسے ابراہیم سے مرسل بیان کرتے ہیں۔
انصاف و دیانت کا یہ تقاضا ہے کہ یہ روایت دلیل بناتے وقت ساتھ یہ جرح بھی دیکھ لی جائے۔ لیکن ایسا کرنے سے عدم رفع الیدین کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔لہذا عافیت جرح نہ نقل کرنے میں ہی سمجھی جاتی ہے۔
② یہی محمد بن جابر حنفی یمامی کہتا ہے:
((سرق أبو حنيفة كتب حماد مني . ))
[الجرح والتعديل: 450/8 .]
”ابوحنیفہ نے مجھ سے حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں چوری کر لی تھیں۔ “
اب ان لوگوں سے ہم از راہ انصاف پوچھتے ہیں کہ محمد بن جابر کی عدم رفع الیدین والی روایت قبول کرنی ہے، یا امام صاحب کو چور تسلیم کرنا ہے۔
③ اس کی سند میں حماد بن ابی سلیمان مختلط ہے ،شعبہ ،سفیان ثوری اور ہشام دستوائی کے علاوہ کسی کا سماع اس سے قبل از اختلاط ثابت نہیں اور ان تین کے علاوہ حماد سے کسی کی روایت قابل قبول نہیں۔
[ملاحظه هو: مجمع الزوائد: 119/18 ، 120۔ شرح علل ،ترمذي، ص: 326۔ العلل ومعرفة الرجال ص: 335]
لہذا محمد بن جابر کی حماد سے روایت کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ، جبکہ یہ خود بھی خراب حافظے والا تھا اور کثرت اختلاط کا شکار تھا۔
[تقريب، ص: 292 .]
④ حماد مختلط ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہے۔
[المدخل للحاكم، ص: 16 .]
⑤ ابراہیم بھی مدلس ہے۔
[معرفة علوم الحديث، ص: 108.]
⑥ ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔
[كتاب الموضوعات: 45/3 .]