8 چیزوں کو پاک کرنے کے شرعی طریقے صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص – جلد 1، صفحہ 343

زمین، موزے اور کتے کے جھوٹے برتن کو پاک کرنے کے شرعی احکام

زمین کو پاک کرنے کا شرعی طریقہ

زمین پر اگر کوئی نجاست پڑ جائے تو اسے پانی ڈال کر پاک کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ثبوت صحیح حدیث سے ملتا ہے۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

"ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں موجود تھے کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ‘اسے مت روکو۔’ چنانچہ صحابہ نے اسے چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ فارغ ہو گیا۔”
بعد میں نبی ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ پانی کا ڈول لائے اور اس جگہ پر بہا دے۔
(بخاری1/35، مسلم1/138، ابوداؤد1/61)

اس حدیث سے واضح ہے کہ زمین کو کھودنا ضروری نہیں، اور نہ ہی کئی بار دھونا شرط ہے جب تک نجاست کا اثر باقی نہ ہو۔

کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر زمین خشک ہو جائے تو بھی وہ پاک ہو جاتی ہے۔
ابوداؤد (1؍61) میں ہے:

"باب: جب زمین خشک ہو جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے۔”

ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"میں مسجد میں سوتا تھا اور اس وقت غیر شادی شدہ جوان تھا، کتے مسجد میں آتے جاتے تھے اور پیشاب بھی کر جاتے تھے، لیکن ہم ان جگہوں پر پانی نہیں ڈالتے تھے۔”
(احمد1؍71، بخاری1؍29)
عون المعبود (1؍147) میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا کہ زمین دھوپ سے خشک ہو جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے۔

ابن ابی شیبہ (1؍57) نے ابو جعفر محمد بن علی سے روایت کیا:

"زمین کا خشک ہونا، اس کا پاک ہونا ہے۔”
اسی طرح ابو قلابہ اور ابن الحنفیہ کی بھی یہی رائے تھی۔

یہ رائے عبدالرزاق، نصب الرایہ (1؍211) میں بھی ذکر کی گئی ہے۔

اگر نجاست مائع ہو تو پانی بہانے یا خشک ہونے سے زمین پاک ہو جاتی ہے، لیکن اگر نجاست ٹھوس شکل میں ہو، تو جب تک اسے ختم یا ہٹا نہ دیا جائے، زمین پاک نہیں ہو سکتی۔

موزے، جوتے اور ایسی اشیاء کو پاک کرنے کا طریقہ

اگر موزے یا جوتے پر نجاست نظر آئے، تو اسے زمین پر رگڑنے سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"جب تم میں سے کوئی مسجد آئے اور اپنے جوتے میں نجاست دیکھے تو اسے زمین پر رگڑ دے، پھر ان میں نماز پڑھ لے۔”
(ابوداؤد:1؍128، دارمی:1؍160، المشکوٰۃ:1؍73)

ان احادیث میں نجاست کی نوعیت (مائع یا ٹھوس) کا فرق نہیں کیا گیا، لہٰذا دونوں صورتوں میں یہی حکم ہے۔

اگر کہا جائے کہ خشک نجاست جذب ہو جاتی ہے اور باقی رہتی ہے، تو پھر تو جوتوں کو بند کرکے محفوظ رکھنا ہی واحد حل ہوگا، جو کہ غیر عملی ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جب کوئی شخص نجاست کو جوتے تلے روندے تو مٹی اسے پاک کر دیتی ہے۔”
ایک اور روایت میں ہے:
"جب موزے تلے نجاست روندی جائے تو مٹی اسے پاک کرنے والی ہے۔”
(ابوداؤد1؍128)

ان صحیح احادیث کی روشنی میں، آسانی والا اصول اختیار کرنا سنت ہے، اور کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ امت پر سختی کرے۔

کتے کے جھوٹے برتن کو پاک کرنے کا طریقہ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ حدیث میں آتا ہے:

"جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات بار دھونا چاہیے، جن میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ دھونا ضروری ہے۔”
(المشکوٰۃ1؍52)

تجربات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کتے کے جراثیم صرف مٹی سے دھونے پر ہی زائل ہوتے ہیں۔

اس حکم کا کوئی معارض نہیں، اس لیے کسی فقیہ کے فتویٰ کی بنا پر اس صحیح حدیث کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔

کپڑوں یا جسم پر نجاست لگنے کی صورت

اگر نجاست دکھائی دیتی ہو تو اسے دھونا ضروری ہے۔

اگر دھونے کے بعد صرف نشان باقی رہ جائے اور نجاست ختم ہو چکی ہو تو وہ معاف ہے۔

اگر نجاست نظر نہ آتی ہو (جیسے پیشاب)، تو اسے ایک بار پانی بہا دینا کافی ہے۔

غسلِ جنابت کے دوران بھی نبی کریم ﷺ صرف تین چلو پانی اپنے سر پر ڈالتے تھے، نہ کہ تین بار دھوتے تھے۔
بخاری (1؍45) میں اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے کسی عورت کو کپڑا تین بار دھونے کا حکم نہیں دیا۔

غیر جاذب اشیاء پر نجاست لگنے کی صورت

اگر نجاست آئینہ، چھری، تلوار، ناخن، ہڈی، شیشہ، برتن، یا قلعی شدہ چیزوں پر لگ جائے تو انہیں صاف کر کے پاک کیا جا سکتا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایت ہے کہ وہ تلواروں پر لگے خون کو صاف کر لیتے اور نماز ادا کر لیتے تھے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
الفتاوٰی (21؍522)

"قصائی کی چھری کو دھونا ضروری نہیں، وہ صرف صاف کر لیتے تھے۔”

گھی یا تیل میں چوہا گر جائے تو کیا کیا جائے؟

راجح قول یہی ہے کہ اگر چوہا گھی میں گر کر مر جائے تو چوہا اور اس کے آس پاس کا گھی نکال دیا جائے اور باقی گھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گھی چاہے جامد ہو یا مائع، یہی حکم ہے، کیونکہ وہ حدیث جو جامد و مائع میں فرق کرتی ہے، وہ ضعیف ہے۔
امام ترمذی (2؍2) نے امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ معمر نے زہری پر غلطی کی ہے۔

بخاری (1؍37، 831؍2) میں "باب اذا وقعت الفارۃ فی السمن الجامد او الذئب” میں امام بخاری نے یہی رائے ذکر کی ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

"رسول اللہ ﷺ سے چوہے کے بارے میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال دو اور باقی کھا لو۔”

اس حدیث میں جامد یا مائع کی کوئی تخصیص نہیں، جس سے عموم کا مفہوم حاصل ہوتا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الفتاوٰی (21؍524) میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے کہ حجاز کی گرمی میں گھی جامد نہیں ہوتا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری (9؍549) میں اس حدیث کی ضعیفی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہی قول ابن عباس، ابن مسعود، امام بخاری، امام اوزاعی اور دیگر محققین کا بھی ہے جیسا کہ فقہ السنہ (1؍30) میں مذکور ہے۔

مردار کا چمڑا کیسے پاک ہوتا ہے؟

مردار جانور کی کھال دباغت کے ذریعے پاک ہو جاتی ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

"جب چمڑے کی دباغت ہو جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔”
(مسلم1؍158، سنن 2؍989)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1