سوال :
قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا کیسا ہے؟
جواب:
قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے، یہ بہترین کمائی ہے۔
❀ سید نا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
أنت النبى صلى الله عليه وسلم امرأة، فقالت : إنها قد وهبت نفسها لله ولرسوله صلى الله عليه وسلم، فقال : ما لي فى النساء من حاجة، فقال رجل : زوجنيها، قال : أعطها ثوبا ، قال ؛ لا أجد، قال : أعطها، ولو خاتما من حديد، فاعتل له، فقال : ما معك من القرآن؟، قال : كذا وكذا ، قال : فقد زوجتكها بما معك من القرآن .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ( مزید ) عورتوں میں رغبت نہیں۔ ایک صحابی نے عرض کیا : اس عورت سے میری شادی کر دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (حق مہر میں ) کوئی کپڑا دے دیجیے۔ اس نے عرض کیا : میرے پاس کپڑ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے کوئی چیز ضرور دیجیے، خواہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔ اس نے پھر معذرت کر لی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کو قرآن کتنا یاد ہے؟ اس نے عرض کیا: فلاں فلاں سورت۔ فرمایا : میں نے آپ کے ساتھ اس عورت کی شادی اس قرآن کے عوض کر دی ہے، جو آپ کو یاد ہے۔“
(صحيح البخاري : 5029 ؛ صحیح مسلم : 1425)
❀ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) فرماتے ہیں :
فيه جواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن، وهو منهب كافة العلماء .
”اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے، تمام علما کا یہی مذہب ہے۔ “
(إكمال المعلم : 584/4 ، عمدة القاري للعيني الحنفي : 144/12)