حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب میں رفع یدین کیوں کروں؟ سے ماخوذ ہے۔

حدیث سیدنا ابن مسعود رضى الله عنہ:

مانعین رفع الیدین کے بنیادی دلائل میں سے سر فہرست سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث مبارک ہے۔ جس میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فصلى ، فلم يرفع يديه الا فى اول مرة. »
(سنن ترمذی، ابواب الصلاة، رقم: 257 ـ سنن أبو داؤد، رقم: 747۔ مشكاة، رقم: 809.)
”کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاؤں؟ پس آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھائے۔ “
الجواب:
(1) اس روایت کو کئی ایک ائمہ محدثین رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مثلاً:
➊ امام عبدالله بن مبارك (شاگرد امام ابو حنيفه) (سنن: ترمذی: 2/ 38 ، التحقيق لابن الجوزي: 1/ 278 )
➋ امام شافعی(الزرقـانـي عـلى الموطا: 1/ 158۔ فتح البارى 2 / 175 )
➌ امام احمد بن حنبل (التمهيد: 219/9ـ العلل ومعرفة الرجال: 116/1 ، 117 )
➍ امام ابو حاتم رازی(علل الحديث: 96/1)
➎ امام دار قطنی(العلل (172/5)
➏ امام ابن حبان(التلخيص: 222/1)
➐ امام ابو داؤد(سنن أبي داؤد: 199/1)
➑ امام يحيى بن آدم (التلخيص: 222/1)
➒ امام بزار(التمهید: 220/9، 221)
➓ امام محمد بن وضاح(التمهيد: 221/9)
⓫ امام بخاری (التلخيص: 1/ 222 ۔ جزء رفع الیدین ، 113۔ المجموع: 3/ 403)
⓬ امام ابن القطان الفاسي(نصب الرايه: 1/ 395)
⓭ امام ابن ملقن( البدر المنير)
⓮ امام حاکم (تهذيب السنن: 449/2 )
⓯ امام نووی(المجموع: 403/3)
⓰ امام دارمی (تهذيب السنن: 449/2)
⓱ امام بیهقی (مختصر خلافیات: 379/1)
⓲ امام مروزی( نصب الرايه: 1 / 395 )
⓳ امام ابن قدامه (المغنى: 295/1)
(20) امام ابن عبدالبر (التمهيد: 9/ 220 ، 221۔ مرعاة: 323/2)
(21) امام ابن قيم (المنار المنيف، ص 49)
الغرض ائمہ محدثین کی کثیر تعداد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اب اتنے محدثین کے ضعیف قرار دینے کے مقابلے میں امام ترمذی کی تحسین کیا کرے گی؟
مزید برآں امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ تحسین میں ہیں بھی متساہل۔ چنانچہ علماء اصول کا مشہور قول ہے:
«الترمذى يتساهل فى التحسين.»
[فتح البارى: 62/9.]
”ترمذی حدیث کو حسن کہنے میں متساہل ہیں۔ “
الجواب:
(2)اس کی سند میں ”سفیان ثوری“ مدلس ہیں، جو ضعفاء اور مجاہیل سے تدلیس کرتے ہیں۔ اور وہ صیغہ ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔ سفیان ثوری کو کئی ایک محدثین نے مدلس قرار دیتے ہوئے ان کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے بارے میں کتب احادیث میں ان کے سماع کی تصریح نہیں اور نہ ہی کوئی ثقہ متابع موجود ہے۔
ذیل میں ان محدثین کے اسماء ہیں جنہوں نے سفیان ثوری کو مدلس قرار دیا ہے:
➊ يحيى بن سعيد القطان
(الكفاية، ص: 362)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال يحيى بن سعيد ما كتبت عن سفيان شيئا إلا ما قال: حدثني أو حدثنا إلا حديثين.»
[العلل و معرفة الرجال: 207/11 ت: 1130]
یحیی بن سعید نے کہا: میں نے سفیان (ثوری ) سے صرف وہی کچھ لکھا ہے جس میں وہ ”حدثنی“ یا ”حدثنا“ کہتے ہیں ، سوائے دو حدیثوں کے (اور ان دونوں کو یحیی نے بیان کر دیا ہے۔ )
➋ يحيى بن معين
( الجرح والتعديل: 4 / 225)
➌ ابن حبان کا قول ہے:
«الثقات المدلسون الذين كانوا يدلسون فى الأخبار مثل قتادة و يحيى ابن أبى كثير والأعمش و أبو اسحاق و ابن جريج و ابن إسحاق و الثورى و هشيم فربما ولسوا عن الشيخ بعد سماعهـم عـنـه عـن أقوام ضعفاء لا يجوز الإحتجاج بأخبارهم ، فما لم يقل المدلس وإن كان ثقة: حدثني أو سمعت ، فلا يجوز الإحتجاج بخبره .»
[كتاب المجروحين: 92/1]
وہ ثقہ مدلس راوی جو اپنی احادیث میں تدلیس کرتے تھے۔ مثلاً قتادة ، یحیی بن ابی کثیر ، اعمش ، ابو اسحاق ، ابن جریج ، ابن اسحاق ، ثوری اور ہشیم ، بعض اوقات آپ اپنے اس شیخ سے جس سے سنا تھا وہ روایت کو بطور تدلیس بیان کر دیتے جنھیں انہوں نے ضعیف، نا قابل حجت لوگوں سے سنا تھا۔ تو جب تک مدلس اگرچہ ثقہ ہی ہو یہ نہ کہ دے ”حدثنی“ یا ”سمعت“ تو اس کی حدیث سے حجت پکڑنا درست نہیں ہے۔“
➍ علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والناس يحتاجون فى حديث سفيان إلى يحيى القطان لحال الإخبار يعنى على ان سفيان كان يدلس و أن يحيى القطان كان يوقفه على ما سمع مما لم يسمع»
[الكفاية، ص: 362.]
” لوگ سفیان کی حدیث میں یحیی القطان کے محتاج ہیں کیونکہ وہ سماع کی صراحت والی روایات بیان کرتے تھے۔ علی بن مدینی کا خیال ہے کہ سفیان تدلیس کرتے تھے ، اور یحیی القطان ان کی معنن اور سماع کی صراحت والی روایات ہی بیان کرتے تھے۔ “
➎ امام حاکم نیسابورى (معرفة علوم الحديث، ص: 107)
➏ ابو حاتم الرازي(علل الحديث: 2 / 254، رقم: 2255)
➐ امام البخارى (العلل الكبير للترمذى: 2/ 966)
➑ يعقوب بن سفيان الفارسي (المعرفة والتاريخ: 637، 633/2)
➒ هشیم بن بشیر الواسطی۔ امام عبد الله بن المبارک اللہ فرماتے ہیں:
«”قلت لهشيم مالك تدلس وقد سمعت؟ قال: كان كبير ان يدلسان وذكر الأعمش والثورى. “ الخ»
[العلل الكبير للترمذي: 966/2.]
میں نے ہشیم سے کہا: آپ کیوں تدلیس کرتے ہیں حالانکہ آپ نے (بہت کچھ ) سنا بھی ہے؟ تو انھوں نے کہا: دو بڑے بھی تدلیس کرتے تھے یعنی اعمش اور (سفیان )ثوری۔“
➓ الوزرعة ابن العراقي
( كتاب المدلسين: 20)
⓫ ابو عاصم النبيل الضحاك بن مخلد۔ عباس بن محمد بدری نے کہا:
«نا أبو عاصم عن سفيان عن عاصم عن أبى رزين عن ابن عباس فى المرتدة ترتد قال: تستحي و قال أبو عاصم: و نرى أن سفيان الثورى إنما دلسه عن أبى حنيفة فكتبتها جميعا .»
[سنن دار قطني: 201/3.]
”ہمیں ابو عاصم (النبیل ) نے عن سفيان عن عاصم عن أبي رزين عن ابن عباس کی (سند سے ) ایک حدیث مرتدہ کے بارے میں بیان کی کہ وہ زندہ رکھی جائے گی . ابو عاصم نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے اس حدیث میں ابوحنیفہ سے تدلیس کی ہے، لہذا میں نے دونوں سند میں لکھ دی ہیں۔“
⓬ صلاح الدین العلائی فرماتے ہیں:
«من يدلس عن أقوام مجهولين لا يدرى من هم كسفيان الثورى.»
[جامع التحصيل، ص: 106، 99]
”مثلاً وہ لوگ جو ایسے مجہول لوگوں سے تدلیس کریں جن کا کوئی اتا پتا نہ ہو، جیسے سفیان ثوری (کی تدلیس ) الخ۔ “
⓭ امام نووی ( شرح صحیح مسلم: 33/1)
⓮ حافظ ابن حجر (تقريب التهذيب، رقم: 2445 ـ طبقات المدلسين: 51/2.)
⓯ حافظ ذہبی رقم طراز ہیں:
«وكان يدلس فى روايته، و ربما دلس عن الضعفاء.»
[ميزان الاعتدال: 169/2]
”آپ اپنی روایت میں تدلیس کرتے تھے اور بعض اوقات ضعیف راویوں سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ “
⓰ السبط ابن الحلبي (التبيين لأسماء المدلسین، ص: 9 ، رقم: 25)
⓱ ابو محمود المقدسي (مقيدة لاسماء المدلسين ، ص: 47)
⓲ علامه سیوطی (اسماء المدلسین 18)
⓳ابن رجب الحنبلى (شرح علل الترمذى: 1/ 358)
(20) علامه قسطلانی (ارشاد الساری: 286/1)
(21)علامه کرمانی (شرح صحیح بخاری: 3/ 62 ، رقم: 213)
کئی حنفی ، دیوبندی اور بریلوی علماء نے بھی امام سفیان ثوری کو مدلس قرار دیا ہے۔ مثلاً:
➊ ابن التركماني (الجواهر النقى: 262/8 )
➋ بدر الدين عيني (عمدة القارى: 3 /112)
➌ علامه نیموی (آثار السنن، ص 194 [384])
➍ مولوی سرفراز صفدر (خزائن السنن: 77/2 )
➎ عبدالقیوم حقانی ( توضيح السنن: 1/ 615)
➏ مفتی تقی عثمانی (درس ترمذی: 1/ 521 )
➐ ماسٹرامین اوکاڑوی (مجموعه رسائل: 331/2۔ تجليات: 5 / 470)
➑ مولوی شریف کوٹلوی بریلوی ( فقه الفقيه، ص: 134)
➒ مولوی عباس رضا بریلوی (والله آپ زنده هیں ، ص 331، 332 (17) ط۔ ۔ قدیم ص 301 ، طبع جدید)
فائدہ:
جو راوی تدلیس کرے حتی کہ ایک مرتبہ بھی تدلیس کرے اور اس کا تدلیس کرنا ثابت ہو جائے تو اس کی ہر معنعن روایت (جس کا شاہد یا متابع نہیں ہے) ضعیف اور مردود ہوگی۔ چنانچہ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومن عرفناه دلس مرة فقد أبان لنا عورته فى روايته وليست تلك العورة بكذب فنردبها حديثه ولا النصيحة فى الصدق فتقبل منه ، قبلنا من أهل النصيحة فى الصدق فقلنا: لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه حدثني أو سمعت .»
[الرسالة، ص: 53 ، طبع أميريه 1321هـ وبتحقيق أحمد شاكر، ص: 379، 380.]
صلی اللہ علیہ وسلم جس شخص کے بارے میں ہمیں علم ہو جائے کہ اس نے صرف ایک ہی دفعہ تدلیس کی ہے تو اس کا باطن اس کی روایت پر ظاہر ہوگیا اور یہ اظہار جھوٹ نہیں ہے کہ ہم اس کی ہر حدیث رد کردیں اور نہ خیر خواہی ہے کہ ہم اس کی ہر روایت قبول کر لیں جس طرح بچے خیر خواہوں (غیر مدلسوں ) کی روایت ہم مانتے ہیں۔ پس ہم نے کہا: ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہ کریں گے جب تک وہ ”حدثنی “ یا ”سمعت“ نہ کہے۔“

تحسین حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے چور دروازے:

پہلا چور دروازه:

بعض لوگ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تحسین کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں کہ سفیان ثوری دوسرے طبقہ کے مدلس ہیں، لہذا ان کی روایت مقبول ہے ، اور دلیل کے طور پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا انھیں طبقہ ثانیہ میں ذکر کرنا پیش کرتے ہیں۔
جواب:
امام حاکم نے حافظ ابن حجر سے پہلے ان کو تیسرے طبقہ کا مدلس قرار دے دیا ہے۔
[معرفة علوم الحديث، ص: 105، 106 ـ جامع التحصيل، ص: 113.]
اور امام حاکم حافظ ابن حجر سے متقدم ہیں۔

دوسرا چور دروازه:

حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تحسین کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سفیان ثوری کی روایات صحیح بخاری و مسلم میں بھی ہیں، لہذا ان کی روایت حسن درجہ کی ہے۔
جواب:
یاد رہے کہ صحیحین میں مدلس راویوں کی معنعن روایات کی تصریح بالسماع، متابعت ضرور ثابت ہے۔ لہذا وہ مقبول ہیں۔ چنانچہ عبد الکریم الحلبی فرماتے ہیں:
«قال أكثر العلماء: أن المعنعنات التى فى الصحيحين منزلة بمنزلة السماع .»
[بحواله التبصرة والتذكرة للعراقى: 186/1 .]
اکثر علماء کا کہنا ہے کہ صحیحین کی معنعن روایات ایسے ہی ہیں جیسا کہ تصریح بالسماع والی روایت ہوتی ہے۔“
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وما كان فى الصحيحين وشبههما عن المدلسين بعن محمولة على ثبوت السماع من جهة أخرى.»
[تقريب النووى مع تدريب الراوي: 230/1.]
”دو صحیحین (ومثلهما ) میں مدلسین سے جو معنعن مذکور ہے، وہ دوسری اسانید میں بصرح بالسماع موجود ہے۔ “
لہذا یہ اعتراضات فاسد اور بے کار ہیں۔ فليتدبرا .
جواب:
(3) امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:” یہ حدیث لمبی حدیث کا اختصار ہے اور ان لفظوں میں صحیح نہیں۔“
[سنن ابوداؤد، رقم: 747 .]
اسی لمبی حدیث کو امام ابوداؤد نے خود اس حدیث سے پہلے بیان کیا ہے، وہ یہ حدیث ہے۔
«قال عبد الله: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فكبر ورفع يديه فلما ركع طبق يديه بين ركبتيه.»
”عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھائی، آپ نے تکبیر کہی اور رفع یدین کیا، جب رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر گھٹنوں کے درمیان رکھا۔ “
نیز حنفیوں کے امام محمد بن حسن الشیبانی نے اپنی کتاب الآثار [ص: 69 متر حجم] میں بھی مفصل روایت ذکر کی ہے، جس میں ہے کہ علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید دونوں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، جب نماز کا وقت آیا تو وہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہم دونوں ان کے پیچھے ہوئے تو انھوں نے ہم میں سے ایک کو اپنے بائیں جانب کھڑا کیا پھر وہ خود ہم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے جب فارغ ہوئے تو کہا کہ جب تم تین آدمی ہو تو اسی طرح کرو۔ اور جب رکوع کرتے تو تطبیق اور بغیر اذان واقامت کے انھوں نے نماز پڑھی اور کہا کہ ہمارے اردگرد کے لوگوں کی تکبیر کافی ہے۔
امام محمد نے کہا کہ ہم ابن مسعود رضی اللہ عنہا کے قول پر عمل نہیں کرتے۔
جواب:
(4) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اگر بالفرض صحیح مان لیا جائے تو خود حنفی علماء سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ان حدیثوں کو نہیں مانتے۔ مثلاً:
➊ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔
[كتاب الآثار، از محمد بن حسين شيباني، ص 60 ، مترجم.]
➊ بوقت رکوع گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کے بجائے گھٹنوں کے درمیان ہاتھ رکھتے تھے۔
[كتاب الآثار، ص 69 .]
➋ امامت کے وقت آگے کھڑے ہونے کے بجائے صف کے درمیان کھڑے ہوتے تھے۔
چنانچہ امام محمد رحمہ اللہ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ) یہ سب باتیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ” ہم سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل نہیں کرتے۔“
[كتاب الآثار، ص 69 .]
تو رفع الیدین کے مسئلے میں کیوں ایک ضعیف روایت کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ بعض ائمہ مثلاً امام ترمذی وغیرہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ اس کے باوجود وہ خود بھی رفع الیدین کرتے تھے، اور اس کے قائل تھے۔ اور جہاں امام ترمذی رحمہ اللہ اس قول کے بعد اپنی کتاب میں طریقہ نماز بیان کرتے ہیں تو وہاں رفع الیدین پر دس صحابہ کرام کا اجماع بیان کر کے اپنی مہر ثبت کرتے ہیں کہ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
جواب:
(5) مسئلہ آمین بالجہر والی حدیث کو سفیان ثوری کی وجہ سے ضعیف قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ (درس ترمذی (521/1)) میں مولاتقی عثمانی نے کہا ہے ، تو یہاں سفیان ثوری کی حدیث کو حسن کیوں قرار دیا جاتا ہے اگر ایسا ہے تو پھر آمین بالجہر کا موقف اپنانا پڑے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے